اَپن ہی بھگوان ہے

حکومت کرنا اور اس سے زیادہ اپنے جیسے انسانوں پر حکمران بننے کی خواہش رکھنا بڑا خطرناک کھیل ہے۔ یہ کچھ لوگ ہی کھیل سکتے ہیں کہ اس کھیل میں آپ کسی کی جان لے سکتے ہیں اور آپ کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔
حکمرانی کا نشہ ایسا ہے کہ آپ کو اپنے جیسے انسان انسان ہی نہیں لگتے۔ وہی بھارتی فلم والا ڈائیلاگ کہ ”کبھی تو اَپن کو لگتا ہے اَپن ہی بھگوان ہے‘‘۔ آپ اپنے مقصد کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ بیویاں چھوڑ سکتے ہیں۔ تین تین سال تک بچوں سے ملنا بند کر سکتے ہیں۔ بھائیوں کو پھانسی‘ باپ کو جیل یا انگلینڈ کے بادشاہ ہنری ہشتم کی طرح تین چار بیویوں کو جلاد کے حوالے کرکے ان کے سرقلم کرا سکتے ہیں کہ وہ آپ کو وارث پیدا کرکے نہیں دے رہیں۔ چرچ آف روم دوسری شادی کی اجازت نہیں دے رہا تو آپ اپنا چرچ آف انگلینڈ قائم کرکے شادی کی اجازت لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کا باپ شاہجہاں ہے اور آپ کے بھائی داراشکوہ کو بادشاہ بنانا چاہتا ہے تو آپ بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید میں ڈال سکتے ہیں۔ یہ اور بات کہ جس شاہجہاں سے آپ ہمدردی رکھتے ہیں کہ اس کے بیٹے اورنگزیب نے ظلم کیا‘ وہ خود بھی اپنے بھائیوں کو قتل کرکے ہندوستان کا بادشاہ بنا تھا۔ شاید کرما اسی کو کہتے ہیں کہ آپ کسی کے ساتھ اچھا کررہے ہیں تو کہیں نہ کہیں آپ کے ساتھ بھی اچھا ہورہا ہوتا ہے۔ اگر آپ کہیں برا کررہے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی برا ہورہا ہوتا ہے۔
شاہجہاں سے پہلے جہانگیر نے اپنے ایک بیٹے سے جنگ لڑی۔ خود اس نے اپنے باپ اکبر کے ساتھ جنگ لڑی تھی۔ جب جہانگیر کے بیٹے کو زنجیروں میں جکڑ کر لایا گیا تو اس نے باپ سے کہا: دادا جان کے خلاف آپ نے بھی جنگ لڑی تھی‘ بغاوت کی تھی‘ آپ بھی میری طرح جنگ ہار گئے تھے۔ دادا جان نے تو آپ کو معاف کر دیا تھا۔ مجھے بھی معاف کر دیں۔ جہانگیر نے بڑا تاریخی جواب دیا کہ آج ہندوستان کے اس تخت پر بیٹھ کر میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے دادا نے غلط فیصلہ کیا تھا‘ انہیں مجھے مروا دینا چاہئے تھا اور جلاد سے کہا کہ لے جائو اور باغی بیٹے کی گردن اتار دو۔
