ریگستان … (2)

میں نے اپنی زندگی کا سب سے حیران کن صحرا سکردو میں دیکھا۔ پہلی بار سکردو ایئر پورٹ پر اترا تو جہاز سے لاؤنج کی طرف جاتے ہوئے اطراف میں بکھری ریت پر نظر پڑی۔ سات ہزار تین سو فٹ سے زائد بلندی پر پڑی ہوئی ریت اور اس کے ٹیلے‘ دور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ برف پڑی ہوئی ہے اور سردیوں میں واقعی اس پر پڑف پڑتی ہے۔ ایئر پورٹ سے باہر نکلنے لگے تو سڑک کا آدھا حصہ ریت میں دبا ہوا تھا۔ کبھی اس قسم کا منظر ملتان سے میانوالی جاتے ہوئے تھل کے علاقے میں دکھائی دیتا تھا یا مظفر گڑھ سے ایک چھوٹی سی سڑک ریگستان کے اندر سے قصبہ گجرات کی طرف جاتی تھی مگر اب اس پر بھی ریت ویسی دکھائی نہیں دیتی جیسی تیس‘ چالیس سال پہلے دکھائی دیتی تھی۔ نہ تو وہ ویرانہ رہا اور نہ ہی ریت کے ٹیلے۔ چلیں یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ آبادی بڑھ گئی ہے اور ویسا ویرانہ نہیں رہا‘ زمین کو قابلِ کاشت بنا لیا ہے تو وہ بنجر پن نہیں رہا مگر وہ ریت کے اونچے اونچے ٹیلے کیا ہوئے؟ اس”کیا ہوئے‘‘ سے ناصر کاظمی کی غزل کے کچھ شعر یاد آ گئے:
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
سکردو کا ریگستان گرمیوں میں گرم صحرا اور سردیوں میں برف زار بن جاتا ہے۔ وادیٔ شگر اور سکردو کے درمیان پھیلا ہوا کٹپانا ڈیزرٹ دنیا کا بلند ترین ریگستان ہے جہاں بعض اوقات درجۂ حرارت منفی پچیس ڈگری سنٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ ہر صحرا کا اپنا رنگ ہے۔ بناوٹ‘ زمین‘ ریت‘ رنگ اور پودے مختلف ہیں۔ اس آوارہ گرد نے چار براعظموں کے صحراؤں کی ریت کو اپنے پاؤں تلے روندا اورہر ایک کو مختلف پایا۔
دیکھتے ہی دیکھتے بعض صحراؤں کا نقشہ ہی بدل گیا‘ تھل کا بھی یہی حال ہے‘ عشروں پہلے تھل کے درمیان ایم ایم روڈ پر سفر کرتا تھا تو سڑک کے دونوں کناروں پر بعض اوقات اونچے اونچے ریت کے ٹیلے آ جاتے تھے۔ ان مقامات پر ریت سڑک کا کافی سارا حصہ اپنے نیچے چھپا لیتی تھی۔ بسا اوقات تو ایسے لگتا جیسے کسی خندق میں سے گزر رہے ہیں۔ پھر تھل آباد ہونا شروع ہو گیا‘ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی تھی اور اس کے زیر اہتمام چک بسائے گئے تھے جن کے نمبر سے پہلے ٹی ڈی اے لگتا تھا‘ تب ہم دوستوں کے ساتھ تھل میں ریت کے ٹیلوں پر کیمپ لگاتے تھے اور تین چار دن دنیا کے ہنگامے‘ ٹریفک کے شورشرابے‘ شہر کی بھیڑ بھاڑ اور خبر اخبار سے دورگزارتے تھے۔ موبائل وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے لہٰذا زندگی نے ابھی وہ رفتار نہیں پکڑی تھی جو آج کی دکھائی دیتی ہے۔
میرا شکار کا استاد حکیم فیروز الدین اجملی مرحوم جب تھل میں تلور اور ہرن کی موجودگی اور شکار کے قصے سناتا تھا تو ہمیں ملال ہوتا تھا کہ ہم دیر سے پیدا ہوئے لیکن چار عشرے پہلے میں نے خود بارہا اپنی آنکھوں سے علی الصبح سفر کے دوران چوک منڈا (اب اس کا نام چوک سرورشہید ہے) سے چوک اعظم اور فتح پور کے آس پاس سڑک پر بلامبالغہ بیسیوں بھورے اور درجنوں کالے تیتر سینہ پھلا کر آوازیں نکالتے دیکھے ہیں۔ اب کبھی گزر ہو تو ان دنوں کو حسرت سے یاد کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر آج کسی کو ان دنوں کی یادیں سناؤں تو وہ بھی مجھے اسی حیرت اور حسرت سے دیکھے گا جیسے ہم لوگ حکیم فیروز کی باتیں سنتے ہوئے اسے دیکھا کرتے تھے۔
