آئینی موٹروے پر متوقع دھند کے امکانات

ہمارے ہر دلعزیز دوست حاجی فضل خان چانڈیو کی بیٹی کی شادی تھی۔ عزیزم گلاب خان بھی برمنگھم سے آیا ہوا تھا۔ مہمانوں کا جم غفیر تھا اور ایساتنوع کہ بندہ پریشان ہی ہو جائے۔ یہ حاجی فضل کی خوبی ہے کہ ہر طبقے کے لوگوں سے میل ملاپ رکھا ہوا ہے۔ ہمیں تو سیاست پر گفتگو کرنے کیلئے کسی بہانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور ادھر یہ عالم تھا کہ ہمارے اردگرد نہ صرف یہ کہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس سیاستدانوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا بلکہ سیاسی گفتگو کے ٹھرکیوں نے بھی اسی جگہ ڈیرہ لگا رکھا تھا۔ ان سیاسی گفتگو کے شوقینوں میں ملک خالد کا بہرحال اپنا ہی ایک مقام ہے۔
شادی کی تقریب میں ہونے والی اس ملاقات سے چند روز قبل ملک خالد سے ملاقات ہوئی تو عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی کے ہونے والے ضمنی انتخابات میں تمام اکتیس سیٹوں پر خود الیکشن لڑ نے کی بات چلی تو ملک خالد نے بڑے شدومد اور جوش و خروش سے کہا کہ یہ خاں صاحب کی بڑی زبردست حکمت عملی ہے اور اس سے وہ اپنی ذاتی مقبولیت پر مہر ثبت کر دیں گے اور ان اکتیس حلقوں میں ان کی فتح ان کو نکالنے کی سازش کرنے والوں کی‘ ان کی جگہ حکومت سنبھالنے والوں کی اور خان صاحب کی فراغت پر خوشیاں منانے والوں کی ساری خوشی برباد کرنے کے ساتھ ان کی سیاسی ہوا بھی نکال دے گی۔ میں نے ملک سے پوچھا کہ خان صاحب پہلے جن سات قومی حلقوں میں ضمنی الیکشن جیتے ہیں وہاں ان کا کیا سٹیٹس ہے؟ ملک خالد کہنے لگا :وہ بھی بڑی زبردست حکمت عملی ہے۔ نہ وہ حلف اٹھا رہے ہیں اور نہ ہی ان سات سیٹوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ اگر وہ ان سات میں سے صرف ایک سیٹ کا بھی حلف اٹھا لیں تو آئینی طور پر بقیہ چھ نشستیں خالی تصور ہوں گی اور ان پر بھی ساٹھ دن کے اندر اندر الیکشن کروانے پڑیں گے مگر موجودہ صورتحال میں جب وہ ان میں سے کسی سیٹ پر حلف نہیں اٹھا رہے تو یہ ساتوں کی ساتوں سیٹیں اسی طرح پھنسی رہیں گی۔ میں نے پوچھا: آخر ان سات حلقوں کے ووٹروں کا کیا قصور ہے کہ وہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی سے محروم رہیں؟ ملک کہنے لگا: خان صاحب کو ووٹ دینے والوں کو اس بات کا علم تھا کہ وہ حلف نہیں اٹھائیں گے۔ میں نے کہا :ان حلقوں میں عوام کو انتظار کی سولی پر لٹکانے کے بعد وہ اب مزید اکتیس حلقوں میں وہی کچھ کرنے جا رہے ہیں۔ ملک خالد کہنے لگا: آپ جیسے عقل کے اندھوں کو خان صاحب کے ان سیاسی دائو پیچ کی نہ تو سمجھ ہے اور نہ ہی ان کے دور رس نتائج کا علم ہے۔ خان صاحب گزشتہ دنوں سپیکر کی جانب سے قبول کئے گئے پی ٹی آئی کے 113 ارکان قومی اسمبلی کے خالی ہونے والے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑیں گے اور پچھلے والے سات حلقے ڈال کر یہ کل 120 حلقے بن جائیں گے جن پر اکیلے خان صاحب رکن قومی اسمبلی ہوں گے اور جب نہ وہ حلف اٹھائیں گے اور نہ ہی ان حلقوں کو فارغ کریں گے تو یہ 120 حلقے جو قومی اسمبلی کے کل براہ راست منتخب ارکان کا 44 فیصد ہیں خالی ہوں گے تو قومی اسمبلی از خود ایک مذاق بن کر رہ جائے گی اور اسے توڑنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا۔ جو لوگ خان صاحب کو سیاسی طور پر فارغ سمجھتے ہیں وہ دراصل خود عقل و خرد سے عاری ہیں۔