کبھی کبھار لگتا ہے کہ مغلوں میں بابر ہی اپنی اولاد سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرتا تھا۔ جب ہمایوں بیمار ہوا تو رو رو کر دعا مانگی کہ بیٹے کے بدلے اس کی جان لے لی جائے۔ دعا قبول ہوئی‘ بابر مرگیا اور ہندوستان کا تخت ہمایوں کو دے گیا۔ وہی ہمایوں باپ کی قربانی کی قدر نہ کرسکا اور کچھ عرصے بعد شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ایران بیٹھا سات سال تک اپنے زخم چاٹتا رہا۔ خیر اکبر نے بھی دادا بابر کی روایت کو جاری رکھا اور بیٹے سلیم کو بغاوت کے باوجود معاف کردیا لیکن سلیم نے باپ سے ایک ہی سبق سیکھا کہ حکمران کو بے رحم اور سنگدل ہونا چاہئے۔ پھر شاہجہاں نے یہی سبق سیکھا اور بھائیوں کو قتل کرکے بادشاہ بنا۔ اورنگزیب نے بھی وہی کیا جواسے اپنے بزرگوں کی تاریخ میں ملا یا جو اس کے خون میں شامل تھا۔ بدنام اورنگزیب ہوا ورنہ یہ کام سبھی مغل کرتے رہے۔ ہندوستان کی سرزمین اس سے بڑا کیا انتقام لے سکتی تھی کہ بادشاہ شاہجہاں کے سامنے اس کا ایک بیٹا تین بھائیوں کو قتل کر دے‘ اپنے بھتیجوں تک کو مروا دے۔ خوشونت سنگھ نے اپنے باکمال ناول ”Dehli‘‘ میں لکھا کہ سکھ کیوں اورنگزیب سے ناراض ہیں کہ اس نے ان کے گرو مروائے؟ وہ لکھتا ہے کہ جس نے اپنے باپ کو قید کیا‘ بھائیوں کو جنگوں میں قتل کیا‘ اپنے اس بھتیجے کو قتل کیا جسے زنجیروں میں جکڑ کر دلی لایا گیا تاکہ اسے پھانسی دی جائے تو پورا دلی اس خوبصورت جوان کو دیکھنے امڈ آیا تھا۔ سب نے منت ترلا کیا کہ اس کو بخش دے‘ لیکن اورنگزیب کا دل نہ پسیجا۔ کہتے ہیں اُس رات دلی کے گھروں میں اس نوجوان کے افسوس میں چولہے نہ جلے تھے۔
کبھی حیران ہوتا ہوں کہ انسان اتنا وحشی کیسے ہو جاتا ہے۔ حکمرانی کا جنون پاگل کر دیتا ہے اور آپ ڈاکٹر فائوسٹس کی طرح روح کا سودا کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنے جیسے انسانوں پرثابت کرسکیں کہ آ پ کو خدا نے تمام لوگوں سے افضل پیدا کیا۔ آپ کو لوگوں پر حکمرانی کیلئے بھیجا گیا۔ آپ تاریخ میں کئی مثالیں دیکھتے ہیں جب انسانوں نے خود خدا ہونے کا دعویٰ کیا‘ یہ سمجھاکہ نہ ہم نے مرنا ہے نہ بوڑھے ہونا ہے۔ جب بھارتی سپرسٹار راجیش کھنہ کا انتقال ہوا تو ان کا ایک دوست ٹی وی پر بتا رہا تھاکہ کھنہ صاحب اپنے زمانۂ عروج میں یہ سمجھتے تھے کہ وہ نہ کبھی بوڑھے ہوں گے نہ انہیں موت آئے گی۔ سٹارڈم نے انہیں خود کو بھگوان سمجھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور جب امتیابھ بچن ابھرے اور ان کے سٹارڈم کو گہن لگا تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔ وہ اپنی شکل آئینے میں دیکھنے سے گریز کرتے تھے کہ چہرے پر پڑی جھریاں انہیں تکلیف دیتی تھیں۔ وہ راجیش کھنہ جو بھارتی فلموں کا پہلا سپر سٹار تھا‘ تنہائی کے ہاتھوں موت کا شکار ہوا۔
