ریگستان … (7)

عمر ماروی کی رومانوی کلاسیکل داستان کا مرکز عمر کوٹ ہے اور سندھ کی دوسری کلاسیکل رومانوی داستان ”مومل رانو‘‘ کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ مومل راٹھور لودھروا کے راجہ نند کی حسین و جمیل بیٹی تھی جو اپنے جادوئی اور طلسماتی کاک محل میں رہتی تھی۔ عمر کوٹ کے راجہ ہمیر سنگھ سوڈھا کا مصاحب رانو میندھرو مومل کے حسن کا چرچا سن کر اس کے عشق میں مبتلا ہو گیا اور مومل کی شرط کو پورا کرتے ہوئے کاک محل کے سارے جان لیوا اور خطرناک طلسم توڑتا ہوا مومل تک پہنچ گیا۔ شرط کے مطابق مومل اس کی بیوی بننا قبول کر لیتی ہے۔ ایک رات گزار کر رانو واپس عمر کوٹ آ جاتا ہے اور پھر اس محبت کی داستان میں انتظار اور جدائی سے بھرپور المیہ شروع ہوتا ہے۔ مومل کی اداسی کو دور کرنے کے لیے اس کی سات بہنوں میں سے ایک اسے خوش کرنے کے لیے رانو کا روپ دھار کر اس سے باتیں کرتی ہے۔ اس رات دونوں بہنیں باتیں کرتے کرتے سو جاتی ہیں۔ رات رانو آتا ہے تو مردانہ روپ میں مومل کی بہن کو اس کے ساتھ سویا دیکھ کر اسے بے وفا سمجھتا ہے اور اپنی چھڑی کمرے کے باہر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ صبح رانو اس چھڑی کو دیکھتی ہے تو سمجھ جاتی ہے کہ رات رانو آیا تھا اور یہ خیال کرکے کہ وہ کسی غیر مرد کے ساتھ سوئی ہوئی ہے‘ اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ مومل عمر کوٹ آ کر رانو کو اپنی صفائی دیتی ہے مگر وہ یقین نہیں کرتا۔ مومل تب ساتھ جلتے ہوئے الاؤ میں کود کر جان دے دیتی ہے‘ رانو کو اس کی بے گناہی کا یقین آ جاتا ہے اور وہ بھی اسی الاؤ میں کود کر جان دے دیتا ہے۔
یہ اتفاق ہے کہ اس علاقے کی تینوں رومانوی کلاسیکی داستانوں عمر ماروی‘ مومل رانو اور سسی پنوں کا تعلق ریگستان سے تھا۔ عرصہ ہوا میرا گھوٹکی سے تھوڑے فاصلے پر جروار میں ایک عظیم الشان قلعہ نما حویلی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ محل نما عمارت ”مومل جی ماڑی‘‘ یعنی مومل کی حویلی یا محل کے نام سے مشہور ہے۔ حقیقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے تاہم اس عمارت کے بارے میں مشہور ہے کہ یہی وہ طلسمی کاک محل تھا جو مومل اور اس کی ایک بہن نااٹر نے بنایا تھا۔ اب یہ محض کھنڈر ہے تاہم ان کھنڈرات سے دکھائی دیتا ہے کہ کبھی یہ نہایت شاندار قلعہ نما حویلی ہوگی جو وقت کے ہاتھوں برباد ہو گئی ہے۔
رات رمیش کمار کھتری مکس سبزی پکوا کر لے آیا۔ آلو‘ بھیں‘ اڑھائی تین انچ لمبائی کے آرگینک کریلے‘ اسی سائز کے انگلی بھر لمبے بینگن وہ کسی اپنے جاننے والے سے لایا تھا‘ جو دو تین کنال میں خاص طور پر یہ دیسی سبزیاں اگاتا ہے۔ شہر کے وسط میں عمر کوٹ کا قلعہ ہے جو ماروی کی قید اور اکبر بادشاہ کی پیدائش کے حوالے سے مشہور ہے؛ تاہم اکبر بادشاہ کی جائے پیدائش اس قلعے کے بجائے اس سے دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اب وہاں ایک یادگاری چبوترا اور کینوپی بنی ہوئی ہے۔ عمر کوٹ (امرکوٹ) کے قلعے کا دروازہ بڑا پُررعب اور مضبوط ہے اور اس میں داخلے کا راستہ دو دمدمہ نما حفاظتی برجوں کے درمیان سے سیدھا گزرنے کے بجائے بائیں طرف مڑ کر ہے اور حفاظتی نقطۂ نظر سے یہ خم بڑا کارآمد ہے۔ قلعہ خاصا وسیع ہے لیکن سوائے ایک درمیانی برج کے جس پر چڑھنے کے لیے سیدھی لمبائی میں سیڑھیاں ہیں۔ اس برج کے اوپر آٹھ نو عدد توپیں پڑی ہیں جن کا رخ چاروں طرف ہے۔ چند خستہ حال عمارتیں ہیں۔ ایک حویلی نما عمارت کی مرمت جاری تھی۔
