امجد اسلام امجد‘ ایک ستارہ‘ محبت کا استعارہ

امجد اسلام امجد ان خوش قسمت ترین چند لوگوں میں سے تھے جن کی جھولی اس مالکِ کائنات کی کرم نوازی کے طفیل عزت‘ دولت‘ شہرت اور محبت سے اس طرح بھری رہی کہ محبت کرنے والے رشک کرتے تھے کہ بھلا دنیا میں کسی کو اللہ اس سے بڑھ کر اور کیا عطا کر سکتا ہے جتنا اس نے امجد اسلام امجد کو اپنے بے پایاں خزانوں سے عطا کیا ہے۔ دنیا بھر میں ان کے ان گنت چاہنے والوں کا ایسا حلقہ تھا جو ان سے بے پایاں محبت کرتا تھا اور میں یہ کسی سنی سنائی کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا‘ میں اس کا عینی شاہد ہوں۔ میں نے امجد اسلام امجد کے ساتھ ان گنت بار سفر کیا۔ اندرون ملک نسبتاً کم تاہم بیرون ملک میں نے ان کے ساتھ بلا مبالغہ مہینوں اس طرح گزارے کہ ہم صرف سونے کیلئے اپنے اپنے کمرے میں جاتے تھے وگرنہ سارا دن ایک ساتھ ہوتے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اس کی وجہ امجد صاحب کی وہ شگفتہ طبیعت اور زندہ دلی تھی جو اللہ تعالیٰ نے بہت کم لوگوں کو نصیب کی ہے۔
بیرونِ پاکستان امجد اسلام امجد صاحب نے اپنی زندگی کا آخری مشاعرہ دو اکتوبر 2022ء کو گلاسگو میں پڑھا۔ یہ چھ مشاعروں کی اس سیریز کا آخری مشاعرہ تھا جو غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے یتیم اور نادار بچوں کیلئے فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں منعقد کئے گئے تھے۔ گلاسگو کے اس مشاعرے کا اہتمام ہمارے دوست محمد زبیر ملک نے کیا تھا۔ اس مشاعرے سے پہلے زبیر ملک کے گھر میں ان کے ایک دوست کامران افضل نے امجد صاحب کے ساتھ تصویر بنائی جس میں اس کے بائیں طرف امجد صاحب اور دائیں طرف میں ہوں۔ امجد صاحب اس تصویر میں کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر وہی معصومانہ خوشی‘ مسرت‘ بے ساختہ پن اور زندہ دلی دکھائی دے رہی ہے جو اُن کا خاصہ تھی۔ یہ تصویر میرے فون میں دیگر بہت سی تصاویر کے ساتھ محفوظ ہے مگر اس وقت مجھے اس مسکراتی ہوئی تصویر کی یاد اس لئے آئی ہے کہ مورخہ دس فروری کو رات آٹھ بجے جب میں نے نماز جنازہ پڑھنے کے بعد ڈیفنس کی مسجد کی محراب کے بائیں پہلو میں بنے ہوئے چھوٹے سے کمرے میں ابدی نیند سوئے ہوئے امجد اسلام امجد کا چہرہ آخری بار دیکھا تو اس پر وہی مسکراہٹ تھی جو ساری عمراُن کے اور ان سے مل کر بیٹھنے والوں کے چہروں پر دکھائی دیتی رہی تھی۔
امجد صاحب سے شناسائی کو دوستی میں بدلنے کا سفر سینتالیس سال پر مشتمل ہے۔ گو کہ یہ عاجز امجد اسلام امجد کی شاعری اس سے بھی کئی برس قبل پڑھ چکا تھا مگر ان سے براہ راست تعلق 1976ء میں ہوا جب وہ ملتان یونیورسٹی (بہاء الدین زکریا یونیورسٹی) میں مشاعرہ پڑھنے کیلئے آئے۔ تب میں بے شک ملتان یونیورسٹی کا طالب علم نہ تھا بلکہ ایمرسن کالج میں تھرڈایئر کا طالب علم تھا مگر یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے زیراہتمام ہونے والے اس اولین مشاعرے کے انتظام و انصرام کے سلسلے میں یونین کے صدر مختار عزمی اور جنرل سیکرٹری فاروق تسنیم کا مددگار تھا۔ بعد ازاں زکریا یونیورسٹی کے زیراہتمام ہونے والے مشاعروں کے سلسلے میں 1978ء سے لیکر 1988ء تک‘ تمام مشاعروں کا اہتمام اس عاجز نے کیا اور ا سی دوران امجد صاحب سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو گیا جو تا عمر قائم رہا‘ تاہم اس سلسلے میں اگر امجد اسلام امجد کی طرف سے حوصلہ افزائی نہ ملتی تو بھلا یہ معاملہ کیسے آگے بڑھ سکتا تھا؟
