حبس کے موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا

ٹنڈو اللہ یار سے حیدر آباد کی طرف پانچ چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے جس کا نام راشد آباد ہے۔ اور بھلا یہ قصبہ بھی کب ہے‘ یہ تو جاگیرداری‘جہالت‘ عدم مساوات اور استحصال کے سمندر میں امیدوں کا ایک جزیرہ ہے۔اس ریگستان میں خوابوں کا لہلہاتا ہوا نخلستان ہے اور حبس کے موسم میں تازہ اور ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
یہ ریٹائرڈ کموڈور شبیر احمد خان کا آدرش ہے۔ چوبیس سال پہلے لگایا گیا ایک چھوٹا سا پودا ہے جس کے بارے میں کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کمزور سا پودا اس سخت زمین اور نامساعد موسم میں پنپ بھی سکے گا‘ کجا کہ درخت بن جائے اور پھل پھول سے لد جائے۔ سو اب یہ درخت چھاؤں دے رہا ہے۔اس کے پھول چہار اطراف میں خوشبو بکھیر رہے ہیں اور اس کے پھلوں سے مخلوقِ خدا مستفید ہو رہی ہے۔ یہ قصبہ تو ہے ہی نہیں‘ اگر حقیقی معنوں میں اس کی تشریح کی جائے تو یہ ایک چھوٹا سا ”ایجوکیشنل اینڈ ہیلتھ سٹی‘‘ ہے۔
1971ء میں شبیر احمد خان فلائٹ لیفٹیننٹ تھے اور راشد منہاس شہید (نشانِ حیدر) ان کے جونیئر پائلٹ تھے۔ وہ اپنے بنگالی انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کے ساتھ تربیتی پرواز پر تھے‘ یہ بیس اگست 1971ء کا دن تھا جب مطیع الرحمان نے اس پرواز کا رُخ بھارت کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ راشد منہاس نے اُڑتے ہوئے جہاز میں اس کے خلاف مزاحمت کی‘ اسی کشمکش کے دوران راشد منہاس نے جہاز کا رخ بھارت کے بجائے زمین کی طرف موڑ دیا۔ مطیع الرحمان کا مذموم ارادہ ناکام ہوا‘ جہاز تباہ ہو گیا اور راشد منہاس شہید ہو کر اَمر ہو گئے۔ انہیں نشان حیدر ملا‘ وہ نشانِ حیدر پانے والے سب سے کم عمر شہید تھے۔
تب شبیر احمد خان کے گھر ایک ننھے مہمان کی آمد قریب تھی۔ نومولود کا نام اُن کے والد نے اپنے جونیئر پائلٹ راشد منہاس شہید کے نام پر راشد احمد خان رکھا۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ راشد منہاس کی شہادت کے چھبیس سال بعد شبیر احمد خان کا جواں سال بیٹا راشد احمد خان جو پاک فضائیہ میں پائلٹ تھا‘ کے جہاز میں فنی خرابی سے آگ لگ گئی۔ راشد احمد خان چاہتا تو اپنا پیرا شوٹ کھول کر جمپ لگا سکتا تھا مگر اسلحے اور فیول سے لدا ہوا جہاز نیچے آبادی پر گرتا تو بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کا اندیشہ تھا۔ راشد جہاز کو آبادی سے دور لے جانے کی کوشش میں دوسروں کو بچاتا ہوا اَمر ہو گیا۔ یہ قصبہ راشد آباد دو شہیدوں سے جڑی ہوئی داستان کا نتیجہ ہے۔
اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت پر دلگرفتہ شبیر احمد خان‘ جو پاک فضائیہ سے بطور ایئر کموڈور ریٹائر ہو چکے تھے‘نے اپنی پنشن اور بقایا جات سے اس جگہ سو ایکڑ کے لگ بھگ زمین خرید کر اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کا آغاز کیا۔ بعد ازاں 1971ء کی جنگ کے دیگر غازیوں نے ان کے ساتھ اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتے ہوئے ریٹائرمنٹ پر ملنے والے اپنے بقایا جات اس خواب کی تعمیر میں صرف کر دیے۔ اس کام میں مرحوم ایم ایم عالم نے بھی حصہ ڈالا (بعض معلومات کی فراہمی کے لیے میں اپنے قاری سید رضی احمد کا شکر گزار ہوں)۔ 13دسمبر 1998ء کو اس قطعۂ زمین پر کام کا آغاز ہوا۔ یہ اس علاقے میں تعلیم اور صحت کے اداروں پر مشتمل ایک قصبے راشد آباد کی ابتدا تھی۔ تب کسی کو شاید گمان بھی نہیں ہوگا کہ چند ریٹائرڈ لوگوں کا اٹھایا گیا یہ پہلا قدم کتنا آگے جائے گا۔ خلوص کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
