صرف ایک سو سال میں ہونے والا انحطاط

جڑانوالہ کا واقعہ جہاں اس ملک میں مستقل بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور روز افزوں کم ہوتی ہوئی رواداری‘ تحمل اور برداشت کی تصویر کشی کرتا ہے وہیں مکمل طور پر ناکام حکومتی اہلیت کو بھی آشکار کرتا ہے۔ اب جڑانوالہ میں حالات کنٹرول میں ہیں اور شہر رینجرز اور پولیس کے مکمل کنٹرول میں ہے لیکن یہ سب بعد از مرگ واویلا کے مترادف ہے اور ”جل چکا جب کھیت مینہ برسا تو پھر کس کام کا‘‘ کی عکاسی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جب مساجد میں اعلانات ہو رہے تھے‘ لوگ اکٹھے ہو رہے تھے‘ جلوس بن رہے تھے اور مشتعل مجمع گرجوں اور مسیحی آبادیوں کی طرف رواں تھا سرکاری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے تھے؟ اُڑتی چڑیا کے پر گننے کی دعویدار اور گھر کے اندر کی خبر رکھنے کی حامل ایجنسیاں کہاں تھیں؟ ہمہ وقت لوگوں کی واٹس ایپ اور ٹیلی فون گفتگو تک رسائی رکھنے اور انہیں ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو مساجد میں لاؤڈ سپیکروں پر ہونے والے بلند آہنگ اعلانات آخر کیوں سنائی نہیں دے رہے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ ملکی اداروں‘ محکموں اور سرکاری انتظامی افسروں کی موجودہ کھیپ ان صلاحیتوں سے عاری اور تہی دامن ہے جو ملکی انتظامی معاملات کو چلانے کیلئے درکار ہوتی ہیں۔
انتظامی مشینری اور اسے چلانے پر متعین افسران کی ترجیحات ہی اب کچھ اور ہیں اور افسر دراصل معاشرے کی فلاح اور تحفظ کے بجائے ذاتی مفاد کے حصول کیلئے کمربستہ ہیں۔ گھنٹوں تک شرپسند سڑکوں پر اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور دنیا بھر کو اس کی خبر ہوتی ہے لیکن ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے‘‘ کی طرح مقامی انتظامیہ اور ادارے بے خبر رہتے ہیں۔ اگر انہیں خبر ہو جائے تو وہ اس قسم کی صورتحال سے عہدہ برآ ہونے اور نپٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ قوتِ فیصلہ سے محروم ایسے لوگوں کو ان عہدوں پر بٹھا دیا گیا ہے جن کی اولین ضرورت ہی قوتِ فیصلہ سے جڑی ہوئی ہے۔
میری گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے ایک بڑے انتظامی افسر سے ملاقات ہوئی۔ میرے ساتھ ملتان کے ایک نہایت معتبر اور نیک نام صحافی جمشید رضوانی بھی تھے۔ میں نے دورانِ گفتگو اس افسر سے کہا کہ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ اب ضلعی انتظامی افسران کیا کرتے ہیں؟ ان کی کارکردگی کیا ہے اور وہ سارا دن کیا کارنامے سرانجام دیتے ہیں؟ اب کسی ڈپٹی کمشنر سے اس کی کارکردگی پوچھی جائے تو وہ بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ اس کے ضلع میں ٹماٹر سرکاری ریٹ کے مطابق ہے اور آلو سرکاری نرخ پر فروخت ہو رہا ہے۔ یہ کام کسی زمانے میں میونسپلٹی کا انسپکٹر سر انجام دیا کرتا تھا۔ آپ کسی ڈپٹی کمشنر کا روزانہ کا شیڈول دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ضلع کا مالک و مختار انتظامی افسر کن معمولی کاموں میں لگا ہوا ہے۔ نئے حالات کے تناظر میں کوئی ڈپٹی کمشنر بہت بڑا کارنامہ بیان کریگا تو کہے گا کہ اسکے ضلع میں ڈینگی مچھر کے انسداد کی مہم بڑی مؤثر چل رہی ہے اور ڈینگی لاروا کی تلفی کے نتائج بڑے حوصلہ افزا ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو کسی زمانے میں انسداد ِ ملیریا کے انچارج کی ذمہ داری ہوتا تھا اور وہ انسپکٹر لیول کا افسر ہوتا تھا۔
میں نے اس افسر کو بتایا کہ میرے پاس 1923-24ء کا ملتان کا ضلعی گزیٹئرپڑا ہوا ہے ‘یہ آج سے پورے سو سال قبل لکھی جانے والی ایک شاندار دستاویز ہے۔ یہ گزیٹئر آج بھی میرے لیے ملتان پر مرتب کی جانے والی سب سے بااعتبار دستاویز ہے اور سو سال گزرنے کے باوجود بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو آج بھی معتبر ہیں اور بطور حوالہ استعمال ہو سکتی ہیں۔ یہ صرف ملتان کے گزیٹئر کی بات نہیں تب ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اپنے اپنے ضلع کا گزیٹئر لکھنے کا پابند تھا اور اس گزیٹئر میں اس ضلع سے متعلق ہر قسم کی معلومات میسر تھیں۔ ہر آنے والا ڈپٹی کمشنر اس ضلعی گزیٹئر میں ترمیم و اضافے کرتا تھا اور اسے ہر سال اَپ ٹو ڈیٹ کرتا رہتا تھا۔ آپ جس وقت چاہیں اس گزیٹئر کو اٹھائیں یہ آپ کو اس ضلع کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی دینے کیلئے معتبر ترین دستاویز ہوتی تھی۔
