ریگستان… (3)

سردیوں میں جنگل‘ صحرا اور ویرانے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ گرمیوں میں مَیں اپنی سیر سپاٹے اور آوارہ گردی کی ہڑک پہاڑوں پر پوری کر لیتا ہوں مگر سردیاں آتے ہی مجھے صحرا‘ جنگل اور ویرانے یاد آنے لگ جاتے ہیں۔ پاکستان کا کون سا جنگل ہو گا جو اس سیلانی نے نہ دیکھا ہوگا اور کون سا ویرانہ ہوگا جس سے اس مسافر کا گزر نہ ہوا ہوگا۔ ایک تھر کا ریگستان تھا جو بچا ہوا تھا اور گزشتہ دو سال سے پروگرام بنتا تھا اور رہ جاتا تھا۔ اس بار ارادہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے تھر ضرور جانا ہے۔ میں تب اسلام آباد تھا جب شوکت کا میسج آیا کہ تین روز بعد سندھ کی طرف نکلنے کا پروگرام ہے۔ میسج کے نیچے اس میں ہر قسم کی تبدیلی کا اختیار مجھے دیتے ہوئے اسے فوری طور پر فائنل کرنے کا لکھا ہوا تھا۔ میں نے ڈاکٹر عنایت کو پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی منظوری لی اور شوکت کو Go Aheadکہہ دیا۔
جس روز نکلنے کا طے ہوا یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ ڈاکٹر عنایت کے گھر سے یہ تین نفری قافلہ صبح سات بجے روانہ ہوگا اور ناشتہ راستے میں کہیں کیا جائے گا۔ میں نے شوکت کو کہا کہ ملتان تا سکھر والی موٹروے پر تاریخ کا سب سے بدمزہ ناشتہ کرنے کے بعد بھی اگر اسے عبرت حاصل نہیں ہوئی تو اس کی مستقل مزاجی اور ذائقے کی حس سے محرومی پر مبارکباد دی جانی چاہیے۔ شوکت کہنے لگا کہ اسے اپنا گزشتہ تجربہ یاد ہے اور وہ گھر سے پراٹھے اور سرسوں کا ساگ ہمراہ لائے گا۔ سرسوں کا ساگ ہم دونوں کی کمزوری ہے اور اوپر سے قدرِ مشترک یہ ہے کہ ہم دونوں سیزن میں کہیں نہ کہیں سے سرسوں کا ساگ مانگ تانگ کر یا ادھر اُدھر سے ہتھیا کر لاتے ہیں اور ایک طے شدہ معاہدے کے تحت ہر فریق دوسرے کو اپنے لوٹ مار کردہ ساگ کا تیسرا حصہ دیتا ہے۔ تاہم اس معاہدے کے باوجود مجھے یقینِ کامل ہے کہ شوکت اس میں ڈنڈی مارتا ہے اور مجھے میرا طے شدہ حصہ کبھی بھی ایمانداری سے نہیں دیتا۔
جب ڈاکٹر عنایت کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ملتان سکھر موٹروے بوجہ دھند بند ہے۔ میں نے کہا کہ فارغ بیٹھنے کے بجائے ناشتہ پھڑکایا جائے۔ شوکت پوچھنے لگا کہ آج ناشتے کے ساتھ پھڑکانے کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے؟ میں نے کہا :صبح کشمیری چائے کے ساتھ باقر خانی کا ناشتہ تو کیا جاتا ہے تاہم ساگ کے پراٹھے ہوں تو وہ کھانے کے بجائے پھڑکانے کے زمرے میں آتے ہیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک شوکت مسلسل موٹروے کی ہیلپ لائن پر موٹروے کا سٹیٹس معلوم کرتا رہا پھر فیصلہ ہوا کہ چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اگر ملتان سے موٹروے کھلی نہ ملی تو پھر شجاع آباد سے موٹروے پر چڑھنے کی کوشش کریں گے اور امید ہے کہ جب تک ہم شجاع آبادپہنچیں گے دھند ختم ہو جائے گی۔ ہمارا اندازہ درست ثابت ہوا ‘ جب ہم شجاع آباد انٹرچینج پر پہنچے تو موٹروے کھل چکی تھی۔
ملتان تا سکھر موٹروے کے کنارے پر ہوئی شجرکاری ملتان تا لاہور یا لاہور تا اسلام آباد والی موٹرویز کے کناروں پر ہونے والی شجرکاری سے یکسر مختلف ہے اور شاید یہ اپنی نوعیت کی واحد شجرکاری ہے جو فضول قسم کے درختوں کی نمائش کے بجائے مقامی موسم اور زمین سے ہم آہنگی رکھنے والے درختوں پر مشتمل ہے اور درختوں کی یہ Indigenous(سودیشی) اقسام نہ صرف یہ کہ خوب پھل پھول رہی ہیں بلکہ اپنی برداشت اور سخت جانی کے باعث دیرپا سبزے اور چھاؤں کا سبب بنیں گی۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس موٹروے کے کناروں پر شجرکاری کا منصوبہ دفتر میں بیٹھے ہوئے کسی بابو کے بجائے ہارٹی کلچر کے ماہر اور نباتات کی ساختیات کو سمجھنے والے ایگری کلچر یونیورسٹی فیصل آباد کے استاد محمد اسلم صاحب نے بنایا اور اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا کہ لگائے جانے والے درخت اس علاقے کے موسم‘ زمین اور ضرورت کے مطابق ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد میں لگائے جانے والے کھجور کے درختوں والا حال ہو اور درخت سارے تو مرجائیں مگر لگانے والوں کی جیبیں بھر جائیں۔