میں نے پوچھا کہ ان سارے حلقوں پر الیکشن کروا نے میں جو خرچہ ہو گا وہ کس کے ذمے ہو گا؟ ملک کہنے لگا :حکومت کے ذمے ہو گا۔ میں نے کہا: یہ خرچہ حکومت نہیں بلکہ ہم اور آپ ادا کریں گے۔ یہ ہمارے ٹیکسوں کی رقم سے خرچ ہو گا بلکہ خرچ نہیں ہو گا‘ ضائع جائے گا۔ ایسی صورتحال میں جب ملک پیسے پیسے کیلئے جھولی پھیلائے دنیا بھر کے سامنے ذلیل و رسوا ہو رہا ہے ملکی پیسے کا یہ ضیاع کسی محب وطن کو قبول ہو سکتا ہے؟ ملک کہنے لگا: یہ سیاسی جنگ ہے اور تمہیں تو علم ہی ہے محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔میں نے کہا: اس معاملے میں تو میں سو فیصد شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہوں کہ ان خالی ہو نے والے حلقوں میں وہاں کے مقامی امیدوار ہی الیکشن لڑیں۔ ملک خالد چسکے لینے کیلئے ہنس کر کہنے لگا :پھر اسد عمر اینڈ کمپنی نے قریشی صاحب کی کیسی طبیعت صاف کی؟ سنا ہے موصوف ناراض ہو کر اجلاس سے اٹھ کر باہر آ گئے۔ میں نے کہا: ملک صاحب! مجھے شاہ محمود پر حیرت ہے کہ انہوں نے اپنی روایات سے انحراف کرتے ہوئے اپنے لیڈر کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے نہ صرف یہ کہ اصولی اختلاف کیا بلکہ اس پر سٹینڈ بھی لیا۔ لیکن اس سے زیادہ حیرت مجھے اسد عمر پر ہوئی کہ کیا پڑھا لکھا اور ملٹی نیشنل کارپوریٹ سیکٹر کا تربیت یافتہ شخص تھا مگر حال یہ ہے کہ سیاسی نمک کی کان میں گھسا تو بجائے اس میں بہتری لاتا خود اس کان میں نمک بن کر رہ گیا ۔ اس روز کی ساری بحث میں ملک خالد کا مؤقف تھا کہ عمران خان کا ساری خالی شدہ نشستوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ ایسا شاندار‘ اعلیٰ اور عمدہ ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
گزشتہ روز شادی کی تقریب میں ہم دوستوں کے درمیان ہونے والی سیاسی گفتگو میں ملک خالد بہت چہک رہا تھا۔ میں نے اس کی شوخی دیکھتے ہوئے سوال داغ دیا کہ خان صاحب نے اپنی متوقع نااہلی کے خوف سے اب قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں تمام خالی نشستوں سے الیکشن لڑ نے کے بجائے شاہ محمود قریشی کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ان حلقوں سے سابقہ ارکان اسمبلی کو الیکشن لڑ نے کی ہدایت کی ہے۔ ملک خالد نے کہا: اس سے بہتر حکمت عملی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ اس طرح اس حلقے کے نمائندوں کو جنرل الیکشن میں بڑی آسانی ہوگی۔ کون کہتا ہے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔ میں نے پانی کا گھونٹ بھرا ہی تھا کہ ملک خالد نے یہ بات کر دی۔ میری ایسی ہنسی نکلی کہ پا نی سا نس کی نالی میں چلا گیا اور مجھے اچھو لگ گیا۔ دو چار منٹ کے بعد میری حالت سنبھلی تو میں نے ملک خالد سے کہا کہ تمہاری اس غیر مشروط سیاسی وفاداری سے مجھے انور مسعود صاحب کی نظم ”اج کیہہ پکائیے‘‘ یاد آ گئی ہے۔ تم نے بھی رحمے کی طرح چودھری صاحب کی ہر بات کی تائید کرنی ہے۔ ان کی ہاں میں ہاں ملا نی ہے اور ہر دو صورتوں میں ان کی سیاسی بصیرت کی داد دینی ہے۔ ملک خالد جواباً ہنسنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا کہ تمہارا کوئی قصور نہیں ۔ اس وقت ادھر تین ایم پی اے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سے حلفیہ بیان لے لو کہ ان میں سے ایک آدمی بھی پنجاب اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں تھا لیکن جب میٹنگ میں خان صاحب پنجاب اسمبلی توڑنے کی بات کرتے تھے تو یہ سب یا ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے یا خاموش رہتے تھے۔ تاہم باہر نکل کر ”کُر کُر‘‘ کرتے تھے۔ ایک ایم پی اے ہنس کر کہنے لگا: آپ نے خاصا مہذب لفظ استعمال کیا ہے۔ بعض ایم پی اے تو باقاعدہ گالیاں نکالتے تھے۔ پھر گھبرا کر کہنے لگا: میں اپنی بات نہیں کر رہا دوسروں کی کر رہا ہوں مگر اب آپ مجھ سے ان کا نام نہ پوچھئے گا۔
اس کے بعد اس بات پر بحث شروع ہو گئی کہ پنجاب اور کے پی کے الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ قومی اسمبلی کا الیکشن وقت پر ہوگا یا نہیں؟ نیوٹرل ہونے کے دعویدار واقعی نیوٹرل ہیں یا یہ محض افواہ ہے؟ اس پر ایسا گھڑمس مچا کہ خدا کی پناہ۔ اس لمبی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ دوستوں کی اکثریت‘ جن میں سیاستدان بھی شامل تھے‘ کا اندازہ یہی تھا کہ آئین کی من مانی تشریحات کے بادل چھائے دکھائی دے رہے ہیں اور شاہراہِ آئین پر دھند پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ گو کہ میرا خیال ان سے مختلف تھا مگر اکیلے آدمی کی کون سنتا ہے؟