ملتان کا ابتدائی گزیٹئر سر ایڈورڈ میکلیگن نے لکھا اور مرتب کیا۔ بعد ازاں ہر آنے والے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں اس گزیٹئر میں وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم و اضافے ہوتے رہے۔ اباجی مرحوم کے پاس 1921ء کا گزیٹئر موجود تھا جو خدا جانے کہاں چلا گیا۔ اب میرے پاس جو گزیٹئر ہے وہ دراصل-24 1923ء کے اصل گزیٹئر کی مثنیٰ کاپی ہے۔ یہ گزیٹئر دیگر اسی قسم کے ضلعی گزیٹئرز اور تاریخی کتابوں کے ہمراہ ہمارے دوست افضال احمد نے دوبارہ نئے سرے سے چھاپے ہیں۔ چالیس سے زائد ان تاریخی دستاویزات میں موجودہ پاکستان کے سترہ اضلاع کے گزیٹئرز شامل ہیں جن میں ساہیوال کا گزیٹئرمنٹگمری کے نام سے اور فیصل آباد کا گزیٹئر چناب کالونی کے نام سے طبع شدہ ہے۔ سولہ ایسے اضلاع کے گزیٹئرز ہیں جو اَب بھارت کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان ‘ نیپال‘ کشمیر اور لداخ‘ بلوچستان‘ شمال مغربی سرحدی صوبہ (خیبر پختونخوا) اور ضلع شاہ پور کا ضلعی گزیٹئر شامل ہے۔ شاہ پور تب ضلع ہوتا تھا پھر اس کی جگہ سرگودھا ضلع بن گیا۔ شاندار تاریخی اہمیت کے حامل شاہ پور کو 1893ء میں ضلع کی حیثیت دی گئی تاہم 1914ء میں ضلعی ہیڈ کوارٹر شاہ پور سے سرگودھا منتقل ہو گئے۔1960ء میں سرگودھا ضلع قرار پایا اور شاہ پور اب سرگودھا کی ایک تحصیل ہے۔ ان گزیٹئرز کے علاوہ نہ صرف یہ کہ سرلیپل ہنری گریفن کی شہرہ آفاق کتاب ”پنجاب چیفس‘‘ کے اصل انگریزی نسخے کو دوبارہ طبع کیا گیا ہے بلکہ اس کا اردو ترجمہ ”تذکرہ روسائے پنجاب‘‘ بھی دوبارہ چھپ چکا ہے۔
بات ملتان کے گزیٹئر کی ہو رہی تھی۔ آج سے سو سال قبل طبع ہونے والی یہ دستاویز ابتدائی طور پر تو سرایڈورڈ میکلیگن کی محنتِ شاقہ کا نتیجہ ہے تاہم-24 1923ء والے اضافہ شدہ گزیٹئر میں تب کے ملتان کے ڈپٹی کمشنر اور انڈین سول سروس کے افیسر مسٹر ایچ فائی سن‘ پنجاب کے رجسٹرار کواپریٹو سوسائٹیز‘ مسٹر ایچ کال ورٹ‘ ملتان کے ایکسٹرا اسسٹنٹ سیٹلمنٹ آفیسر نندلال‘ محکمہ جنگلات کے رام ناتھ کیشپ‘ قانونگو دوست محمد خان کے علاوہ ملتان کے پربھ دیال اور سیٹھ رادھاکرشنا نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اب محکمہ جنگلات کے افسران درخت بیچتے ہیں‘ قانونگو زمینوں کے ریکارڈ میں گھپلے کرتے ہیں اور ڈپٹی کمشنر مویشی منڈیوں کی منظوری کے عوض پیسے کھرے کرتے ہیں۔ سوسال میں معاملات کس بلندی سے کس پستی میں آن گرے ہیں۔
اس گزیٹئر میں کیا ہے جو نہیں ہے؟ ملتان کے نام کی وجہ تسمیہ سے شروع ہونے والی اس دستاویز میں ضلع کی حدود‘ دریا‘ درخت‘ جھاڑیاں‘ گھاس اور پودوں کی اقسام کی تفصیل بھی ہے اور موسم و بارش کا ڈیٹا بھی موجود ہے۔ قبل از 700سن عیسوی اور بعد ازاں کرامتیوں کی حکومت سے لے کر مغل دور اور پھر سکھا شاہی سے لے کر تاجِ برطانیہ کی تولیت میں آنے تک ساری تاریخ درج ہے۔ آبادی‘ دیہات‘ گاؤں‘ ہجرت‘ بیماریاں‘ ہندو مسلم آبادی کے شادی‘ بیاہ‘ پیدائش اور مرنے کی رسومات‘ شرح پیدائش و اموات‘ ہندو مسلم قبیلوں اور ذاتوں کی تفصیل‘ با اثر خاندانوں کے حال‘ پیشے‘ مویشی اور فصلات کی ایسی تفصیل کہ بندہ حیران رہ جائے۔ کسی بھی موضوع کے بارے میں آپ صرف اپنے خیال کا گھوڑا دوڑائیں اور اسے اس کتاب میں تلاش کریں ممکن ہی نہیں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب اس کتاب میں نہ ملے۔ میں سوچتا ہوں کہ صرف سو سال میں اتنی زیادہ انتظامی اور دانشورانہ پستی کیسے ممکن ہے مگر یہ حقیقت ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں تو وہ اپنے ضلع کا سوسال پرانا گزیٹئر اٹھا کر اس کا موازنہ اپنے ضلع کی موجودہ انتظامی و دانشورانہ حالت سے کر لے۔ اسے ساری بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