آبِ گم سے حرفِ چند

اب تو اس قسم کے کالم لکھتے ہوئے اور بار بار ایک ہی بات کو دہراتے ہوئے کوفت سی محسوس ہوتی ہے لیکن پھر جی کڑا کرکے لکھنے بیٹھ جاتے ہیں کہ اگر ہم نے لکھنا بھی بند کر دیا تو روزِ قیامت اپنی ذمہ داری کا کیا جواب دیں گے۔ ملکی معیشت کا جہاز ویسے تو ڈوب چکا ہے مگر اس کا پیندا قرضوں کے کسی نہ کسی ٹاپو پر اڑ جاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ شاید معیشت کا جہاز ابھی اپنے زور پر تیر رہا ہے۔ اس برے عالم میں بھی ہمارے اللوں تللوں کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی شخص تھوڑی سی بھی عقل رکھتا ہو‘ اسے ہماری معاشی بربادی کی سمجھ آ سکتی ہے لیکن اگر سمجھ نہیں آ رہی تو ہمیں نہیں آ رہی اور اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم دراصل اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ اسی لاعلمی میں ہماری موج لگی ہوئی ہے اور ہماری ساری اشرافیہ‘ جی ہاں! ساری اشرافیہ۔ اب اس ”ساری‘‘ کی کیا وضاحت کریں‘ آپ سب ماشا اللہ خود بڑے سمجھدار ہیں۔
اللوں تللوں کی تفصیل کیا بیان کریں‘ آپ مقتدر حلقوں کے توپ افسروں کی‘ نظامِ انصاف کے چودھریوں کی‘ نوکر شاہی کے اونچے شملوں کی اور حکمرانوں کی تنخواہوں‘ مراعات اور دیگر سہولتوں کا موازنہ اپنے ہمسایہ ملک سے کریں تو آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ آپ بھلے سے ان تنخواہوں اور مراعات کا حساب کرتے ہوئے اپنے روپے کی پاتال میں گرتی ہوئی قیمت کو بھی جوڑ لیں (کبھی ایک بھارتی روپیہ ہمارے اسی پیسے میں آتا تھا اور اب وہ ساڑھے تین پاکستانی روپوں کے برابر ہے) تو بندہ پریشان ہو جائے کہ ہمارے حکمران اور اشرافیہ اس ملک کو کس طرح نچوڑ رہی ہے اور اسے احساس ہی نہیں کہ ان کے لالچ اور لوٹ مار نے اس ملک کی معیشت کا کیا حال کر دیا ہے۔
میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں ایک کلب کی دعوت پر وہاں پہنچا تو ایک‘ دو ذاتی دوست بھی ملنے آ گئے۔ میرے وہ ذاتی دوست اسی شہر‘ بلکہ اسی کلب والے ادارے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے ساتھ اس کلب کی انتظامیہ کے دو چار اور لوگ جو ان کے دوست تھے‘ آ گئے اور گپ شپ کا سلسلہ چل نکلا۔ کلب کا ایک عہدیدار کہنے لگا کہ ہم نے اپنے کلب کی تزئینِ نو کے لیے جب اس ادارے کے سربراہ سے چند لاکھ مانگے تو وہ آگے سے کہنے لگا کہ چند لاکھ کی منظوری کے لیے آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟ اگر میرے پاس آنا ہے تو کم از کم میرے عہدے کی شان کے مطابق کی رقم کی ڈیمانڈ لائیں۔ کم از کم دو‘ چار کروڑ تو ہو جس پر مجھے دستخط کرتے ہوئے مزہ آئے۔ وہ دوست بتانے لگا کہ موصوف نے چارچ سنبھالنے کے بعد اپنے دفتر کی تزئین و آرائش پر‘ جو اُن سے پہلے والے سربراہ نے تین سال قبل ہی پوری طرح Renovate کیا تھا‘ چار کروڑ روپے خرچ کر دیے۔ جب ایسی کہانیاں سنتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ہمیں کس قسم کے بے درد اور بے حس اشرافیہ سے پالا پڑا ہے۔
ملک میں حکمران تو موجود ہیں لیکن حکومت نام کی کوئی چیز کم از کم اس عاجز کو کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ عالم یہ ہے کہ نہ کسی سے کچے کے ڈاکو قابو آ رہے ہیں اور نہ پکے کے ڈاکوؤں کو کوئی روک تھام ہے۔ حکومت کے پھیلاؤ کا یہ عالم ہے کہ ہر دوسرے چوتھے دن کسی نہ کسی اتحادی کو حکومت برقرار رکھنے کے عوض وزارت‘ مشاورت یا معاونِ خصوصی کا عہدہ بخش دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی سرکار بخشیوں کے طفیل ہماری وفاقی کابینہ مع مشیران و معاونینِ خصوصی کی تعداد ملکی قرضوں کی مانند روز بڑھتی رہتی ہے اور اب یہ سب کچھ شمار سے بھی باہر ہو چکا ہے کہ بندہ ہر چوتھے دن کابینہ میں شامل ہونے والے اقتدار کے ان سہولت کاروں کا کہاں تک حساب رکھے؟
