ریگستان … (1)

اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ میں نے گزشتہ دو ہفتوں میں کیا کِیا ہے تو اس کا بڑا آسان جواب تھا کہ ان دو ہفتوں میں صرف شادیاں بھگتائی ہیں۔ ملتان اور ملتان سے باہر‘ جس شہر کا بھی رخ کیا ہے وہاں جو کاروبار سب سے زیادہ زوروں پر ہے وہ شادی گھروں اور بینکویٹ ہالز کا ہے۔ ہر شہر کے باہر اور اندر‘ ہر چند منٹ بعد کوئی شادی گھر آ جاتا ہے اور صرف آتا ہی نہیں بلکہ جگمگا رہا ہوتا ہے کیونکہ وہاں شادی کی تقریب ہورہی ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہے مخلوقِ خدا بے تحاشا ہو گی تو شادیاں تو ہوں گی اور جب شادیاں ہوں گی تو پھر مخلوقِ خدا میں اضافہ تو ہو گا۔ سو ہمارے ہاں یہ دونوں کام زوروں پر ہیں۔ بقول ہمارے ایک دوست کے چند برسوں بعد ملتان از خود پورا پاکستان بن جائے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہاری یہ بات مان لیں کہ ملتان چند سال بعد پاکستان بن جائے گا‘ تو یہ بتاؤ جب ملتان پاکستان بن جائے گا تو پاکستان کیا بن چکا ہوگا؟ وہ دوست کہنے لگا: تب یہ ملک بے روزگاروں‘ اَن پڑھوں‘ محتاجوں‘ فقیروں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر مفت روٹی کھانے والی غریب آبادی پر مشتمل ایک براعظم بن چکا ہوگا۔
دس بجے والی پابندی اور ون ڈش کا کم از کم ملتان میں تو نہ کوئی رواج ہے اور نہ ہی کوئی پابندی۔ جو شادی ہالز اور بینکویٹ ہالز زور آوروں کے علاقے میں ہیں وہاں تو تقریب شروع ہی دس بجے کے قریب ہوتی ہے اور کسی کی جرأت نہیں کہ سوال کر سکے یا کارروائی ڈال سکے۔ سو سب کچھ دھڑ لے سے جاری ہے۔ ملتان شہر کے دونوں آخری سروں پر واقع تقریباتی ہالز زور آوروں کے زیر سایہ چل رہے ہیں لہٰذا اگر ادھر جانا ہو تو میں گھر سے کھانا کھا کر جاتا ہوں اور اپنی طبیعت کے بالکل برعکس کارڈ پر دیے گئے وقت سے تقریباً آدھا گھنٹہ بعد جاتا ہوں۔ لفافہ دیتا ہوں‘ دوستوں سے ملتا ہوں‘ گپیں مارتا ہوں اور گیارہ بجے کے قریب آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا غیر محسوس طریقے سے سٹک جاتا ہوں۔ یہ تقریبات مجھ جیسے بندے کے لیے اب پرانے دوستوں سے مل بیٹھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور گزشتہ کئی سال سے سردیوں کے آغاز اور اختتام کے مہینوں میں شادیوں کے اس سیزن میں دوستوں سے ملنے کا اپنا ٹھرک پورا کرتا رہتا ہوں لیکن اب یہ سوچ کر پسینہ آ جاتا ہے کہ چند برس اگر اور زندہ رہا تو جس حساب سے بچوں کا ایک عظیم جم غفیر شادی کی عمر کو پہنچ رہا ہے‘ میرے لیے ان کی شادیوں کو بھگتانا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ گمان یہ ہے کہ روزانہ کم از کم تین شادیاں بھگتانی پڑیں گی‘ جبکہ آنے والے دنوں میں لگتا نہیں کہ اتنی ہمت کر سکوں گا۔
آبادی کا جو حال ہے ویسے تو اب بھی معاملہ حد سے اور پانی سر سے گزر چکا ہے کہ اگر ہم صرف پندرہ سال سے چوبیس سال کی آبادی کا حساب کریں تو اس وقت پاکستان میں چار کروڑ تیس لاکھ (یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں‘ جن پر بھروسا کرنا مشکل ہے) نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو اگلے چند سال میں دو کروڑ پندرہ لاکھ خاندان بن چکے ہوں گے۔ آپ اس قوم کے بچے پیدا کرنے کے شوق کو سامنے رکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان آنے والے برسوں میں پاکستان میں ہر سال مزید کتنے بچے پیدا ہوں گے۔ اگر ہم آج اس ملک کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھاتے ہیں تو بھی اس کے اثرات بہرحال آئندہ چند سال میں شادی کے متوقع کروڑوں نوجوانوں کو میدان میں آنے سے نہیں روک سکتے لیکن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بھی تو نہیں بیٹھا جا سکتا۔
