آئین کی کسمپرسی اور اخلاقیات کا دیوالیہ پن

مجھے ہفتے میں تین کالم لکھنے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ یہ والے تین دن ہر روز ہی آ جاتے ہیں اور ہفتہ محض انہی تین دنوں پر مشتمل اکائی ہے مگر کبھی کبھی دل کرتا ہے کاش لکھنے کیلئے صرف یہ تین دن نہ ہوتے بلکہ سات دن ہوتے بلکہ کبھی کبھار تو بندہ سوچتا ہے کہ ہر دن اگر دو کالم لکھنے کی سہولت ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
کبھی ایسا تھا کہ آئین کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے سوچنا پڑتا تھا کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جس سے آئین کی توہین کا یا بے توقیری کا احساس پیدا ہو۔ لیکن اب جو کچھ آئین کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ اس ملک میں اداروں کے بارے میں‘ تگڑے لوگوں کے بارے میں‘ مقدس گائیوں کے بارے میں لکھنے کیلئے احتیاط ضروری ہے باقی جس کے بارے میں جو جی چاہے لکھ دیں یا کہہ لیں اس کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہے۔ آئین بھی خیر سے اب ایسی والی ہی بے ضرر اور بے وقعت چیزوں میں شمار ہو رہا ہے۔
ہمارے ایک دوست ہمیشہ سے ہی کہتے ہیں کہ ہمارا آئین اس وقت تک کارآمد اور مکمل ہے جب تک آپ کو اس کی ضرورت نہ پڑے مگر جیسے کہیں اس کی ضرورت آن پڑے یا اس سے رہنمائی لینے کی مشکل درپیش ہو تو پتا چلتا ہے کہ ہمارا آئین راوی کی طرح ہمیشہ اہم اور ضروری موقع پر عین وقت پر خاموش دکھائی دیتا ہے اور ہر بار اس کی تشریح کیلئے ایک‘ دوچار یا پانچ رکنی عدالتی بینچ سے رہنمائی لینی پڑتی ہے۔ یعنی جو کام تین سو بیالیس ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے وہ مستقلاً چار چھ لوگوں کے سپرد ہو چکا ہے۔
معاملہ عدم اعتماد کا آن پڑے تو آئین یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سپیکر اگر آئین میں طے شدہ دنوں میں معاملہ حل نہ کرے تو کیا ہوگا؟ اعتماد کا ووٹ لینے کا معاملہ درپیش ہو تو عدالت سے جا کر پوچھنا پڑتا ہے کہ آئین اس معاملے میں جو کہنا چاہتا ہے براہ کرم وہ ہمیں آپ بتا دیں۔ اگر صوبائی اسمبلی توڑ دی جائے تو اس کیلئے انتخابات کی تاریخ دینے کی بابت آئین کے آرٹیکل 105میں گو کہ واضح درج ہے کہ گورنر اس کی تاریخ دے گا لیکن اگر گورنر یہ تاریخ نہ دے تو کیا ہوگا؟ اب اس معاملے پر گزشتہ کئی روز سے گھمسان مچا ہوا ہے اور صدر کے خط نے مزید گھڑمس پیدا کر دیا ہے۔ اب اس صورتحال میں جلد یا بدیر پھر عدالت کا رخ کرنا پڑے گا۔ گورنر صاحبان کا مؤقف ہے کہ کیونکہ انہوں نے اسمبلی توڑی ہی نہیں لہٰذا وہ اس توڑی جانے والی اسمبلی کے دوبارہ انتخاب کیلئے تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں رکھتے؛ تاہم یہ بڑے مزے کی بات ہے کہ جو اسمبلیاں انہوں نے توڑی ہی نہیں وہ نہ صرف یہ کہ فارغ ہو چکی ہیں بلکہ ان اسمبلیوں کی منتخب کردہ حکومتیں بھی گھر جا چکی ہیں اور ان نہ توڑی جانے والی اسمبلیوں اور فارغ ہونے والی حکومتوں کے متبادل کے طور پر جو نگران حکومتیں بنی ہیں‘ دونوں گورنر صاحبان نہ صرف یہ کہ اس حکومت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان نگران وزرائے اعلیٰ اور دیگر وزرا کا حلف بھی گورنر ہاؤسز میں لے چکے ہیں۔ ان کے حساب سے اگر اسمبلی ٹوٹی ہی نہیں تو وہ حلف کس نگران حکومت کا لے رہے ہیں؟
وہی دوست کل دوبارہ ملا تو ہنس کر کہنے لگا کہ دیکھ لیں میری بات کتنی درست ہے کہ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے ہمارا آئین اس وقت نہ کسی کے کام آتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی چلتی ہے۔ ہر مصیبت کے وقت آئین کے بجائے عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور آج کل یہی ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے اس دوست سے پوچھا کہ آخر وہ اس سلسلے میں کیا چاہتا ہے؟ وہ کہنے لگا: میں چاہتا ہوں کہ ہمارے آئین میں اس قسم کے وضاحت طلب آرٹیکلز کے آگے وضاحت اور صراحت سے لکھا ہونا چاہئے کہ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر یہ ہوگا۔ میں نے کہا لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سا آرٹیکل اس وضاحت والی لسٹ میں آتا ہے؟ اگر نہ ماننا ہو تو پھر آئین میں ایسے بے شمار آرٹیکلز ہیں جن پر اڑچن ڈالی جا سکتی ہے؛ تاہم میرا خیال ہے کہ جن آرٹیکلز میں ایک بات طے کر دی گئی ہے اور اس کی مزید وضاحت نہیں کی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ اس پر ہر حال میں عمل ہونا چاہئے اور اس میں اگر مگر اور چونکہ چنانچہ وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ مثال کے طورپر ہمارے آئین میں آرٹیکل 4 میں درج ہے کہ فرد کے حقوق کا تحفظ قانون کے دائرۂ کار کے اندر رہ کرکیا جائے گا۔ اب یہ ریاست پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔ اب اس کے آگے یہ لکھنا ضروری نہیں کہ اگر ریاست ایسا نہ کرے تو پھر کیا ہوگا؟ اس قسم کے آئینی احکامات بحث کیلئے نہیں بلکہ لازمی طور پر لاگو کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔
وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا :یہ سب کچھ مہذب ملکوں اور معاشروں میں ہوتا ہے جہاں آئین میں لکھی گئی چیزوں پر Letter and spirit عمل درآمد ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آئین عمل کرنے کیلئے نہیں بلکہ اسے گھما پھرا کر اس میں سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالنے کا کام لیا جا رہا ہے۔ جب 1973ء میں آئین بنا تو تھا اُس وقت کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی شخص اس کی واضح ہدایات پر عمل کرنے سے انکاری ہو جائے گا اور آئینی جادوگر ایسے مواقع پر آئین سے اپنی مرضی کے مفاہیم برآمد کریں گے اور ہر ہدایت کی خلاف ورزی پر کہیں گے کہ اس کے آگے آئین کیونکہ خاموش ہے‘ لہٰذا اب ہمارا کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
آئین میں سب سے سخت آرٹیکل چھ ہے جو سنگین غداری سے متعلق ہے۔ اس میں سنگین غداری کی سزا موت درج ہے۔ اب اس کے آگے یہ درج نہیں کہ اگر سنگین غداری کے مجرم کو سزائے موت نہیں دی جائے گی تو پھر کیا ہوگا۔ دراصل جن آرٹیکلز میں کوئی بات طے ہے تو پھر اس پر عمل کرنا لازمی ہے نہ کہ اس کی بنیاد پر فرار کے راستے نکالے جائیں۔ وہ دوست پھر ہنسا اور کہنے لگا: اس قوم کیلئے ضروری ہے کہ اس کیلئے آئین سے فرار کے سارے راستے بند کر دیے جائیں۔ مثلاً یہ طے ہو کہ اگر مقررہ چودہ دن میں اعتماد کا ووٹ نہیں لیا جاتا تو فلاں فلاں کو دھوپ میں کان پکڑوا دیے جائیں گے تاوقتیکہ وہ چودہ دن کے اندر اندر اس پر عمل کروائے۔ اسی طرح یہ بات طے ہو کہ آرٹیکل 105 کے تحت فلاں بندہ اتنے دن کے اندر اندر اسمبلی کے انتخاب کی تاریخ دے گا‘تاریخ نہ دینے کی صورت میں اسے جانگیہ پہنا کر مذکورہ اسمبلی کے سامنے چوک میں کرسی پر کھڑا کر دیا جائے گا اور اسے وہاں اُس وقت تک کھڑا رکھا جائے گا جب تک کہ وہ اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ نہ دے دے۔ یہ قوم اسی طرح سدھرے گی اور آئین پر اسی طرح عمل ہوگا۔
آئین بنانے والوں کا خیال تھا کہ گورنر کسی پارٹی کا نہیں بلکہ وفاق کا نمائندہ ہوگا اور وہ آئین کا پابند ہوگا نہ کہ اپنے لیڈر کا وفادار۔ انہیں کوئی غیب کا علم تو نہیں تھا کہ آئینی عہدوں پر فائز لوگ ریاست اور آئین کے بجائے اپنی پارٹی اور لیڈر کے حکم کو ترجیح دیں گے کہ وہ ہر بات پر اپنی پارٹی سے ہدایت لیں گے۔ گزشتہ دنوں رانا ثناء اللہ نے بیان دیا کہ عارف علوی صدرِ پاکستان بنیں‘ عمران خان کے ترجمان نہ بنیں۔اگر وہ یہ بیان دینے سے قبل پنجاب اور کے پی کے گورنرز کو بھی اسی صف میں کھڑا کر دیتے تو کیا حرج تھا؟ وہ دوست کہنے لگا جس ملک میں گورنر اپنے عہدے کے طفیل کسی سکول کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین ہو اور بالحاظ عہدہ بطور استحقاق اسے اس سکول میں بچے داخل کروانے کیلئے سیٹوں کا کوٹہ ملا ہو ا ور وہ یہ سیٹیں فروخت کر دے وہاں آپ کو اخلاقیات کی بات کرنا جچتا نہیں۔