ایک گناہ اور سہی

وطنِ عزیز میں جو ایک کام بڑی تسلی سے ہوتا ہے وہ ہے کچھ عرصے بعد نت نیا تجربہ کرنا۔ اب ایک نیا شغل مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا ہے کہ دو سال کے لیے نگران حکومت لا کر ملک کی معاشی حالت درست کی جائے اور پھر الیکشن کرا کے حکومت دوبارہ سیاستدانوں کو تھما دی جائے کہ چلو بچو‘ دوبارہ شروع ہو جاؤ۔
یہ کوئی پہلا اور آخری شغل نہیں ہے جس کا ڈھنڈورا ہم پیٹ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت وجود میں آئی تھی تو کچھ عرصہ بعد ہی حکومت کے نت نئے سکینڈلز سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان سے جمہوریت اور حکومت نہیں چل پارہی۔ تبھی ایک دن وزیراعظم آفس سے ایک بڑے سرکاری افسر کا میسج ملا کہ بڑا عرصہ ہوا ملاقات نہیں ہوئی‘ کہیں چائے کافی پیتے ہیں۔ ہم رپورٹرز ویسے ہی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں‘ اس لیے ہامی بھر لی۔ سوچا شاید کوئی بڑی خبر مل جائے۔ چائے پر وہ صاحب بولے کہ آپ کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش میں اپنے اخبار کے لیے الیکشن کور کرنے گئے تھے‘ ان انتخابات سے پہلے بنگلہ دیش کا ماڈل کیا تھا جسے کچھ عرصہ چلا کر پھروہاں الیکشن کرائے گئے اور جس کے بعد حسینہ واجد وزیراعظم بن گئی تھیں۔
میں حیران ہوا کہ وزیراعظم آفس کا ایک ذمہ دار بندہ مجھ سے ایسے ماڈل کا کیوں پوچھ رہا ہے‘ جو چند برس پہلے بنگلہ دیش میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اچانک وزیراعظم آفس کو اس ماڈل کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ مجھے لگا کہ کوئی بڑا چکر ہے‘ کوئی بڑی خبر ہے۔ میں نے کہا: بنگلہ دیش ماڈل کے لیے مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنر سے کہیں‘ وہ پورا پلان بھیج دیں گے یا انٹرنیٹ سے نکال لیں‘ میں آپ کو کون سی نئی بات بتا سکتا ہوں۔ وہ بولے: آپ وہاں الیکشن کے دنوں میں موجود تھے‘ میں نے ڈھاکہ سے آپ کی رپورٹس پڑھی ہیں‘ جو کچھ موقع پر موجود بندہ بتا سکتا ہے‘ اس کا مقابلہ انٹرنیٹ کی معلومات سے نہیں کیا جا سکتا۔
میں اس بات سے قائل ہوا اور کہا: چلیں میں اپنا بنگلہ دیش کا تجربہ شیئر کر دیتا ہوں لیکن یہ بتائیں کہ حکومت تو اچھی خاصی چل رہی ہے‘ آپ کو بیٹھے بٹھائے بنگلہ دیش ماڈل کہاں سے یاد آ گیا؟ شنید ہے کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے افسران اکثر وزیراعظم کے کم اور ملک کے اصل حکمرانوں کے زیادہ وفادار ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل اور مستقل حکمران وہی ہیں‘ وزیراعظم تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ باتوں باتوں میں پتا چلا کہ یہ بات آج کل وزیراعظم ہاؤس میں گردش کررہی ہے کہ بہتر ہے ملک میں بنگلہ دیش ماڈل لا کر صفائی کی جائے اور پھر کچھ عرصے بعد الیکشن ہوں۔ وہ صاحب جانناچاہتے تھے کہ بنگلہ دیش ماڈل ہے کیا۔میں نے انہیں کہا: بنگلہ دیش ماڈل چھوڑیں لیکن جو یہ افواہ وزیراعظم ہاؤس کی راہداریوں میں جان بوجھ کر پھیلائی جارہی ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ اس افواہ کو پھیلانے کے لیے باقاعدہ ٹاسک دیا گیا ہے اور کسی کو مدتِ ملازمت میں توسیع درکار ہے۔ ایسی افواہیں حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے کام آتی ہیں اور وزیراعظم فوراً دباؤ میں آ کر رابطہ کرتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ پھر آگے سے تسلی دی جاتی ہے کہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے۔ اور پھر ایک دبا ہوا وزیراعظم ملک کو اس ماڈل سے اور اپنی حکومت بچانے کے لیے خود ہی توسیع کی پیشکش کر دیتا ہے جو تھوڑی سی جھجک اور کچھ انکار کے بعد قبول کر لی جاتی ہے جس کے بعد نئے ماڈل کی افواہیں دم توڑ جاتی ہیں۔ کیانی صاحب کو ملنے والی توسیع کے بعد کسی نے دوبارہ بنگلہ دیش ماڈل کا ذکر نہیں سنا ہوگا۔