راشد آباد آہستہ آہستہ شکل نکالتا گیا۔ 2008ء میں یہاں ریلوے سٹیشن قائم ہو گیا۔ اس کے بعد یہاں وائی کے اکیڈمی (یعقوب خواجہ اکیڈمی) قائم ہوئی جہاں ابتدائی کلاسوں سے لے کر میٹرک تک نو سو بچے انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ صاحبِ حیثیت خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات پوری فیس ادا کرتے ہیں جبکہ مستحق بچوں کی ساری تعلیم‘ کتابیں‘ یونیفارم اور ٹرانسپورٹیشن بالکل مفت ہے۔ پھر وہاں ٹی سی ایف (دی سٹیزن فاؤنڈیشن) سکول بن گیا۔ 2008ء میں برطانیہ کی ایک رفاہی تنظیم ایل آر بی ٹی (لیٹن رحمت اللہ بناولنٹ ٹرسٹ) نے آنکھوں کے مفت علاج کا ہسپتال بنا دیا۔ راشد آباد اور گردو نواح کے رہائشیوں کے لیے 5000گیلن یومیہ استعداد کے سٹیٹ آف دی آرٹ آر او واٹر فلٹریشن پلانٹ سے صاف شدہ پانی کا معیار بہت سے نامور برانڈز کے منرل واٹر سے کہیں بہتر ہے۔
یہاں ڈی ایم کے ایم ویلفیئر فنڈ کے تحت ایک ووکیشنل ٹریننگ سنٹر ہے جہاں خواتین کو ہنر کاری‘ دستکاری‘ سلائی‘ کڑھائی اور دیگر فنون کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہاں خرم حسین اور سمیرہ نے سماعت سے محروم بچوں کے لیے 500طلبہ کی تعلیمی ضروریات کے مطابق ایک پورا سکول بنایا ہے جہاں ان خصوصی بچوں کو تعلیم‘ فنی علوم اور عملی ٹریننگ کے علاوہ رہائشی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہاں بصارت سے محروم بچوں کے لیے امریکہ کے رہائشی شاہنواز نے اپنے والد سلطان علی کے نام پر ایک ادارہ بنایا ہے جس میں تین سو بچوں کی تعلیم و تربیت جبکہ سو بچوں کے لیے رہائشی سہولت میسر ہے۔ اسی طرح این ای ڈی یونیورسٹی کے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ اور المصطفیٰ ٹرسٹ نے مل کر راشد آباد کے نواح میں دس دیہات میں بچیوں کو تعلیم دینے کا پروجیکٹ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت ان بچیوں کو مفت تعلیم اور کتابیں فراہم کی جاتی ہیں۔جاگیرداری اور جہالت کی سرزمین میں یہ قصبہ حقیقی معنوں میں تعلیم اور صحت کے میدان میں کچھ کر گزرنے کی لگن اور مقصد رکھنے والے لوگوں کا ایسا خواب ہے جو اپنی تعبیر کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔
صحت کے شعبہ میں تھیلسیمیا کے مریضوں کے لیے نابتھ سلطان علی بلڈ بینک اینڈ ٹرانسفیوژن سنٹر ہے جسے فاطمید فاؤنڈیشن چلاتی ہے۔ بلقیس مشرف میڈیکل کمپلیکس میں 200بستروں پر مشتمل ہسپتال ہے‘ پتھالوجی لیبارٹری موجود ہے‘زچہ بچہ کی صحت کا مکمل انتظام جس میں آپریشن تھیٹر بھی موجود ہے۔ اس ہسپتال میں ڈائیلسز کی سہولت میسر ہے اور دل کے امراض کے علاوہ آئی سی یو زیرِ تعمیر ہے۔ چار عدد موبائل وینز پر مشتمل کلینک اور موبائل ڈسپنسریز راشد آباد کے پندرہ کلو میٹر کے دائرے کے اندر واقع دیہات میں مفت اور فوری علاج کی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں۔ ہر ایک وین ہفتے میں چھ دن تین دیہات میں مقررہ اوقات میں ان دیہات کے رہائشیوں کو علاج معالجے میں مدد دیتی ہیں۔ اوسطاً ہر وین روزانہ پچیس سے تیس افراد تک اپنی سروس پہنچاتی ہے۔ اسی شہرِ سہولت میں جسمانی اور ذہنی معذوری کے شکار بچوں کے لیے ”رجب علی کلثوم بائی دارالسکون‘‘ ہے جس میں اڑھائی سو بچوں اور ایک سو بزرگوں کے لیے رہائشی سہولت بھی ہے اور ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھنے کا مکمل بندوبست بھی موجود ہے۔ ان تمام سہولیات کے علاوہ درجن بھر دیگر پروجیکٹس بھی ہیں جو اس چھوٹے سے قصبے کو بہت سے بڑے شہروں سے ممتاز کرتے ہیں۔
قارئین! آپ یقین کریں اس منفرد قصبے پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر کالم کا دامن محدود ہے اور راشد آباد کو اس میں سمیٹنا مشکل تر۔ اس ملک میں صرف توشہ خانہ‘منی لانڈرنگ‘ مقصود چپڑاسی‘ عذیر بلوچ‘ شاہ رخ جتوئی‘ فالودے والے کا اکاؤنٹ‘ اسمبلیوں کی توڑ پھوڑ‘ مقتدر حلقوں کی دخل اندازی‘ آڈیو اور وڈیو لیکس‘ ٹرانسفر پوسٹنگز کی لوٹ سیل‘ ملزموں کی فوج ظفر موج کی جیل کے بجائے مسندِ اقتدار تک رسائی‘ مفروروں کی بریت اور ڈاکوؤں کی وزارتِ اعلیٰ تک تعیناتی وغیرہ ہی کالموں کا موضوع نہیں ہونا چاہیے۔ راشد آباد کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ حبس کے موسم میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا اپنا ہی لطف ہے۔