لاوارث صحرا

کنڈے والی پل سے تھوڑا آگے چولستان شروع ہو جاتا ہے۔ چولستان خواجہ غلام فرید کی روہی ہے جہاں کے ”پیلوں‘‘ کو خواجہ نے اپنی کافیوں کے ذریعے اَمر کر دیا وگرنہ ایمانداری کی بات ہے‘ اس مٹر کے دانے سے بھی چھوٹی بیجوں بھری جامنی رنگ کی پیلی سی شے کو پھل کہتے ہوئے بھی جھجک محسوس ہوتی ہے‘ لیکن خواجہ فرید کی شاعری کا کمال ہے کہ اپنی شہرۂ آفاق کافی سے انہوں نے ”پیلوں‘‘ کو امر کر دیا۔
آ چنوں رل یار
پیلوں پکیاں نی وے
کئی بگڑیاں کئی ساویاں پیلیاں
کئی بھوریاں کئی پھکڑیاں نیلیاں
پھر آخر میں لکھتے ہیں:
آیاں پیلوں چنن دے سانگے
اوڑک تھیاں فریدن وانگے
چھوڑ ارام قرار
ہکیاں بکیاں وے
(اے دوست! پیلو پک گئے ہیں۔ آؤ انہیں مل کر چنیں۔ کئی ابھی سفید ہیں، کئی سبز ہیں اور کچھ پیلے ہیں۔ کئی بھورے رنگ کے ہو چکے ہیں اور کچھ پھیکے نیلے رنگ کے ہیں(پیلو پکنے کے درجہ بہ درجہ رنگ اور مراحل) پیلو چننے کو جو آئی تھیں آخر کار وہ بھی فرید کی مانند تیرِ عشق سے گھائل ہو کر اسی کی طرح ہو گئیں اور اپنا آرام و سکون چھوڑ کر نقش حیرت بن گئیں)
سڑک کے دونوں طرف سبزہ تھا۔ کبھی یہاں محض جھاڑیاں، جال، پیلو اور گوندی کے درختوں کے علاوہ سبزہ نام کا نہیں ہوتا تھا مگر اب بہت رقبہ آباد ہو چکا ہے۔ فی الوقت رایا اور گندم کی فصلیں اطراف میں لہلہا رہی تھیں۔ فروری کا پہلا عشرہ تھا لیکن موسم میں خنکی بس دمِ رخصت پر تھی۔ موسم کا سارا پیٹرن ہی تبدیل ہو گیا ہے۔ فروری کبھی ایسا گرم تو نہیں ہوتا تھا۔ اگر گرمی کی یہی حالت رہی تو گندم کی فصل کو بہت دھچکا لگے گا۔ گندم کو سٹّہ لگ چکا ہے اور دانہ پکنے کے مراحل میں ہے۔ ایسے میں موسم میں آنے والی حدت گندم کی پیداوار پر بڑا منفی اثر ڈالے گی۔ رایا کی فصل خوب تھی جس پر پھول کم اور پھلیاں زیادہ تھیں۔ یہ نشانی تھی کہ فصل پکنے کے قریب ہے۔ سرسوں کے پیلے پھولوں کا جوبن اپنے اختتام پر تھا اور یہ اس بات کا اعلان تھا کہ سرسوں کا تازہ ساگ اب اگلے سیزن پر نصیب ہوگا۔ اب دیکھتے ہیں فریزر میں محفوظ کیا ہوا سرسوں کا ساگ کب تک چلتا ہے۔
سرسوں کے کھیت کو جنوری میں دیکھنے کا جو لطف ہے وہ بھلا قلم کے ذریعے کاغذ پر کیسے اتارا جا سکتا ہے؟ یہ تو صرف دیکھنے کی چیز ہے۔ موٹروے پر عبدالحکیم سے آگے سمندری کی طرف یا کہیں کہیں وریام والا سے پنڈی بھٹیاں کے درمیان اور کلر کہار سے بلکسر تک۔ لیکن جو نظارہ موٹروے سے اتر کر چکوال جاتے ہوئے اور پھر چکوال سے جی ٹی روڈ تک کے ٹکڑے میں دکھائی پڑتا ہے اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں صرف پھولی ہوئی سرسوں کے پیلے تختے دیکھنے کیلئے موٹروے چھوڑی اور اندر سے جی ٹی روڈ پر نکل گیا۔ کہاں موٹروے کی آرام دہ ڈرائیونگ اور کہاں اس سنگل سڑک کے جھٹکے۔ مگر آنکھوں کی ٹھنڈک بھلا مفت میں کب ملتی ہے۔
شاہی والا سے کنڈے والی پل اور پھر دراوڑ تک سڑک کے اطراف میں رقبہ کسی حد تک آباد ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے۔ کسی طرح مل بیٹھ کر دریائی پانی کی تقسیم پر اتفاق رائے کر کے اگر ایک دو نہریں اس ریگستان کو سیراب کر دیں تو لاکھوں ایکڑ پر ایسا سبزہ لہلہائے کہ یقین نہ آئے کہ کبھی یہ صحرا تھا‘ مگر ایسا ہوتا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ایک کھیت میں کاشتکار کو دیکھ میں گاڑی کو ایک طرف کھڑی کر کے کھیت کے کنارے اترا ہی تھا کہ وہ کسان میرے پاس آ کر پوچھنے لگا کہ خیریت ہے جو میں رک گیا ہوں؟ پھر مجھے کہنے لگا کہ اس کے لائق کوئی کام ہو تو بتاؤں۔ میں نے کہا :مجھے کوئی کام نہیں۔ بس اس سے اس کی فصل کے بارے میں پوچھنا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ بس اللہ میاں کرم کرے ورنہ حال ٹھیک نہیں۔ چند روز پہلے ایسی سردی تھی کہ فصل پر تین رات لگاتار کورا پڑتا رہا اور پھر یوں ہوا کہ اگلے ہی روز ایک دم درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو گیا کہ جنوری کے آخر میں سوچنا بھی محال تھا۔ اگر سٹہ نہ لگا ہوتا تو کورے سے فائدہ ہو جاتا مگر اب تو دانہ بن رہا ہے۔ ایسے میں پہلے کورا اور پھر ایک دم گرمی، فصل بڑے دباؤ میں ہے اور فی ایکڑ پیداوار پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔
