ریگستان…(4)

جولائی اور اگست میں ہونے والی تباہ کن بارشوں کی کوئی مثال کم از کم اس عاجز کی یادداشت کے کسی خانے میں نہیں ہے۔ ایسی بارشیں کہ ”چھاجوں مینہ برسنے‘‘ محاورہ بھی کمتر پڑ جائے۔ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان اور خیبر پختونخوا کے بارشوں سے متاثرہ علاقے پہاڑی تھے اور بارش تباہی پھیرتی ہوئی ندی نالوں اور دریاؤں میں شامل ہو گئی۔ جو بربادی کرنی تھی وہ کرلی اور پانی اتر گیا۔ لیکن ادھر سندھ میں یہ تباہی زیادہ شدید اور دیرپا ہے۔ پانی ابھی تک بہت سے علاقوں میں کھڑا ہے اور ابھی اس کے خشک ہونے کا دو ماہ تک کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ سڑک کے دونوں طرف پانی کھڑا ہے اور بھلا اب وہ پانی کہاں جائے؟ نہ اس کا کوئی نکاس ہے اور نہ ہی کوئی اور بندوبست ہے۔
سندھ میں بارشوں سے زیادہ متاثرہ علاقے خیرپور‘ گمبٹ‘ لاڑکانہ‘ محراب پور‘ نوشہرو فیروز‘ میہڑ‘ دادو‘ مورو‘ سیہون‘ قاضی احمد اور نواب شاہ تھے۔ یہاں ناقابلِ یقین بارشیں ہوئیں۔ ساری فصلیں برباد ہو گئیں اور بہت سے علاقوں میں لوگ ابھی تک نئی فصل کاشت کرنے سے بھی محروم ہیں۔ ملتان سے روانہ ہوتے ہوئے میں نے ایک دوست کی وساطت سے ایک بار پھر مہرانو دیکھنے کے لیے رابطہ کیا تو علم ہوا کہ مہرانو وائلڈ لائف پارک ابھی ناقابلِ رسائی ہے‘ اس میں اتنا پانی کھڑا ہے کہ اگلے دو ماہ تک سوکھنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ خیرپور سے سکرنڈ تک یہی حال تھا۔ جگہ جگہ کیلے کے برباد شدہ باغات‘ گنے کے متاثرہ کھیت اور کپاس کی برباد شدہ فصل اس تباہی کی داستان بیان کر رہی تھی۔
خیرپور سے پینتیس‘ چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر گمبٹ ہے۔ گمبٹ کو آپ ایک بڑا قصبہ یا چھوٹا شہر کہہ سکتے ہیں مگر ایک اعتبار سے یہ بہت سے بڑے شہروں سے آگے نکل گیا ہے اور اس کی واحد وجہ یہاں پر موجود پیر عبدالقادر شاہ جیلانی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہے۔ 2006ء میں قائم ہونے والا یہ ادارہ اپنی حیران کن بلکہ ناقابلِ یقین کارکردگی اور سہولتوں کے باعث ایک ایسا مقام حاصل کر چکا ہے جو بہت سے دیگر اداروں کے لیے محض خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قصبے میں قائم ہونے والے اس ادارے میں جگر کی تبدیلی یعنی Liver transplant کی سہولت میسر ہے اور مزید یہ کہ یہ سہولت سو فیصد مفت ہے۔ بلکہ یہی کیا‘ یہاں ہر قسم کاعلاج مفت ہے اور جگر کی تبدیلی کے علاوہ گردوں کی تبدیلی‘ اوپن ہارٹ سرجری‘ ٹراما سنٹر‘ برن یونٹ اور ڈائیلسیز کی سہولت بھی بلامعاوضہ دستیاب ہے۔ یہ وہ سہولتیں ہیں جو شاید پاکستان کے تین چار بڑے شہروں کے علاوہ اور کہیں میسر نہیں اور سو فیصد مفت تو شاید کہیں بھی نہیں۔
رات حیدر آباد میں گزاری اور اگلے روز جب سفر شروع کیا تو سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ ٹنڈو محمد خان سے ہوتے ہوئے بدین پہنچے تو اپنی طرف سے بڑی دیکھ بھال اور چھان پھٹک کے بعد ایک ہوٹل میں ناشتے کے لیے رک گئے۔ اس ناشتے نے ہمارے سارے اندازے‘ تجربے اور تحقیق کا دھڑن تختہ کر دیا؛ تاہم بعد میں اندازہ ہوا کہ سندھ میں سڑک کے کنارے آباد ہوٹلوں کے سلسلے میں آپ کا تجربہ ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے کیونکہ تقریباً ہر جگہ یہی حال تھا۔ مٹھی حیدر آباد سے سوا دو سو کلو میٹر کے لگ بھگ ہے اور سڑک بھی معقول ہے۔ ہم ساڑہے نو بجے مٹھی میں تھے۔ مٹھی کو تھر کا دل سمجھیں۔ سڑک پر جگہ جگہ مویشیوں کے گلے آ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ مویشی ہیں جو برسات میں ہونے والی بارشوں سے پیدا ہونے والے سبزے پر چرانے کی غرض سے تھر آتے ہیں اور کئی مہینے اس سبزے پر گزارہ کرنے کے بعد اب کسی اور سر سبز علاقے کی طرف جا رہے ہیں۔ تھر میں بیلوں اور گائیوں کے سینگ کٹوانے کا رواج نہیں ہے۔ ایسے شاندار سینگوں والے بیل کہ پنجاب میں کم ہی دکھائی دیں گے۔