کل ہم شاہ جی سے دل کے پھپھولے جلا رہے تھے کہ وہ کہنے لگے: تم خواہ مخواہ اس قسم کی فضول فکر میں اپنا خون اور دوسروں کا دل جلا رہے ہو۔ ان وزیروں‘ مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی تعداد چھیاسی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی خدمات بلامعاوضہ اس ملک و قوم کو فراہم کر رہے ہیں۔ یقین کریں میرا تو منہ حیرانی سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ میں نے کہا: شاہ جی! یہ بات ذرا دوبارہ کہیں۔ وہ کہنے لگے یہ بات میں خود سے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ بات تو ملک کے وزیراعظم جناب شہباز شریف نے بتائی ہے کہ ان کے سارے وزیر‘ مشیر اور معاونِ خصوصی بلامعاوضہ و بلاتنخواہ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ میں نے کہا: شاہ جی آپ بھی نہایت بھولے آدمی ہیں کہ آپ نے ایک سیاستدان کی بات کا یقین کر لیا۔ اس ملک میں تو انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھنے والے جناب ثاقب نثار نے عمران خان کو صادق و امین قرار دے دیا تھا تو آپ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟
میں ان چھیاسی میں سے بہت سوں کو نہیں جانتا لیکن جن کو جانتا ہوں ان کے بارے میں اگر کوئی شخص ایک پنجابی محاورے کے مطابق گرم توے پر بیٹھ کر بھی حلف دے تو میں یقین نہیں کروں گا کہ کہ بلا معاوضہ کوئی کام کر سکتے ہیں کیونکہ میں ان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ پھر میں نے شاہ جی سے سوال کیا کہ آپ ماشا اللہ ملتان سے بننے والے ایک ایسے ہی معاون خصوصی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ سے حلف درکار نہیں‘ صرف ایمانداری سے بتا دیں کہ کیا وہ شخص بلامعاوضہ کسی کو اپنا بخار بھی بخش سکتا ہے جو وہ معاونِ خصوصی بن کر بلامعاوضہ خدمات سرانجام دینے لگے جائے؟ تنخواہ کی حد تک تو یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہیں لیتے ہوں گے لیکن آپ کم از کم اسے مفت اور بلامعاوضہ تو نہ کہیں۔ آپ ان سب لوگوں کی تصویریں ہی دیکھ لیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ سب کس قدر محب وطن اور ملک و قوم کے ہمدرد ہیں کہ بلامعاوضہ قومی خدمت سر انجام دینے جیسے اعلیٰ و ارفع کام سرانجام دینے لگ جائیں۔ ان کی شکلیں دیکھیں تو مرشدی مشتاق یوسفی کی کتاب آب گم کا ایک اقتباس یاد آ جاتا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:
خان صاحب برسوں چیک پر انگوٹھا لگاتے رہے۔ لیکن جب ان کا بینک بیلنس ایک لاکھ روپے ہو گیا‘ تو انہوں نے اردو میں دستخط کرنے سیکھ لیے۔ دستخط کیا تھے‘ لگتا تھا کہ کوئی لنگڑا کاکروچ دوات میں غسل کر کے کاغذ پر سے گزر گیا ہے۔ دستخط کے دوران ان کا ہاتھ ایسی توڑا مروڑی سے گزرتا اور ہر چھوٹا بڑا دائرہ بناتے وقت ان کے کھلے ہوئے منہ کی گولائی اس طرح گھٹتی بڑھتی کہ ایک ہی دستخط کے بعد ان کے ہاتھ اور دیکھنے والے کی آنکھ میں باؤٹا آ جاتا! ان کا اکاؤنٹ مسلم کمرشل بینک چوک یادگار برانچ میں تھا جہاں اردو میں دستخط کرنے والے کو اشٹام پیپر پر ایک توہین آمیز indemnity (ضمانت) دینی پڑتی تھی کہ ان کے اکاؤنٹ میں جعلی دستخط کے سبب کوئی فراڈ ہو گیا تو بینک ذمہ دار نہ ہوگا بلکہ اگر اس کے نتیجے میں بینک کو کوئی نقصان پہنچا تو اسے بھی وہی بھریں گے۔ خان صاحب کو جب اس کا مطلب پشتو میں سمجھایا تو وہ مشتعل ہو گئے۔ بکتے جھکتے وہ بینک کے انگریز منیجر مسٹر اے میکلین کے پاس احتجاج کرنے گئے۔ کہنے لگے میرے دستخط اتنے خراب ہیں کہ کوئی تعلیم یافتہ آدمی بنا ہی نہیں سکتا۔ جب میں خود اپنے دستخط اتنی مصیبت سے کرتا ہوں تو وہ دوسرا کیسے بنا سکتا ہے؟ آپ کے سٹاف میں دو درجن آدمی تو ہوں گے۔ سب کے سب شکل سے چور‘ اچکے اور نوسرباز لگتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی میرے دستخط بنا کر دکھا دے تو فوراً ایک ہزار انعام دوں گا پھر گولی سے اڑا دوں گا۔
میں نے کہا: شاہ جی! اس اقتباس کی گہرائی میں جائیں‘ خان صاحب کے آخری جملے پر غور کریں اور بس اس سے لطف لیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خان صاحب والے بینک میں دو درجن لوگ تھے جبکہ ادھر اپنی جہازی کابینہ میں سات درجن سے زیادہ لوگ ہیں۔