ملتان سے سکھر تک کا وہ سفر جو کبھی ساڑھے چھ گھنٹوں میں طے ہوتا تھا اب ساڑھے تین گھنٹوں کا رہ گیا ہے۔ اس سے آگے حیدر آباد تک کا سفر مشقت‘ خجالت اور اذیت سے بھرپور ہے۔ سڑک کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور ٹرکوں کی بھرمار ہے ایک ٹرک چالیس کلو میٹر فی گھنٹہ سے جا رہا ہے تو دوسرا ٹرک اسے چالیس اعشاریہ پانچ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کراس کرانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور اس عمل میں اسے تین چار منٹ لگتے ہیں اور ابھی وہ دوسرے ٹرک کو پوری طرح کراس نہیں کر پاتا کہ اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور وہ واپس پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس دوران پیچھے والی ساری ٹریفک ذلیل ہوتی رہتی ہے۔ اچھا بھلا سکھر تا حیدر آباد موٹروے کا منصوبہ بن گیا ہے مگر ابھی ایک پنجابی کہاوت کے مطابق ”گاؤں ابھی آباد نہیں ہو اور اچکے اسے لوٹنے کیلئے پہنچ گئے ہیں‘‘ زمین کی خریداری میں ہی اتنا گھپلا اور لوٹ مار ہوئی ہے کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔ پہلے یہ سنتے تھے کہ کسی ٹھیکے میں دس فیصد فلاں محکمے کا‘ پانچ فلاں کا اور دس فیصد میں فلاں فلاں حصہ دار ہوگا اور کل پراجیکٹ سے بیس پچیس فیصد تک کمیشن کھانے کا رواج تھا ‘تاہم معاملہ اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ موٹروے کی زمین کی ایک ضلع میں خریداری کیلئے مختص ساڑھے چار ارب روپے میں سے ڈپٹی کمشنر محترم سیدھے سیدھے دو ارب روپے ڈکار گئے ہیں اور محکمہ مال کے دیگر افسروں نے بھی اتنا پیسہ ڈکار لیا کہ اس میں سے چالیس کروڑ واپس وصول کئے جا چکے ہیں‘ یعنی ساڑھے چار ارب روپے میں سے تین ارب روپے کے لگ بھگ رقم تو صرف زمین کی خریداری میں غتربود کی جا چکی ہے جو کل رقم کا 66 فیصد بنتی ہے۔ اندازہ کر لیں کہ ملک میں سرکاری پراجیکٹس سے کمیشن ہضم کرنے کی شرح کہاں تک پہنچ چکی ہے۔
اس لوٹ مار کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ موٹروے کیلئے زمین کی خریداری میں ہونے والے گھپلوں پر تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر بہادر گرفتارہیں اور خریداری کا سارا عمل رُک گیاہے۔ سرکار کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں یہ بات کہتے ہوئے ایسے فضول میں ہوائی نہیں چھوڑ رہا بلکہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنی مفتاح اسماعیل اور شبر زیدی بتا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے پہلے کون سا سچ بولا ہے جو اَب ان کی بات پر یقین کریں۔ کل ایک دوست جو ایک قونصل خانے میں قونصل جنرل ہے‘ بتا رہا تھا کہ اس کے پاس اپنے مشن کے عملے کو دینے کیلئے اگلے ماہ کی تنخواہ اور عمارت کے کرائے کے پیسے نہیں ہیں‘ ممکن ہے مہینہ ختم ہونے سے پہلے پیسے آ جائیں لیکن کئی ملکوں میں سفارت خانے کے عملے اور عمارتوں کے کرائے کی مد میں گزشتہ ماہ اور اس سے پچھلے ماہ کے واجبات ادا نہیں کئے گئے‘ ایسی صورتحال تاریخ میں پہلے کبھی نہ دیکھی اور نہ سُنی۔
بات ریگستانوں سے ہوتی ہوئی ملکی معیشت کی زرخیز مٹی کے ریگستان بننے پر پہنچ گئی۔ خیرپور سے سڑک کے دونوں اطراف میں چار ماہ قبل ہونے والی بارشوں کا پانی ابھی تک کھڑا ہے اور شاید مزید ایک دو ماہ یہی حال رہے گا۔ (جاری)