قارئین‘ معاف کیجئے میں کہاں سے کہاں چلا گیا۔ اس ہفتے گو کہ شہر میں شادیاں تو قطعاً کم نہیں ہوئیں مگر خوش قسمتی سے میرے پاس کوئی دعوت نامہ نہیں آیا۔ اس لیے سوچا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر عنایت کے ساتھ کیے گئے دیرینہ وعدے کی تکمیل کر لی جائے۔ یہ وعدہ تھرپارکر اور ننگر پارکر وغیرہ کی آوارہ گردی کرنے کا تھا جو گزشتہ دو تین سال سے میرے اور اس پروگرام کے منتظم شوکت گجر کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث پورا نہیں ہو پا رہا تھا۔ جب میرے پاس وقت ہوتا تو وہ ننگر پارکر اور تھرپارکر جانے کے لیے مناسب نہ ہوتا تھا اور جب ادھر جانے کے لیے وقت مناسب ہوتا اور شوکت گجر‘ میرا مطلب ہے شوکت علی انجم‘ پروگرام بناتا تو میں کہیں اور نکل چکا ہوتا تھا۔
تھر میں جانے کے لیے مناسب ترین وقت جولائی کے وسط سے اگست کے آخر تک ہے کہ بارشوں کے بعد جب سارا صحرا سبزے سے ڈھک جاتا ہے اور ایسی ہریالی دکھائی پڑتی ہے کہ آنکھوں کو یقین دلانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی ریگستان ہے۔ یہ جو لفظ صحرا ہے‘ میرے خیال میں یہ ریگستان کا عین متبادل لفظ نہیں کیونکہ ریگستان کا نام لیتے ہی ریت کے جس سمندر کا خیال آتا ہے وہ صحرا بولتے ہوئے محسوس نہیں ہوتا۔ مجھے چند ریگستان دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ہر ریگستان کو دوسرے سے مختلف پایا۔ محض ریت سے تشکیل پانے والا ہر ویرانہ اور بیابان اپنے اندر اتنی ندرت رکھتا ہے کہ بندہ اپنے مالک کے پیدا کردہ تنوع پر دنگ رہ جاتا ہے۔
امریکہ میں لاس اینجلس سے گاڑی پر ریاست نیواڈا جاتے ہوئے راستے میں آنے والے مہاوی ڈیزرٹ کا رنگ ڈھنگ دوسرا ہے۔ ریت‘ ٹیلے‘ پتھریلی پہاڑیاں اور کیکٹس‘ دور دور تک نارنجی رنگ کا منظر نامہ اور ویرانی۔ اسی طرح قاہرہ کے بالکل ساتھ دریائے نیل کے دوسرے کنارے پر سرسبز پٹی کے اختتام پر جیزہ کا ریگستان ہے اور اس میں تین عظیم الشان اہرام اور ابوالہول کا بت ہے۔ پیچھے لق و دق صحرا ہے اور تاحد نظر پیلی ریت کا سمندر ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے صحرائے اعظم کا نقطۂ آغاز ہے جو مصر‘ لیبیا‘ تیونس‘ الجزائر‘ مالی‘ موریطانیہ‘ چاڈ‘ نائیجر اور سوڈان کے بیشتر علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ دو عشرے پہلے ایک شام میرا جہاز قاہرہ اترا۔ خستہ حال ایئر پورٹ کا نان اے سی ہال اور فائبر گلاس کی انتہائی واہیات کرسیاں۔ فضا سے نیچے نظر دوڑائی، ہر طرف گرد تھی اور شہر کی اکثر عمارتیں اس مٹیالی گرد سے اَٹی ہوئی تھیں۔ درمیان میں دریائے نیل تھا اور اس کے دونوں کنارے ایسے سرسبز کہ جیسے کسی نے سبز رنگ کا قالین بچھا رکھا ہو‘ پھر اس کے پار ریگستان کا ایسا آغاز جس کے کنارے کی کوئی حد نہ ہو۔
بانوے لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل صحرائے اعظم یعنی صحارا ڈیزرٹ دنیا کا سب سے بڑا ریگستان ہے۔ ویسے تو قطب جنوبی پر واقع انٹارکٹک اور قطب شمالی میں واقع آرکٹک کو بھی صحراؤں میں شمار کیا جاتا ہے مگر یہ ریت کے نہیں بلکہ برف کے صحرا ہیں۔ یخ بستہ‘ سرد اور برف سے لدے ہوئے وسیع میدان جو علی الترتیب رقبے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں مگر ریگستانوں میں سب سے بڑا صحرائے اعظم ہے۔ آپ اس کی وسعت کا اندازہ صرف اس سے لگا لیں کہ اس کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے سے دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ صحرائے اعظم کا رنگ ڈھنگ‘ ریت‘ ٹیلے اور بناوٹ‘ مہاوی ڈیزرٹ سے بالکل مختلف ہے۔
دبئی میں دوبار ڈیزرٹ سفاری کے دوران اور ویسے کئی بار دبئی سے ابو ظہبی بذریعہ سڑک سفر کے دوران ریگستان دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بالکل مختلف قسم کا صحرا ہے اور اس کی ریت ہمارے ریگستانوں کی ریت سے مختلف ہے۔ رنگ میں بھی اور اپنے Texture میں بھی۔ خالص موٹی ریت صحرائے عرب کی خاصیت ہے۔ زردی مائل رنگ کا صحرا جس میں اونچے اونچے ٹیلے ہیں اور ہوا نے اس پر لہریے ڈالے ہوتے ہیں۔ (جاری)