اللہ کا عذاب کیوں آتا ہے؟

روزانہ کی بنیاد پر کم ہوتی ہوئی قوتِ برداشت اور تحمل و بردباری کی گرتی ہوئی صورتحال کے طفیل اب یہ لکھتے ہوئے بھی متوقع فتوؤں سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی اگر درست تشریح کی جائے کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب ہماری مسلسل نالائقیوں‘ نااہلیوں اور بے ایمانیوں کے طفیل آیا ہے اور ان ساری چیزوں کا تعلق ہماری نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور دیگر عبادات سے نہیں بلکہ مسلسل آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہنے سے ہے۔ دریاو ٔں اور ندی نالوں پر تجاوزات سے ہے۔ پانی کے لیے اللہ کے بنائے ہوئے قدرتی راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے دنیا بھر میں اس قسم کی صورتحال کے مستقل حل کیلئے بنائے جانے والے ڈیموں سے نظریں چرانے کے طفیل ہے۔ دنیا بھر میں سیلابوں اور بارشوں کے پانی کو ریلوں کی صورت تباہی مچانے سے روکنے کا مستقل حل اس پانی کو ذخیرہ کر کے نکالا جاتا ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے یعنی ڈیم بنانے کی یہ تکنیک ہی اس تباہی اور بربادی کو روکنے کا واحد لانگ ٹرم حل ہے۔ ڈیم تین بنیادی کام سرانجام دیتا ہے: پہلا تو یہی کہ فالتو اور نقصان دہ سیلابی پانی کو آبادیاں تباہ کرنے کی آزادی دینے کے بجائے اسے ذخیرہ کر کے پابند کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا کام یہ ہے کہ یہ پانی جو عام حالات میں پہلے تباہی پھیلاتا ہے اور اس کے بعد سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اس پانی کو ان دنوں میں کام میں لایا جاتا ہے جن دنوں اس کی قلت ہوتی ہے جیسے ہمارے ہاں سردیوں میں دریاو ٔں کا پانی بہت ہی کم رہ جاتا ہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دنیا کی سستی ترین بجلی یعنی ہائیڈل پاور حاصل کی جاتی ہے۔
ہم ہر چند سالوں کے بعد اس تباہی سے بھی گزرتے ہیں اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھا کر سال بہ سال پانی کی کمی کے بڑھتے ہوئے سنگین خطرے سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں۔ آئندہ چند سال اگر یہی حالت رہی تو پاکستان باقاعدہ خشک سالی اور اس کے نتیجے میں غذائی قحط کا شکار ہو جائے گا۔ غذائی قلت والی سٹیج سے تو ہم اب گزر رہے ہیں اگلی سٹیج قحط ہے جو موجودہ صورتحال کے برقرار رہنے پر نوشتۂ دیوار ہے۔ پرانے ڈیم جمع ہونے والی سِلٹ کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں ہونے والی کمی کے باعث خشک دنوں میں زراعت کیلئے درکار آبپاشی کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں اور ہر آنے والا دن اس کمی میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
کالا باغ ڈیم کے مخالفین اس کی تعمیر کے خلاف جو سب سے بڑی دلیل دیتے تھے وہ یہ تھی کہ اگر یہ ڈیم بن گیا تو اس سے نوشہرہ‘ پبی‘ مردان اور چارسدہ شہر ڈوب جائیں گے۔ ڈوبے تو وہ اب بھی ہیں مگر ڈیم بننے کے باعث نہیں‘ بلکہ ڈیم نہ بننے کے باعث ڈوبے ہیں۔ اگر اَپ سٹریم ڈیم بن گئے ہوتے تو یہ سیلابی ریلے آبادیوں کو تباہ و برباد کرنے کے بجائے سردیوں میں ملک کی آبپاشی کی ضروریات پورے کرنے کے کام آتے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ڈیم سیاست اور سازش کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ غیر معمولی بارشوں اور موسم کی تبدیلیوں کے باعث گلیشیرز سے آنے والے پانی سے جو تباہ کن سیلاب کی صورتحال پیش آئی ہے اس کے بارے میں جس صاحب علم سے بات کی وہ اس کا واحد مستقل اور دیرپا حل صرف ڈیم ہی بتاتا ہے۔ یہ صرف مقامی ماہرین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے آبی مسائل اور ان کا حل نکالنے والے ماہرین یک زبان ہو کر یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں یہ تباہی اس نالائقی اور نااہلی کے طفیل آئی ہے جو اس نے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم نہ بنا کر خود اپنے لیے پیدا کی ہے۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارے دریا بھل سے بھر چکے ہیں۔ ندی نالے تجاوزات کی زد میں ہیں۔ پہاڑی دریاو ٔں کے عین بیچ میں ہوٹل بن چکے ہیں۔ پہاڑوں کو بلڈوزروں سے برابر کر کے ہاؤسنگ سکیمیں بنانے کے خبط نے پانی کے قدرتی بہاو ٔ کا جو بیڑہ غرق کیا‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانی نے سب کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر عالمی سطح پر دو باتیں تسلسل سے ہو رہی ہیں‘ وہ یہ کہ پاکستان کو اس سلسلے میں دی جانے والی عالمی امداد میں حکمران اور اشرافیہ طبقہ اتنی خورد برد کرتاہے کہ اصل حقداروں تک اس امداد کا عشر عشیر بھی نہیں پہنچتا اور بیشتر امداد بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ مستحقین کو اس میں سے کچھ نہیں ملتا اور دوسری بات جو حالیہ سیلاب کے تناظر میں ہو رہی ہے وہ یہ کہ اس تباہی کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو اس مسئلے کا مستقل حل نکال سکتے ہیں مگر یہ ان کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بیشتر ممالک بارشوں اور سیلاب سے آنے والے پانی کا بندوبست کر چکے ہیں اور وہ پانی جو وہاں تباہی لاتا تھا وہ پانی اب ان کیلئے زرعی خوشحالی کا باعث ہے اور اس ذخیرہ شدہ پانی کے طفیل انہیں سارا سال وافر پانی میسر ہوتا ہے۔ ڈیموں میں جمع شدہ پانی کے زمین میں رساو ٔ کے باعث اردگرد کے علاقوں میں پانی کی زیر زمین سطح بھی بلند ہو جاتی ہے۔
اللہ رحیم و کریم تو یقینا مجھے معاف کر دے گا لیکن خوف تو ان سے آتا ہے جو خدائی احکامات کی اپنی تشریح کرتے ہیں اور پھر ان کی اس تشریح سے اختلاف کرنے والے کی خیر نہیں ہوتی ہے۔ مجھے اس بات سے تو قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ یہ سیلاب اور بارشیں ہمارے برے اعمال کے نتیجے میں ہی تباہی پھیلا رہی ہیں لیکن اختلاف برے اعمال کی تشریح پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا‘ عقلِ سلیم سے نوازا‘ برے بھلے کی پہچان عطا کی‘ پہاڑ سر کرنے اور سمندروں کی تہہ کھنگالنے کی صلاحیت بخشی‘ خلا سے پار جانے کی قوت دی اور زمین کا سینہ چیر کر چھپی ہوئی نعمتوں کو نکالنے پر مامور کیا۔ سائنس کے حیرت ناک کارنامے سرانجام دینے کی توفیق دی اور بغیر کسی مادی رابطے کے تصویر اور آواز کو لاکھوں میل دور پہنچانے پر قدرت بخشی۔ ایسے میں کوئی قوم اس مالکِ کائنات کی دی گئی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھائے‘ اس کی بخشی ہوئی عقل کو استعمال نہ کرے‘سامنے آئی ہوئی مشکل اور مصیبت کا حل نکالنے پر قادر ہونے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے اور مالکِ کائنات کے دیے ہوئے اختیار کو استعمال کر کے اس تباہی پر قابو پانے کے بجائے خیرات کا کٹورا اٹھا کر ساری دنیا میں بھیک مانگتی پھرے تو آپ خود بتائیں اس سے زیادہ بداعمالی اور کیا ہو سکتی ہے؟
اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان بے شمار نعمتوں کو بنی نوع انسان کی بھلائی اور بہتری کیلئے استعمال نہ کرے تو بھلا اللہ کی نعمتوں کی اس سے بڑی ناقدری اور کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور آسانیوں سے منہ موڑنے والا دنیا میں مشکلات اور مصائب کا شکار نہیں ہوگا تو بھلا اور کیا ہوگا؟ بھلا اس کی دی ہوئی صلاحیتوں اور کرم نوازیوں سے فائدہ نہ اٹھانے سے عذاب نہیں آئے گا تو اور کیا آئے گا۔ آخر وہ لوگ جنہیں ہم کفار کہہ کر اللہ کی رحمت سے محروم قرار دیتے ہیں اگر اللہ کی دی ہوئی توفیق اور اس کی بخشی ہوئی عقل سے کام لیتے ہوئے اپنے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں تو ہم اس نعمت خداوندی سے انکاری ہو کر اس کے غضب کو دعوت نہیں دیتے تواور کیا کرتے ہیں؟ ہم کچھ بھی نہ کرنے کے بعد حیرانی سے سوال کرتے ہیں کہ اللہ کا عذاب کیسے آتا ہے ؟