تحقیق کا بند دروازہ

جس طرح رکشہ ملتان کی سڑکوں پر بے آبرو ”کھیہ‘‘ کھا رہا ہوتا ہے‘ سکردو میں عین اسی طرح پراڈو رُل رہی ہوتی ہے۔ پرانے ماڈل سے لے کر نئے ماڈل تک‘ ہر قسم اور ہر نسل کی پراڈو۔ ٹی زیڈ‘ جی ایکس‘ ٹی ایکس اور اللہ جانے کون کون سا ماڈل۔ یہ گاڑی ادھر پنجاب وغیرہ میں دکھائی دے تو بندے کا ویسے تراہ نکل جائے مگر سکردو میں یہ گاڑی ٹکے ٹوکری ہوئے پھرتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ سکردو آنے والے سیاحوں اور مسافروں میں مقبول ہے یا اس کی کوئی خاص ڈیمانڈ ہے بلکہ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ گاڑی بغیر کسٹم ڈیوٹی وغیرہ یہاں بہت سستی دستیاب ہے۔ افغانستان سے براستہ سوات اور بشام گھومتی ہوئی یہ سمگل شدہ گاڑیاں سکردو میں اس قیمت پر مل جاتی ہیں جس قیمت پر پنجاب میں نئی سوزوکی آلٹو خریدی جا سکتی ہے۔ سال اور ماڈل کے لحاظ سے قیمتوں میں فرق ہے اور اسی طرح اس کے کرائے میں بھی ماڈل کا دخل ہے۔ کسی نے پہلے پہل یہ والی گاڑی خریدی ہو گی بس اس کے بعد ہر ڈرائیور نے مقابلے کی ٹھان لی اور یہی گاڑی خرید لی۔ اس مقابلے بازی میں کرایہ پر حاصل کی جانے والی گاڑیوں کی مارکیٹ کا قریب اسی فیصد شیئر صرف اسی ایک گاڑی نے سمیٹ لیا ہے۔
قریب 45سال قبل جب میں پہلی بار سکردو آیا تو یہاں پرانی ”بھنکچڑ‘‘ قسم کی اوپن جیپیں چلا کرتی تھیں۔ دیوسائی جانے کیلئے جیپ کے بھرنے کا گھنٹوں انتظار کیا تب جا کر کہیں جیپ روانہ ہوئی۔ پوری جیپ کرنے کی تو خیر تب استطاعت ہی نہ تھی اس لیے انفرادی سواریوں والی جیپ پر تقریباً لٹک کر دیوسائی پہنچے۔ سفر اتنا مشکل‘ غیر آرام دہ اور تھکا دینے والا تھا کہ اب سوچوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا وہ میں ہی تھا جو ان خستہ حال اور پھٹیچر قسم کی زمانہ قدیم کی جیپوں کے چھتوں پر بیٹھ کر یا لٹک کر سکردو سے دیو سائی یا دیر سے چترال اور چترال سے وادیٔ بمبوریت چلا جایا کرتا تھا۔ اب بھی ناران سے جھیل سیف الملوک چالیس پچاس سال پرانے ماڈل کی سافٹ ٹاپ جیپیں چلتی ہیں مگر یہ جیپیں جس محبت‘ لگن اور محنت سے تیار کی گئی ہیں اسے دیکھ کر چھوٹے روٹس پر چلنے والی وہ پرانی اور خستہ حال بسیں یاد آ جاتی ہیں جن کو ڈینٹنگ پینٹنگ کے بعد ممکنہ حد تک نیا کرنے کے بعد ان کے پیچھے لکھوایا جاتا ہے کہ ”وقت نے ایک بار پھر دلہن بنا دیا‘‘۔