سندھ کے ضلع تھرپارکر‘ عمر کوٹ (امر کوٹ) میرپور خاص اور سانگھڑ میں پاکستان میں آباد کل ہندوؤں کا نصف آباد ہے۔ اسلام کوٹ (سلام کوٹ)‘ مٹھی اور عمر کوٹ (امر کوٹ) میں ہندو آبادی کی شرح علی الترتیب نوے‘ اسی اور چون فیصد ہے۔ یہ سارے علاقے تھر میں ہیں۔ سندھ کے ان علاقوں میں ہندو اور مسلمان بڑے خوشگوار انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ بڑی سہولت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پنجابیوں کی نسبت سندھی اس حوالے سے خاصے وسیع القلب اور مذہبی حوالوں سے زیادہ فراخ دل ہیں۔
تھرپارکر کبھی جین مت کا گڑھ تھا اور اس علاقے میں جین مت کے درجن بھر پرانے مندر ابھی تک کسی نہ کسی حالت میں موجود ہیں۔ مٹھی سے اسلام کوٹ (سلام کوٹ) تک کا سفر خاصا آرم دہ تھا۔ سڑک ٹھیک تھی اور دونوں طرف روئیدگی تھی۔ فصل نہ سہی مگر سبزہ موجود تھا۔ کیکر‘ ببول‘ جال اور سب سے بڑھ کر دور دور تک پھیلا ہوا جنگلی کیکر۔ اگر پانی کا مسئلہ نہ ہو تو تھر ریگستان لگتا ہی نہیں۔ ایسا سرسبز ریگستان بھلا اور کہاں ہوگا؟ درمیان میں کہیں کہیں آبادی اور اس کی نشانی کالی چھت والے گول گوپے ہیں۔ جنگلی لئی کی جھاڑی سے تیار ہونے والی گول نوکدار چھت ایسی ہوتی ہے کہ گرم دھوپ میں بھی گرمی کی شدت کو کم کر دیتی ہے۔ نہایت صاف ستھرے اور ترتیب سے بنے ہوئے گوپے جن کی دیواروں میں ہوا کے لیے نیچے والی گول دیوار میں خوبصورت جالی بنائی ہوئی تھی۔
اسلام کوٹ سے آدھ پون گھنٹے کی مسافت پر سڑک کے بائیں طرف اندر تین کلو میٹر پر اس علاقے کا سب سے بڑا اور قدیم جین مت کا ‘گوری مندر‘ تھا۔ گوریچو پارسی کا بنایا ہوا یہ مندر قریب ساڑھے آٹھ سو سال پرانا ہے۔ بھارتی ریاست جودھ پور سے لائے گئے سنگ مر مر سے تعمیر شدہ اس مندر میں تین منڈپ‘ پجاریوں کے لیے رہائش اور عبادت کے لیے چھوٹے چھوٹے چوبیس کمرے ہیں۔ درمیان میں مرکزی ہال ہے اور دونوں اطراف میں ہوا اور روشنی کے لیے غلام گردشیں ہیں۔ چھت پر اسلامی طرز کے باون چھوٹے بڑے گنبد ہیں۔ صحن میں سنگ مر مر کا بارہ دری ٹائپ دالان ہے۔ اندر داخل ہونے کے لیے چار پانچ سیڑھیاں چڑھ کر دوبارہ نیچے اترنا پڑتا ہے۔ جب ہم مندر پہنچے تو وہاں صحن میں گڑ والے چاولوں کا ‘پرساد‘ تقسیم ہو رہا تھا اور ویران مندر میں رونق لگی ہوئی تھی۔ مجھے گڑ والے چاول دیکھ کر شوکت بہت یاد آیا۔
جین مت کبھی اس علاقے کا بڑا مذہب تھا اور اس کے ثبوت جین مت کے وہ مندر ہیں جو پورے ننگرپار میں بکھرے ہوئے ہیں۔ گوری مندر‘ ویرواہ مندر‘ بھودیسر مندر‘ ستی دھارا مندر‘ عمر کوٹ کا جین مندر اور ننگر پارکرکے بازار میں موجود جین مندر کے علاوہ کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں موجود مندروں کی باقیات بتاتی ہیں کہ کبھی جین مت کو ماننے والے بہت بڑی تعداد میں یہاں آباد تھے۔ ان میں استعمال ہونے والا سنگ مرمر دور دراز سے منگوایا گیا تھا جو جین مذہب کے ماننے والوں کی خوشحالی ظاہر کرتا ہے۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ آہستہ آہستہ جین اس علاقے سے کوچ کر گئے۔ جو تھوڑے بہت باقی رہ گئے وہ 1947ء میں ننگرپارکر سے بھارت چلے گئے۔ اب تھر کے صحرا میں درجن بھر مندر ہیں جن میں عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچا۔ تھر ایک لحاظ سے شاید دنیا بھر کا سب سے آباد اور قدرتی طور پر سر سبز ریگستان ہے۔ (جاری)