کیا یکساں سول کوڈ کا نفاذ انڈیا کی مسلم خواتین کو وہ حقوق دلوا پائے گا جو فی الحال انھیں حاصل نہیں ہیں؟

انڈیا سے تعلق رکھنے والی سنیتا ایک ہندو خاتون ہیں جنھوں نے ماضی میں ایک مسلمان لڑکے سے شادی کے لیے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا۔

شادی شدہ زندگی کئی برس تک بہت اچھی چلی اور اس دوران اُن کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے تاہم اس کے بعد حالات بدلے اور اُن کے شوہر نے انھیں چھوڑ کر دوسری شادی کر لی ہے۔

سنیتا کہتی ہیں کہ انھیں نہ تو کوئی حق حاصل ہے اور نہ ہی کوئی قانونی تحفظ کیونکہ وہ اپنے شوہر کے جس گھر میں رہتی ہیں اسے خالی کرنے کا انھیں قانونی نوٹس ملا ہے۔

سنیتا کا کہنا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون ہونا چاہیے جو اس طرح کے حالات میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کر سکے۔

یاد رہے کہ انڈیا میں رائج مسلم فیملی قوانین کے تحت اُن کے مسلمان شوہر کو انھیں طلاق دینے یا طلاق دیے بغیر دوسری شادی کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر سنیتا نے مذہب تبدیل کیے بغیر یعنی ہندو رہتے ہوئے شادی کی ہوتی تو اُن کے مسلم شوہر کو نہ تو انھیں یکطرفہ طور پر طلاق دینے کا حق ہوتا اور نہ ہی وہ انھیں اپنی جائیداد میں ان کے حصے سے محروم کر سکتے تھے اور نہ ہی وہ ان سے طلاق لیے بغیر دوسری شادی کر نے کے مجاز ہوتے۔

کیونکہ یہ تمام حقوق انڈیا میں مسلم خواتین کو مسلم پرسنل لا کے تحت حاصل نہیں ہیں۔

سنیتا سے آگے چل کر دیکھتے ہیں ہاشمی بانو کی کہانی۔ ہاشمی پیدائشی طور پر مسلمان ہیں اور جب وہ 15 برس کی تھیں تو ان کے والدین نے اپنے بزرگوں کے دباؤ پر ان کی شادی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ انڈیا میں شادی کے لیے قانونی طور پر لڑکی کی عمر 18 بر س ہونی چاہیے لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ کے قانون کے تحت لڑکی ماہواری شروع ہوتے ہی بالغ تصور کی جاتی ہے اور اس کی شادی کی جا سکتی ہے۔

ہاشمی بانو نے اپنے گھر سے بھاگ کر ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد لی۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کی اور آج وہ ایک کاماب کارپوریٹ وکیل ہیں۔ اگر انھوں نے گھر چھوڑنے کی ہمت نہ کی ہوتی تو 15 برس میں ان کی شادی ہو گئی ہوتی۔

انڈیا میں ہندوؤں، مسلمانوں اور سبھی دوسرے مذاہب میں شادی، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات اپنے اپنے پرسنل قوانین سے طے پاتے ہیں۔

ہندو پرسنل لا میں گزرے عشروں میں کئی بار ترامیم اور اصلاحات کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں ہندو خواتین کو وہ بہت سے حقوق حاصل ہو گئے ہیں جو مسلم خواتین کو فی الحال حاصل نہیں ہیں۔

انڈیا میں شادی، طلاق، وراثت، اور گود لینےجیسے معاملات کے لیے ملک میں یکساں سول کوڈ یا قانون نہیں ہے جس کا اطلاق سبھی شہریوں پر ہوتا ہو۔

تقسیم برصغیر کے بعد جب انڈیا کا آئین وضع کیا گیا تو اس وقت سبھی شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ بنایا گیا تھا لیکن ہندو، مسلم اور کئی دیگر مذاہب کے رہنماؤں نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے ان کی مذہبی شناخت، روایتوں اور رواجوں کو زک پہنچے گی۔

شدید مخالفت کے سبب اسے آئین میں شامل نہیں کیا گیا لیکن اسے آئین کے رہنما اصولوں میں یہ کہہ کر شامل کیا گیا کہ وقت کے ساتھ مستقبل کی حکومتیں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو تیار کریں گی۔

آزادی کے 75 برس بعد اب بی جے پی کے اقتدار والی کئی ریاستیں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی طرف قدم بڑھا رہی ہیں۔ 1980 میں جب بی جے پی موجودہ شکل میں قائم کی گئی تو اس نے ایودھیا میں رام مند کی تعمیر اور کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو بھی اپنے بنیادی مقاصد کے منشور میں شامل کیا تھا۔

بی جے پی اپنے منشور کے ابتدائی دو مقاصد حاصل کر چکی ہے اور اب صرف یکساں سول کوڈ کا نفاذ باقی بچا ہے جسے وہ مکمل کرنے کا ارادہ کر رہی ہے۔