چند روز پہلے یہی بات ایک اور دوست بھی کہہ رہا تھا کہ گرمی قبل از وقت اپنا رنگ دکھا رہی ہے اور یہ گندم کی فصل کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ اس سیزن میں گندم کی پیداوار شاید گزشتہ سال سے کم ہو۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ اب گندم پر ہونے والا خرچہ جسے آپ اس فصل کیلئے درکار Inputs کہہ سکتے ہیں‘ بہت بڑھ گیا ہے۔ یوریا کی قیمت گزشتہ دوسال میں دوگنا ہو چکی ہے۔ ڈی اے پی کی قیمت ڈیڑھ دو سال میں تین گنا ہو چکی ہے۔ ڈیزل کا خرچہ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے اور یہی حال بجلی کا ہے۔ اوپر سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ گندم عام آدمی کے استعمال کی جنس ہے اور اس کی امدادی قیمت ناقابلِ برداشت حد تک نہیں بڑھائی جا سکتی کہ اس کا بوجھ بالآخر جا کر غریب آدمی کی کمر توڑے گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ ذرائع مداخل کی قیمت کم کی جائے اور کھاد وغیرہ پر مل مالکان کو سبسڈی دینے کے بجائے براہ راست غریب آدمی کو آٹے پر دی جائے کیونکہ مل مالکان کو دی جانے والی ساری سبسڈی غریب کے بجائے سرمایہ دار کی جیب میں جاتی ہے اور وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اسے گھما پھرا کر اپنے ہی گھر میں لے آتا ہے۔ سرکار کا پیسہ بھی لگ جاتا ہے اور عام آدمی کو ریلیف بھی نہیں ملتا۔
دوسری بات جو اس سال دکھائی دے رہی ہے وہ یہ کہ گندم کا کاشتہ رقبہ گزشتہ سال کی نسبت کچھ کم ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دوسری فصلات میں کاشتکار کو بہتر قیمت مل رہی ہے۔ ا س وقت مکئی کی قیمت تین ہزار روپے فی من کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ہر طرف سے امڈتی ہوئی مہنگائی میں کاشتکار وہی فصل کاشت کرے گا جس میں اسے دو پیسے کا فائدہ ہوگا، اب اسے محض قومی خدمت کے نام پر کم منافع بخش فصل کاشت کرنے پر مائل تو نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اس کا سارے سال کا روزگار ہے اور اس نے اسی سے اپنا گھر چلانا ہے اور بال بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ کاشتہ رقبہ کم ہونے کے پیچھے وجوہات میں آپ متبادل فصلوں کو وجہ قرار دیں یا زرعی زمینوں کا ہاؤسنگ کالونیوں میں بدل جانا قرار دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملک کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے جبکہ گندم کی پیداوار میں اس نسبت سے اضافہ نہیں ہو رہا اور آنے والے سالوں میں طلب اور رسد کے درمیان فرق بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جس کا فوری حل نکالنا از حد ضروری ہے وگرنہ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ خراب سے خراب تر ہوتا جائے گا۔
چولستان کی زمین کو آباد کر کے اس خطرے کو بہت جلد کم کیا جا سکتا ہے لیکن اس زمین کی ملکیت کا مسئلہ ہی طے نہیں ہو رہا۔ زمین کا بیشتر حصہ نواب بہاولپور کے وارثان کی ملکیت ہے لیکن معاملہ عدالتوں میں ہے اور نواب بہاولپور مرحوم کے ورثا نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس کو آگے بیچ رکھا ہے‘ تاہم کسی خریدار کے پاس رجسٹری نہیں ہے اور سارا کام صرف اشٹام پر چل رہا ہے۔ بہت سی زمین زور آوروں کو الاٹ ہو چکی ہے اور انکی اکثریت نے زمین آگے ٹھیکے پر دے رکھی ہے یا فروخت کر دی ہے۔ سرکار میں بیٹھے لوگ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے بقیہ زمین کو غتربود کرنے کے چکر میں ہیں۔ ایسے میں بھلا معاملات کیسے درست ہو سکتے ہیں؟ یہ ایسی بدقسمت سرزمین ہے جو لاتعداد وارثوں کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث ہے۔