”اَپن کو بھگوان‘‘ سمجھنے کی روایت اتنی ہی پرانی ہے جتنا انسان خود۔ آپ اپنے اردگرد دیکھ لیں تو ہم بھی ”اَپن کو بھگوان‘‘ سمجھتے ہیں۔ جہاں کوئی کمزور بندہ ہاتھ لگتا ہے ہمارے اندر کا ”بھگوان‘‘ باہر نکل آتا ہے۔ پرویز مشرف کا وہ دبنگ بیان یاد آتا ہے کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو اب کبھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ اب پتہ چلا کہ وہ خود بھی پاکستان واپس نہیں آ سکتے۔ نواز لیگ کے ایک سینیٹر‘ جو سیدھی بات کرنے کے لیے مشہور تھے‘ کو دوستوں نے سمجھایاکہ آپ میاں صاحب کی کچھ خوشامد کیا کریں‘ آپ کو اس لیے وزیر نہیں بناتے کہ ان کی خوشامد چھوڑ‘ تعریف تک نہیں کرتے۔ خیر بڑی مشکل سے وہ راضی ہوئے اور پارٹی اجلاس میں کہہ دیا کہ میاں صاحب لوگ آپ سے بڑی محبت کرتے ہیں‘ آپ اگلے پانچ سال بھی وزیراعظم ہوں گے۔ وہاں بیٹھے ایک سابق سفارتکار جو ریٹائرمنٹ کے بعد میاں صاحب کے قریبی تھے‘ بھڑک اٹھے اور بولے: میاں کیا کہہ رہے ہو‘ صرف اگلی دفعہ؟ میاں صاحب تاحیات وزیراعظم رہیں گے‘ اب ان کو اس کرسی سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ کچھ دنوں بعد میاں صاحب جیل میں تھے۔
ہر دور کے حکمرانوں کو لگتا ہے کہ وہ اس کرسی سے کبھی نہیں اتریں گے۔ بھٹو نے کرسی پر ہاتھ مار کر کہا تھا: یہ بہت مضبوط ہے۔ جنرل ضیا نے اسی کرسی سے پکڑ کر انہیں تارا مسیح کے حوالے کردیا تھا۔ بھٹو نے بھی اپنے دور میں اپوزیشن اور صحافیوں کا جینا حرام کررکھا تھا‘ وہی بات کہ وہ بھی ”اَپن کو بھگوان‘‘ سمجھتے تھے۔ خود جنرل ضیا کے ایک اشارے پر انسانوں کی زندگیاں تباہ کردی گئیں‘ نوجوان پھانسیوں پر لٹکائے گئے‘ جوانیاں شاہی قلعے میں گزر گئیں اور خود ان کا جو انجام ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ شہباز شریف کے دور میں ماڈل ٹائون میں ایک بیریئر ہٹانے کے معاملے پر چودہ لوگ مروائے گئے‘ جس میں دو مائیں بھی تھیں۔ اُن کو اُس وقت لگا ہوگا کہ ”اَپن ہی بھگوان‘‘ ہے۔ بعد میں وہی شہباز شریف پولیس کے ہاتھوں جیل گئے‘ بیٹا حمزہ جیل گیا‘ ایک اور بیٹا اور داماد لندن مفرور۔ لیکن یہ سب کچھ دیکھ کر بھی انسانوں کے اندر سے اپنے جیسے انسانوں پر حکمرانی کی ہوس نہیں جاتی۔ کیسی لذت ہے ویسے ”اپن کو بھگوان‘‘ سمجھنے میں۔
آج کل کسی کو دیکھنا ہوکہ بھارتی فلم کے اس ڈائیلاگ کے مطابق ”کبھی تو اَپن کو لگتا ہے اَپن ہی بھگوان ہے‘‘ تو وزیراعظم عمران خان کو دیکھ لیں۔ اب تو ان کی باتیں سن کر جہاں ڈر لگتا ہے وہیں ان پر ترس بھی آتا ہے۔ کیا کریں کوئی نہیں سوچتاکہ ان سے پہلے کتنے گزرے جن کو ان کے خوشامدی وزیر اور درباری تو چھوڑیں وہ خود کو بھی یہی یقین دلاتے تھے کہ اَپن ہی بھگوان ہے۔