چند ماہ قبل ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تھی تو انہوں نے باجوہ صاحب کو ایک اور توسیع دینے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔ وہی پرانا کھیل کہ وزیراعظم عمران خان ڈر گئے کہ حکومت جانے والی ہے اور باجوہ صاحب کے ساتھ ڈیل کر کے اسے بچایا جا سکتا ہے‘ لہٰذا انہوں نے یہ پیشکش کر دی۔ ابھی چند روز پہلے ایک مشہور کالم نگار نے باجوہ صاحب سے ہونے والی ملاقات کا سنسنی خیز احوال لکھا ہے۔ اس میں باقی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان نے اُنہیں توسیع دینے کا اعلان اچانک کیا تھا‘ وہ توسیع نہیں لینا چاہتے تھے لیکن پھر انکار نہ کر سکے۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ یوسف رضا گیلانی نے کیانی صاحب کو تین سال کی توسیع دی اور کیانی صاحب اپنے جاننے والوں کو یہ بتا رہے تھے کہ انہیں تو علم ہی نہ تھا اور وہ توسیع لینا بھی نہیں چاہتے تھے۔ آپ ذرا غور کریں‘ دونوں دفعہ توسیع بھی لے لی گئی اور سارا ملبہ بھی وزرائے اعظم پر ڈال دیا گیا۔ وہی بات‘ رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔ کبھی یہ نہیں بتایا جائے گا کہ توسیع کے پیچھے کون سے حالات کارفرما تھے۔ ایک دوست نے (جو ان معاملات سے کافی آگاہی رکھتے تھے) باجوہ صاحب کی توسیع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ باجوہ صاحب کا توسیع لینے کا پلان نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے بن چکا تھا۔ باجوہ صاحب کیانی صاحب کے بھی بڑے قریب تھے اور اسی سکول آف تھاٹ کے حامل تھے لہٰذا توسیع کا خیال اُن کے دل کے کسی نہاں خانے میں پہلے سے موجود تھا لیکن انہیں نواز شریف کا اندازہ تھا کہ وہ توسیع پر یقین نہیں رکھتے تھے لہٰذا عمران خان پروجیکٹ لانچ کر دیا گیا تاکہ پی ٹی آئی حکومت میں توسیع لے سکیں۔
یہ الگ بات ہے کہ پارلیمنٹ میں نواز شریف کی پوری پارٹی نے لائن میں لگ کر توسیع کے قانون کے حق میں ووٹ ڈالے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ باجوہ صاحب دوبارہ توسیع لینا چاہتے تھے‘ خصوصاً جب عمران خان نے پتا پھینکا کہ اگلی حکومت کے قیام تک باجوہ صاحب کو برقرار رکھا جائے اور الیکشن کرائے جائیں۔ لیکن نواز شریف اس پر تیار نہ ہوئے۔ خیر‘ اب ایک بار پھر‘ جب حکومت کے آخری چند ماہ رہ گئے ہیں‘ تو وہی نگران اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ اس کا پہلا انکشاف تو عمران خان دور کے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ایک ٹی وی شو میں کیا اور بتایا کہ ان کی بھی کچھ حلقوں سے اس معاملے پر بات چیت ہوئی ہے۔ اب یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ اس وقت دہشت گردی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دوبارہ پوری قوت سے سر اٹھا رہی ہے‘ افغانستان کے معاملات ایک دفعہ پھر سردردِ بن رہے ہیں‘ ان حالات میں ملک میں نیا سیٹ اَپ لانے کی کوشش کیوں کی جائے گی؟ اگرچہ معاشی حالات بہت خراب ہیں لیکن سب سیاسی جماعتوں کو اس پورے سسٹم سے الگ کرکے درجن بھر ٹیکنوکریٹس کے ساتھ کیسے دو سال حکومت چلائی جا سکتی ہے؟
اگرچہ شہباز شریف اور نواز شریف کو شاید اس پر اعتراض نہ ہو کہ اس طرح کچھ فیس سیونگ ہو جائے گی ورنہ اس وقت الیکشن میں جانا انہیں سیاسی موت لگ رہا ہے۔ عمران خان کو ایسے سیٹ اَپ سے نقصان ہوگا۔ اس لیے انہیں ذرا ٹھنڈا کرکے کھانا چاہیے۔ وہ بہت جلدی میں ہیں اور سیانے کہتے ہیں کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ کہیں وزیراعظم بنتے بنتے انہیں اگلے چند برس مزید سڑکوں پر نہ گزارنے پڑیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا پارلیمنٹ لوٹ جائیں۔ بہتر ہے کہ سیاستدان آپس میں ڈیل کر لیں کیونکہ جو تجربات وہ آج کل گزرے دور کے بتا رہے ہیں‘ انہیں دہرانا نہیں چاہیں گے۔ کرنی خان صاحب نے اپنی مرضی ہے‘ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔ اب کیا نتیجہ اخذ کریں‘ ایک نئے تجربے کے نام پر ایک نئے گناہ کی تیاری ہورہی ہے؟