ایمانداری کی بات ہے کہ تھر شاید دنیا کے خوبصورت ترین ریگستانوں میں سے ایک ہے۔ سمندر سے آنے والی مرطوب ہوا کی نمی اس کی روئیدگی میں مدد و معاون ہے اور جولائی اگست کی بارشیں اس کے سبزے کو نئی روح اور زندگی بخشتی ہیں۔ تھل تو اب آبادکاری اور کاشتکاری کے طفیل سرسبز دکھائی دیتا ہے لیکن قدرتی طور پر جس قدر سرسبز تھر ہے‘ اس کی اور کوئی مثال کم از کم میری نظر سے تو نہیں گزری۔ اگر زرعی سائنسدان کھارے پانی سے پیدا ہونے والی فصلات کے بیج تیار کر لیں اور پانی کی کمی کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں سپرنکلر یا ڈرپ اریگیشن کو فروغ دیا جائے تو یہ صحرا اتنا ذرخیز ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کا تصور کرنا فی الوقت ممکن نہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ بجلی اس قدر مہنگی ہو چکی ہے کہ اس پر صنعت چلانا اور اس کو برآمد کرنا اب دوسرے برآمد کنندہ ممالک کے مقابلے میں مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ گیس کا بھی یہی حال ہے۔ مہنگائی‘ روپے کی بے قدری‘ خام مال کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے‘ ٹیکسوں کی بے پناہ اقسام اور بینکوں سے لی گئی رقم پر سود کی شرح میں اضافے نے اس ملک میں صنعتی ترقی کا پہیہ جام کر دیا ہے اور مجھے امید نہیں کہ موجودہ صورتحال اور حالات کے پیش نظر مستقبل قریب میں اس ملک میں کوئی صنعتی ترقی یا کوئی قابلِ ذکر بہتری آ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ ہم مسلسل خسارے کا شکار ہیں‘ ملک میں کسی قابلِ ذکر صنعتی ترقی کے امکانات معدوم ہونے کے بعد ہمارے پاس صرف زراعت ہی ایک ایسا سیکٹر ہے جس میں بہتری کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ بے تحاشا گنجائش ہے اور اس گنجائش کا سب سے آسان اور واضح میدان بے آباد زمین کو قابلِ کاشت بنانے میں پنہاں ہے۔ پاکستان میں اس وقت کل قابلِ کاشت رقبہ لگ بھگ پانچ کروڑ ایکڑ ہے جبکہ وہ غیر کاشتہ رقبہ جو تھوڑی سی محنت کے ساتھ قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے وہ اڑھائی کروڑ ایکڑ سے زائد ہے۔ یعنی جو رقبہ ہم قابلِ کاشت لا سکتے ہیں وہ ہمارے موجودہ کاشتہ رقبے کا کم از کم پچاس فیصد ہے۔ اس طرح دیکھیں تو ہم صرف اپنے کاشتہ رقبے میں اضافہ کرکے ملکی زرعی پیداوار کو حالیہ پیداوار کے مقابلے میں تیس چالیس فیصد تو بڑھا ہی سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے ہمارے پاس تھر‘ چولستان اور تھل میں غیر آباد شدہ زمین موجود ہے اور میرے خیال میں تھر اس کام کے لیے سب سے موزوں علاقہ ہے جہاں اگر باقاعدہ منصوبہ بندی سے جدید سائنسی انداز میں زمین کو بروئے کار لایا جائے تو نہ صرف پورے علاقے کی قسمت بدل سکتی ہے بلکہ ملکی زرعی پیداوار میں اضافے سے زرعی خودکفالت سے آگے بڑھ کر زرعی اجناس کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ہم تیل کے بعد سب سے زیادہ زرِمبادلہ خوردنی تیل کی درآمد پر صرف کرتے ہیں جبکہ تھر کے کنارے پر سمندر کے آس پاس کی زمین اور موسم پام کی کاشت کے لیے بہترین ہے جس سے خوردنی تیل حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا سالانہ پام آئل کی درآمد کا بل تقریباً 2.15بلین ڈالر ہے۔ بھارت اور چین کے بعد ہم دنیا میں پام آئل درآمد کرنے کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ ساحلی علاقوں میں پام کی کاشت سے امپورٹ بل کو چند سال میں صفر پر لایا جا سکتا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم ہر سال صرف گندم‘ کپاس اور دالوں پر اربوں ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں۔
تھر کے ریگستان میں قابلِ کاشت بننے کے امکانات دیگر علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ اس کام کے لیے یہاں پانی کی فراہمی اور کم پانی سے تیار ہونے والے فصلوں کے بیج تیار کرنا ہوں گے۔ اگر بیکار بیٹھے ہوئے سرکاری زرعی ادارے ہاتھ پاؤں ہلائیں تو یہ صحرا جو صرف جولائی اور اگست کی بارشوں کے بعد سبزے کی بہار دکھاتا ہے‘ سارے سال کے لیے سرسبز و شاداب کیا جا سکتا ہے۔ ابھی اس علاقے میں فی مربع میل آبادی کم ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ زمین زیرکاشت لائی جا سکتی ہے۔ اس ریگستان میں تھر کول کے علاوہ بھی بے پناہ قدرتی خزانے پوشیدہ ہیں جن میں سرفہرست تو اس کی وہ زرخیزی ہے جو ریت تلے پنہاں ہے اور محض محنت‘ درست منصوبہ بندی اور خلوصِ نیت کی منتظر ہے۔ (ختم)