تب موبائل فون وغیرہ کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ ہر سال ہونے والے اس شاندار مشاعرے کے انعقاد کے سلسلے میں کئی بار ایسا ہوا کہ میں لاہور آیا اور ذاتی طور پر شعراسے مل کر انہیں مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔ عطا الحق قاسمی تب علامہ اقبال ٹاؤن میں‘ ڈاکٹر اجمل نیازی وحدت کالونی میں‘ حسن رضوی شادمان والی جی او آر میں اور امجد صاحب ممتاز سٹریٹ گڑھی شاہو میں رہائش پذیر تھے۔ یونیورسٹی میں پڑھنے والے ایک بالکل عام سے طالب علم کو وہ جس محبت اور اہتمام کے ساتھ اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھاتے اب سوچیں تو حیرت ہوتی ہے کہ زندگی میں اس کے بعد ایسے ایسے متکبر اور بے اوقات لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہیں تھوڑی سے شہرت ملی اور وہ جامے سے باہر ہو گئے۔ امجد صاحب کی طبیعت میں جیسی محبت اور انکسار کا تجربہ ہمیں ہوا بالکل اسی طرح گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران ان کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک سفر کے دوران انہیں ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ اسی محبت کے ساتھ پیش آتے دیکھا۔ گزشتہ پانچ عشروں کے دوران ملنے والی بے پایاں شہرت‘ مقبولیت اور ناموری نے ان کو رَتی برابر بھی تبدیل نہیں کیا تھا۔ بڑا آدمی وہ نہیں جس کے پاس دنیاوی کامیابیوں کی طویل فہرست ہو بلکہ بڑا آدمی وہ ہے جس کا دل اتنا بڑا ہو کہ اس میں عام آدمی میں بانٹنے کیلئے باافراط محبت موجود ہو۔ امجد اسلام امجد کا دل مخلوقِ خدا میں تقسیم کی جانے والی محبت سے لبریز تھا۔ امجد اسلام امجد اس حوالے سے بہت بڑے آدمی تھے۔میرے حساب سے امجد اسلام امجد اس وقت اردو دنیائے شاعری کے مقبول ترین شاعر تھے۔ وہ یقینا ایک بہت شاندار استاد‘ نقاد‘ محقق‘ کالم نگار اور ڈرامہ نویس بھی تھے اور پی ٹی وی کے روشن دور میں ٹیلی ویژن دیکھنے والا ہر شخص ان کو ”وارث‘‘ کے حوالے سے جانتا تھا‘ لیکن دنیائے ادب میں وہ اپنی شاعری اور خاص طور پر اپنی نظموں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ہم ہر جانے والے شخص کے بارے میں روایتی جملے بولتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرحوم کا خلا پورا نہیں ہو سکے گا لیکن امجد اسلام امجد کے بارے میں پورے یقین سے اور روایتی جملوں سے ہٹ کر یہ کہوں کہ ان کا خلا واقعتاً تا دیر پورا نہیں ہو سکے گا تو یہ غلط نہ ہوگا کہ فی الوقت اردو شاعری کے منظر نامے میں ان کے پائے کا نظم گو شاعر نہ صرف یہ کہ موجود نہیں بلکہ دور دور تک اس کے متبادل کے طور پر اپنی جگہ بنانے والا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
ڈیفنس کی مسجد میں جنازے سے پہلے شعیب بن عزیز نے مسجد میں امجد صاحب کے چاہنے والوں کے ہجوم کو دیکھا‘ پھر کہنے لگے: پہلے سے قحط الرحال کے شکار اس ملک سے ایک اور بڑا آدمی رخصت ہو گیا۔ یہ جانے والا تو بہت خوش قسمت ہے لیکن ہم وہ بدقسمت ہیں کہ جب ہم رخصت ہوں گے تو ہمارے جنازے میں شاید کوئی بڑا شخص نہیں ہوگا۔ اس ہجوم عاشقانِ امجد اسلام امجد میں کون کون تھا بھلا ایک کالم میں یہ فہرست کہاں سما سکتی ہے لیکن حیرت ہوئی جب مسجد کے صحن میں میری ملاقات ہمدم دیرینہ بریگیڈیئر سلیم گلگتی سے ہوئی۔ بھلا یہ کب اندازہ تھا کہ بریگیڈیئرسلیم گلگتی جیسا بندہ جس کا ادب سے بہت گہرا تعلق بھی نہیں رہا‘ امجد صاحب کے جنازے میں شرکت کیلئے اسلام آباد سے لاہور آ جائے گا۔ امجد صاحب کی شاعری کو اس رب مہربان نے بہت برکت عطا کر رکھی تھی۔
اس دنیا میں آنے والے ہر شخص نے بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور امجد صاحب بھی اسی کی طرف لوٹ گئے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ایک شاندار اور قابلِ فخر زندگی گزاری کہ دنیا میں عزت‘ شہرت اور محبت کی آخری معراج تک پہنچے۔ پاکستان کا کوئی ایسا سول ایوارڈ نہ تھا جو اُن کی ذات سے جڑ کر روشن نہ ہوا ہو۔ستمبر 2022ء کو برطانیہ میں ہونے والے مشاعروں کے سلسلے میں روانگی سے پہلے کہنے لگے :اگر خالد میرے ساتھ سفر کرے گا تو میں برطانیہ جاؤں گا وگرنہ میرا جانا مشکل ہوگا۔ میں نے اپنی ملتان سے روانگی کینسل کروائی اور لاہور سے ان کے ساتھ مانچسٹر روانہ ہو گیا۔ اب وہ ایسے سفر پر روانہ ہو گئے ہیں جس میں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ اللہ رحیم و کریم انہیں ابدی دنیا میں بھی وہی سہولتیں‘ آسانیاں اور عافیت عطا کرے گا جو اس نے انہیں اپنی فانی دنیا میں بدرجہ اتم عطا کئے رکھیں۔