بی جے پی کا نعرہ ہے ’ایک ملک ایک قانون‘۔ تاہم جمعیت العلما ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی مسلم تنظیمیں یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کا پہلے ہی اعلان کر چکی ہیں۔

تاہم یکساں سول کوڈ کے اطلاق پر ایک مرتبہ پھر بحث ہو رہی ہے جس کے بعد سے انڈیا میں بسنے والے خاندانوں میں یہ چہ میگوئیاں چل رہی ہیں کہ کیا انڈیا میں اب مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کر سکیں گے؟ کیا اب طلاق دینا اسلامی طریقے سے ممکن نہیں رہے گا؟ اور کیا وراثت جیسے معاملوں میں اب اسلامی اصول کا اطلاق نہیں ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی لکھنؤ کی نائش حسن کہتی ہیں کہ یونیفارم سول کوڈ یا یو سی سی صرف مسلم برادری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سبھی کے لیے ہو گا۔ رہی بات مسلمانوں کی تو جو مسئلے سو برس پہلے تھے وہ آج بھی درپیش ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت فکر کی بات ہے۔ خلع کا سوال، گود لینے کا سوال، طلاق احسن اور طلاق حسن، حلالہ کا سوال، جائیداد میں لڑکیوں کا حق اب بھی ایک مسئلہ ہے۔ ہماری برادری کے یہ مسائل ابھی تک نہیں حل کیے گئے ہیں۔‘

سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر زویا حسن اس امر سے اتفاق کرتی ہیں کہ ہندو پرسنل لا، کرسچیئن پرسنل لا، پارسی لا اور دوسری برادریوں کے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں اور عورتوں کو بہت حقوق دیے گئے مگر وقت کے ساتھ مسلم پرسنل لا میں سب سے کم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یونیفارم سول کوڈ میں کیا چیزیں شامل کی جائیں گی۔ یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ یونیفارم سول کوڈ جو الگ الگ پرسنل لاز ہیں ان کے مشترکہ پہلوؤں کی بنیاد پر بنے گا یا از سر نو ایک نیا سول کوڈ وضع کیا جائے گا، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ ہندوؤں اور دوسری مذہبی برادریوں کے قوانین میں کافی اصلاح کی گئی ہے جبکہ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے جس میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔‘

سپریم کورٹ کی سرکردہ وکیل گیتا لوتھرا کہتی ہیں کہ یکساں سول قانون کا مقصد ہندو، مسلم، پارسی، سکھ، مسیحی، بودھ مت سبھی کو برابری کا حق اور انصاف دینا ہے۔

’ہمیں سبھی کو برابر کے حقوق دینا ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں الگ الگ مذاہب کی انفرادیت بھی ختم نہیں کرنی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ جیسے کہ کوئی نکاح کے ذریعے شادی کرنا چاہتا ہے، کوئی سناتنی دھرم کے ذریعے شادی کرنا چاہتا ہے، کوئی آریہ سماجی طریقے سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ تو قانون ایسا ہی بننا چاہیے کہ جو مذہبی روایات، ضابطے، انفرادیت کو برقرار رکھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یونیفارم سول کوڈ کا مطلب حقوق ختم کرنا نہیں ہے بلکہ حقوق دلانا ہے۔‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ذکیہ سمن کہتی ہیں کہ یکساں سول قانون کی ضرورت اس لیے ہے کہ تاکہ خواتین کو انصاف ملے اور ان کو برابر کےحقوق مل سکیں۔

ان کے خیال میں ’یونیفارم سول کوڈ میں لڑکی اور لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر طے ہونی چاہیے۔ طلاق کا ایک مسلمہ طریقہ وضع کیا جائے۔ ایک سے زیادہ شادی کو غیر قانونی قرار دیا جائے، نکاح حلالہ قابل سزا جرم قرار دیا جائے، بچوں کی گارڈین شپ اور کسٹڈی میں ماں کو بھی برابر کا حق ملے۔ عورتوں کو وراثت میں حق ملنا چاہیے۔ شادیوں کی رجسٹری لازمی ہونی چاہيے ۔ یہ تمام باتیں اس یکساں سول قانون میں شامل ہونی چاہییں اور ان کی گنجائش ہمارے مذہب میں بھی ہے۔‘

انڈیا میں یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت اگرچہ ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی نے اس سوال کو سیاسی اور انتخابی رنگ دے دیا ہے۔

ذکیہ سمن کہتی ہیں دائیں بازو کی تنظیمیں اسے مسلمانوں کو سبق سکھانے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ان کے خیال میں ان شکوک کی وجہ سے اس کی کئی حلقوں میں مخالفت ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لیکن آج پورے ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس ماحول میں بات آگے بڑھنی چاہیے لیکن اس وقت ہمارے ملک کی جس طرح کی سیاست ہے اس میں یہ کہنا مشکل ہے کہ کہ یہ کیا رخ اختیار کرے گا۔‘