1978ء میں منیر چودھری‘ ایوب خان اور قائد اقبال رجوانہ کے ہمراہ نوشہرہ سے جی ٹی ایس پشاور کی بس پر سوار ہو کر دیر پہنچے اور وہاں سے اسی قسم کی جیپ پر رات گئے چترال پہنچے تو جسم کا انجر پنجر بری طرح ہل چکا تھا اور رات کو سونے کیلئے کسی ایسے ہوٹل میں جگہ نہیں تھی جو ہماری جیب سے مطابقت رکھتا ہو۔ بالآخر ایک ہوٹل کی چھت پر پڑی چارپائیوں پر جگہ ملی مگر اتنے مچھر تھے کہ خدا کی پناہ‘ اوپر سے مجھے منہ پر چادر وغیرہ لینے کی عادت نہیں۔ منہ اندر کروں تو سانس بند ہوتی محسوس ہو اور باہر نکالوں تو مچھروں کی فوج ظفر موج حملہ کر دے۔ ساری رات اسی کشمکش میں گزر گئی۔ صبح اسی قسم کی جیپ پکڑی اور چترال سے ایون چلے گئے اور وہاں سے اس جیپ کی جڑواں بہن نے ہمیں بمبوریت پہنچا دیا۔
پراڈو پر سوار ہو کر شگر کیلئے روانہ ہوئے تو یادوں کا ایک ریلہ سا آیا اور ایسی ایسی کھڑکیاں وا ہوئیں کہ انگریزی کا مشہور محاورہ یاد آ گیا جس میں کہتے ہیں کہ خوبصورت یادیں سدا کیلئے خوشی کا باعث ہوتی ہیں۔ دوسری بار میں جولائی 1999ء میں سکردو آیا۔ تب کارگل کی جنگ زوروں پر تھی۔ ایک امریکی صحافی ایتھن کیسی کے ہمراہ کارگل کے اگلے محاذ پر کئی دن گزارے۔ حمزی غنڈ کے فیلڈ ہسپتال میں رات اس طرح گزری کہ صبح بھارت سے آنے والے گولوں کا حساب کرنے والے نے بتایا کہ رات کافی پُرسکون تھی۔ صرف سات سو کے لگ بھگ گولے آپ کے اوپر سے گزرے تھے۔ کل رات نو سو گولے گزرے تھے۔
سکردو سے حمزی غنڈ کے راستے میں ایک گاؤں آیا جس کا نام باغیچہ تھا۔ یہ نام اتنا خوبصورت اور گاؤں کی ہیئت ترکیبی سے اتنی مطابقت رکھتا تھا کہ باوجود اس کے کہ مسافر کی یادداشت کچھ خاص اچھی نہیں‘ اس گاؤں کا نام یاد ہے۔ تنگ اور کچی سڑک خوبانیوں کے باغات کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ سکردو واپس آکر ان خوبانیوں کا ذکر سکردو کے ایک رہائشی سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ اگر خوبانیاں دیکھنی ہیں تو پھر شگر جائیں۔ آپ کو جتنی اقسام کی خوبانیاں شگر وادی میں ملیں گی اتنی کہیں نہیں۔ 24سال پہلے سُنی ہوئی بات ابھی تک یادداشت کے کسی کونے میں پڑی وقت آنے پر دستک دینے کی منتظر رہی۔ سو اس نے سکردو پہنچ کر اپنا پرانا قرض اُتار دیا۔
شگر روانہ ہونے سے پہلے ہی ایک بات پلے باندھ رکھی تھی کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو‘ شگر کی خوبانیاں ضرور چکھنی ہیں اور مجھے تو ویسے بھی خوبانیاں کھائے دس برس سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔ ان دس برسوں کے دوران کئی برس تو ایسے گزرے کہ کسی پھل کو چکھ کر بھی نہ دیکھا۔ حتیٰ کہ اپنے پسندیدہ ترین انور رٹول اور ثمر بہشت چونسہ آم سے بھی کوئی تعلق واسطہ نہ رہا۔ پھر ایک دن چھوٹی بیٹی نے کہہ دیا کہ اگر آپ آم نہیں کھائیں گا تو میں بھی آم نہیں کھاؤں گی۔ آم تو گھر میں صرف آتے ہی اس کیلئے تھے۔ بھلا اسے انکار کیسے ہو سکتا تھا؟ اس روز شاید چار سال بعد آم کھائے۔ اب بھی یہ عالم ہے کہ کبھی کسی پھل کیلئے دل نہیں کیا۔ ہاں! بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھا لوں تو اور بات ہے‘ لیکن اپنے شوق سے کبھی بیٹھ کر کوئی پھل نہیں کھایا مگر شگر کی خوبانیوں کا بچوں سے اتنا ذکر کر چکا تھا کہ اب ان کے ساتھ بیٹھ کر کھائے بغیر چارہ نہیں تھا۔
یادش بخیر کبھی ریڑھیوں پر ایسی رسیلی‘ میٹھی اور نرم خوبانیاں ملا کرتی تھیں کہ اب صرف یادوں کے نہاں خانوں میں باقی ہیں۔ درمیانے سائز کے سیاہ آلو بخارے ہوا کرتے تھے‘ نرم ایسے کہ زور سے پکڑیں تو ہاتھ شیرے سے بھر جاتے۔ اسد کو یہ نرم والے آلو بخارے پسند تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان آلو بخاروں کی جگہ بڑے سائز کے سیاہ آلو بخاروں نے لے لی۔ سخت ایسے کہ جیسے پتھرہوں۔ نہ مٹھاس‘ نہ ذائقہ‘ نہ رس اور نہ ہی خوشبو‘ پھل بھی ایسے بے برکت ہو گئے ہیں جیسا بے برکت دور آ گیا ہے۔ ایک روز نرم جالی دار سفید پیکنگ میں انفرادی طور پر لپٹی ہوئی ناشپاتیاں لے آیا کہ بچوں کو پسند ہیں۔ چھری سے کاٹیں تو لگا کہ جیسے لکڑی سے بنی ہوں۔ بچپن میں کھائے ہوئے بگوگوشے یاد آ گئے۔ منہ میں ڈالیں تو گھل جائیں۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ کھائیں وہ جو من کو بھائے اور پہنیں وہ جو زمانے کے مطابق ہو۔ ممکن ہے یہ ہماری کھانے کی عادات اور بچپن سے جڑا ہوا ذائقے کا معاملہ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اب زیادہ پیداوار کے حامل ہائبرڈ پھلوں کے متعارف ہونے سے جہاں باغ والے کی پیداوار اور اس سے جڑی ہوئی آمدنی بڑھ گئی ہے وہیں پھلوں میں سے مٹھاس‘ رس‘ خوشبو اور ذائقہ ویسا نہیں رہا جو ہم عشروں پہلے چکھ بھی چکے ہیں اور ہماری یادداشت میں ابھی تک محفوظ بھی ہے۔ لیکن زمانے کا یہی چلن ہے۔ ہمارے پرانے روایتی دیسی پھل اب تجارتی طور پر گھاٹے کا سودا بن چکے ہیں اور ظاہر ہے باغبان کو گاہک کے منہ سے لگے ہوئے ذائقے کی چاٹ سے زیادہ اپنا منافع عزیز ہے کہ اس کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے اور یہی اس کا ذریعہ آمدنی ہے۔
میں زرعی سائنسدان تو نہیں کہ اس سلسلے میں کوئی گائیڈ لائن دے سکوں مگر یہ ہر گز ناممکن نہیں کہ ہمارے ہارٹی کلچر کے پلانٹ جینیٹکس کے ماہرین ہمارے دیسی پھلوں کے ذائقے‘ خوشبو‘ مٹھاس اور لذت کو محفوظ رکھتے ہوئے ایسے ہائبرڈ پھل متعارف کرائیں جو باغبان کیلئے منافع بخش اور کھانے والوں کیلئے فرحت بخش ہوں۔ میرے خیال میں یہ کوئی ناممکن کام نہ تھا‘ مگر جب قوم تحقیق کا دروازہ ہی بند کر دے تو پھر کیا ہو سکتا ہے۔