ہوا چلتی تھی تو یہ ٹیلے بھی آہستہ آہستہ اپنی جگہ تبدیل کرتے تھے۔ مظفر گڑھ‘ ڈیرہ غازیخان روڈ پر شہر سے تھوڑے فاصلے پر تھل جیوٹ مل سے آگے گزرتے ہی ریت کے ٹیلے شروع ہو جاتے تھے‘ وہاں سے لے کر بصیرہ قلندرانی تک سڑک کے دونوں طرف ریت ہی ریت ہوتی تھی۔ کئی جگہوں پر سڑک کے دونوں طرف مٹی کی کچی دیوار بنائی ہوئی تھی جو ان ریت کے ٹیلوں کو سڑک پر آنے سے روکتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ریت سے بھرے میدان سرسبز ہو گئے اور ٹیلے سکڑتے گئے۔ تقریباً سارا تھل ہی جگہ جگہ سے آباد ہو گیا ہے۔ دو تین سال پہلے اٹھارہ ہزاری سے بھکر براستہ حیدر آباد تھل اور منکیرہ گزر ہوا تو اس جگہ پر ابھی ریگستان اپنی خاموشی اور وسعت کے ساتھ کسی حد تک موجود تھا مگر ادھر بھی آباد کاری دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے نیچے اتر کر اس لق و دق صحرا کی تصویریں لیں کہ کسی کو بتا سکیں کہ کبھی یہ جگہ ایسی بھی تھی۔ صرف سڑک کے ساتھ لگے ہوئے بجلی کے کھمبے جدید دنیا کی واحد نشانی تھے وگرنہ دور دور تک صرف ریت اور ان میں اُگی ہوئی چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اور کہیں کہیں کیکر کے سخت جان درخت۔ شاید چالیس سال ہو گئے ہوں گے‘ ایک بار نور پور تھل جانا ہوا تو میلوں تک راستے میں کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیتا تھا۔
آسٹریلیا کا صحرا اپنی وسعت کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ریت کا صحرا ہے اور صحرا کی وہ ساری سختیاں اس میں موجود ہیں جو ریگستان سے وابستہ ہیں۔ میں نے یہ ریگستان چل کر تو نہیں دیکھا مگر اس کو فضا سے دیکھا اور گھنٹوں تک اس کا نظارہ کیا۔ مختلف رنگ اور مختلف سطح زمین‘ پتھریلی سے لے کر میدانی اور پیلی سے لے کر سرخی مائل رنگ پر مشتمل ریت کا ایسا میدان کہ بندہ دیکھتے دیکھتے اکتا جائے مگر اس کی وسعت کو نہ ناپ سکے۔ امریکہ کا صحرائے مہاوی‘ افریقہ کا صحرائے اعظم‘ آسٹریلیا کا عظیم صحرا‘ دبئی کا ریگستان اور سعودی عرب کا ریگستان‘ جس کو دیکھیں اس کی علیحدہ ہی صورت ہے۔ سب کا بنیادی عنصر تو ریت ہی ہے مگر ہر ریت مختلف اور ہررنگ فرق‘ بناوٹ علیحدہ اور ٹیلوں کی ساخت اپنی اپنی۔ چلیں یہ تو مختلف ممالک اور مختلف براعظموں کی بات ہے‘ ادھر پاکستان میں سکردو کا ریگستان تو خیر اپنی جگہ قدرت کا ایک عجوبہ ہے۔ لیکن تھل کا ریگستان اور چولستان کا صحرا آپس میں نہیں ملتا۔ منظر نامہ بھی مختلف اور سطح زمین میں بھی بے تحاشا فرق۔ تھل میں بہت سی جگہوں پر زیر زمین پانی میٹھا ہے‘ بعض جگہوں پر تو ایسے کہ ادھر پانی میٹھا ہے اور چند گز دور پانی کڑوا ہے۔ روئیدگی‘ جھاڑیاں اور درخت مقابلتاً زیادہ۔ آباد کاری کی صورتحال بہت بہتر اور کم مشقت طلب‘ کیونکہ پانی کا حصول نسبتاً آسان ہے۔ اس کے مقابلے میں چولستان میں میٹھا پانی کم میسرہے اور ذرائع آمدورفت بھی کم اور مشکل ہیں۔ ریت بعض جگہوں پر ایسی نرم جیسے بھوبل۔ انسانوں اور جانوروں کے لیے کبھی پانی کا واحد ذریعہ صرف ٹوبے ہوتے تھے جن کا بھرنا بارشوں پر منحصر تھا۔ اب جن جگہوں پر میٹھا پانی میسر ہے وہاں لوگوں نے سولر پمپ لگا لیے ہیں مگر پانی اب بھی اس صحرا کی نایاب چیزوں میں شامل ہے۔ الخدمت نے ان ریگستانوں میں پانی کے پمپ لگائے ہیں۔ کومل نے ایک‘ دو ماہ پہلے الخدمت والوں کو اپنی ماں کے نام پر ایک ہینڈ پمپ کے پیسے بھجوائے تھے۔ انہوں نے چند دن پہلے تھر میں لگے اس پمپ سے بچیوں کے پانی بھرنے کی وڈیو اسے بھجوائی تھی۔ اللہ جانے تھر میں کون سی جگہ تھی جہاں یہ پمپ ہے مگر جہاں بھی ہے مخلوق کے کام آرہا ہے۔ کیا خبر یہ وہی نلکا ہو جس سے ویرا واہ کے پاس میں نے بچوں کو پانی بھرتے دیکھا تھا۔ (جاری)