ریگستان……(5)

ملتان سے بروقت نکلنے میں میری عقلمندی یا دور اندیشی کا کوئی دخل نہیں تھا بس پروگرام ہی ایسے اچانک بن گیا اور ہم ملتان سے نکل گئے‘ وگرنہ وہ ذلت ہوتی کہ خدا کی پناہ‘ گھر فون پر بچوں سے بات ہوئی تو پتا چلا کہ ملتان میں پاکستان اور انگلینڈ کا دوسرا ٹیسٹ میچ ہو رہا ہے اور پہلے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ابدالی روڈ اور ڈیرہ اڈا روڈ بند کی گئی‘ پھر اچانک ہی کرکٹ ٹیموں کو شہر کے دوسرے کونے پر واقع ایک اجیکٹ پر لیجانے کی غرض سے سارا بوسن روڈ بند کر دیا گیا۔ زکریا یونیورسٹی میں تعطیل کر دی گئی ‘ اس کے علاوہ اس سڑک اور اس سے متصل دیگر سڑکوں پر واقع تین یونیورسٹیاں‘ سولہ کالج اور ایک سو تئیس سکول بھی بند کر دیے گئے ۔ اتفاق سے میرا گھر بھی اسی سڑک پر واقع ہے اور اس سڑک کے گرد رہنے والے لاکھوں مکین سارا دن حبس بے جا میں رہے۔ مذکورہ بالا دو سڑکیں سات دن کیلئے بند رہیں اور اس کے علاوہ ملتان تا وہاڑی قومی شاہراہ کا ایک پورا حصہ وہاڑی چوک تا بابر چوک بھی بند تھا اور اس قومی شاہراہ کی ساری ٹریفک بابر چوک سے سدرن بائی پاس سے ہوتی ہوئی پیراں غائب روڈ پر جاتی رہی اور پھر وہاں سے بدھلہ سنت روڈ سے ہوتی ہوئی شہر پہنچتی ۔ بدھلہ روڈ ایسی سڑک ہے جس پر دو عدد چنگ چی بھی آسانی سے ایک دوسرے کو کراس نہیں کر سکتے جس پر ضلع بھر کی بھاری ٹریفک گزاری جاتی رہی۔ مخلوقِ خدا تنگ و پریشان رہی۔ ملتان اولیاء کا شہر ہے اور مخلوق کی دعاؤں یا بددعاؤں کے طفیل الحمدللہ پانچ دن پر مشتمل یہ ٹیسٹ میچ چاردن میں ختم ہو گیا۔ اللہ کے فضل سے عوام اس شتابی والی شکست کے طفیل ایک دن مزید ذلیل و رسوا ہونے سے بچ گئے۔
قارئین! معاف کیجئے گا یہ درمیان اس تازہ صور تحال پر کمنٹری آ گئی۔ ہم جب مٹھی عمر کوٹ جانے کیلئے شہر کے بائی پاس چوک پر پہنچے تو بائیں ہاتھ پر نعمت اللہ خاں کے نام پر بنایا ہوا الخدمت فاؤنڈیشن کا ہسپتال اس علاقے میں پبلک ہیلتھ کیئر کے حوالے سے اپنے کام میں مصروف دکھائی دیا۔ ویراواہ موڑ پر کھڑے ہوئے رینجرز والوں نے ہمیں روکا‘ ہماری گاڑی کی انٹری کی‘ ڈرائیور کا شناختی کارڈ چیک کیا اورہمیں آگے جانے کیلئے ایک پرچی پکڑا دی۔ ہم آگے جانے کے بجائے بائیں طرف ویراواہ کی طرف مڑ گئے۔ ویراواہ سے پہلے اس موڑ سے محض سو میٹر کے فاصلے پر جین مندر تھا‘ لق و دق صحرا کے اندر ایک ویرانے میں یہ مندر اپنی عظمتِ رفتہ کی کہانی سنا رہا تھا۔ مندر کے چاروں طرف حفاظتی دیوار تھی اور داخلے کیلئے جو دروازہ تھا وہ سطح زمین سے چار پانچ فٹ بلند تھا اور اس دروازے سے گزرنے کیلئے چھ سیڑھیاں چڑھنی اور پھر اترنی پڑتی تھیں۔ چار دیواری کے عین درمیان میں ایک چبوترے کے اوپر صدیوں پرانے اس مندر کی باقیات تھیں‘ سرخ پتھر پر مشتمل دو ستونوں پر کھڑا ہوا برآمدہ اور اس کے پیچھے سنگ مر مر سے بنے ہوئے دو کمرے تھے۔ برآمدے اور پہلے کمرے کے اوپر مخصوص جین طرز کے پست گولائی والے گنبد تھے جبکہ آخری کمرے کے اوپر مندر کی مخصوص نشانی شکارا بہت ہی اچھی حالت میں موجود تھا۔ شکارا مندر کے سب سے اونچے نوک دار کلس کو کہتے ہیں جو عموماً چوکور مخروطی ہوتا ہے اور اس پر باریک آرٹ ورک ہوا ہوتا ہے‘ زیادہ شاندار بنا ہو تو اس پر مورتیوں کی شبیہیں بنی ہوتی ہیں‘ برصغیر میں تقریباً تمام مندروں پر تھوڑے بہت تعمیراتی فرق کیساتھ شکارا ایک لازمی جزوہے‘ جین مت کے مندر بھی ہندو مندروں کی طرزِ تعمیر سے نہ صر ف متاثر ہیں بلکہ تقریباً تقریباً انہی بنیادوں پر تعمیر شدہ ہیں یعنی چبوترا نما داخلی برآمدہ‘ منڈپ اور شکارا‘ باقی سب کچھ اضافی ہے جو مندر کی وسعت اور استعمال کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔
دور دور تک نہ کوئی بندہ دکھائی دیتا تھا اور نہ کوئی اور ذی روح ‘ ریت ‘ کنکر‘ جھاڑیاں اور کیکر کے درخت‘ گاڑی سے نیچے اترے تو ہرطرف بھکڑا بوٹی پھیلی ہوئی تھی۔ خشک زمین پر اگنے والا یہ کثیر پہلو کانٹا کپڑوں اور جوتوں سے چپک جاتا ہے‘ سو ہمارے پائنچوں اور جوتوں سے بھی چپک گیا۔ میں اور ڈاکٹر عنایت پانچ سیڑھیاں چڑھ کر اور پھر دوبارہ اتر کر جین مندر کے احاطے میں داخل ہوئے۔ چار دیواری کے دو اطراف میں دیوار کے ساتھ درجنوں جھروکے بنے ہوئے تھے جن میں دیگر جین مندروں کی پتھروں سے بنی ہوئی باقیات رکھی ہوئی تھیں‘ ان میں مورتیاں ‘ بت‘ پتھر میں تراشیدہ شبیہیں‘ مختلف مناظر کی منظر کشی اور ستون وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ وہاں پانی کا ایک نلکا بھی تھا۔ میں نے اسے چلانے کی کوشش کی‘ دو تین بار ہینڈل چلانے سے پانی نکل آیا‘ چکھ کر دیکھا تو کھارا تھا تاہم مندر کے احاطے میں لگے ہوئے پودوں کی آبیاری کیلئے کافی تھا۔ پودے سرسبز تھے‘ اللہ جانے انہیں کون پانی لگاتا تھا مگر وہاں کسی چوکیدار‘ ملازم یا رضا کار کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
تھرپارکر کسی شہر کا نام نہیں بلکہ ضلع کا نام ہے جس کا ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے۔ یہ رقبے کے اعتبار سے سندھ کا سب سے بڑا ضلع ہے‘ صحرائے تھر کا زیادہ تر علاقہ اسی ضلع میں ہے تاہم اس کے علاوہ ضلع عمر کوٹ اور میرپور خاص کے کچھ علاقے بھی اسی صحرا کا حصہ ہیں‘ تقسیم سے قبل اس ضلع کا نام تھر اور پارکر تھا۔ یہ صوبہ سندھ میں فی مربع میل آبادی کے حساب سے سب سے کم آبادی والا ضلع ہے۔ اس کی تین تحصیلوں ننگر پارکر (نگر پارکر)‘ ڈپلو اور عمر کوٹ کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں‘ ننگر پارکر میں کارونجھر کی پہاڑیاں اس سرحد کی نشاندہی کرتی ہوئی آخری حد ہیں‘ گلابی رنگ کی یہ پہاڑیاں گرینائٹ کی ہیں اور یہاں سے گرینائٹ نکالنے کے حوالے سے ہونے والی کان کنی پر مقامی طور پر بہت زیادہ تحفظات اور مزاحمت پائی جاتی ہے۔
نگرپارکر جسے سندھی میں ننگر پارکر کہا جاتا ہے تھرپارکر کی آخری تحصیل ہے‘پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹ کی رکن کرشنا کماری کولہی المعروف کِشوبائی کا تعلق بھی ننگرپارکر سے ہے۔ کرشنا کماری کولہی اب تک رتنابھگوان داس چاولہ کے بعد سینیٹ کی منتخب ہونے والی دوسری ہندو خاتون رکن ہے۔ ننگرپارکر کے ایک دیہات سے تعلق رکھنے والے یہ رکنِ سینیٹ نہ صرف یہ کہ نہایت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے بلکہ اپنے بچپن میں یہ تین سال سے زائد عرصہ تک اپنے خاندان والوں کے ساتھ عمر کوٹ کے ایک جاگیردار کی بیگار کیمپ نما جیل میں بلامعاوضہ جبری مزدوری کے سلسلے میں قید بھی رہی‘ تب کرشنا کماری تیسری جماعت میں پڑھتی تھیں اور اس کے خاندان کی رہائی پولیس کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس نے ابتدائی تعلیم عمرکوٹ اور میر پور خاص سے حاصل کی اور سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا۔ ننگرپارکر سے سات آٹھ کلو میٹر پہلے کرشنا کماری کے دادا روپلوکولہی کے نام پر سندھ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے ایک نہایت ہی خوبصورت اور شاندار ریزورٹ (موٹل) بنایا ہے یہ اس علاقے میں جانے والوں کیلئے بہت آرام دہ رہائش گاہ ہو سکتی ہے۔
نگر پارکر (ننگر پارکر) ریگستان اورپہاڑی سلسلے کا حسین امتزاج ہے‘ ننگر پارکر سے چند کلو میٹر پہلے سڑک کے د ائیں طرف ریت بھرے میدان سے تھوڑا ہٹ کر دور بڑے بڑے پتھر دکھائی دیتے ہیں۔ جو اس ریت کے میدان میں نہ صرف عجیب بلکہ حیران کن لگتے ہیں۔ ایسا منظر سکردو سے حمزی غنڈ کی طرف جاتے ہوئے باغیچہ سے آگے دکھائی دیا تھا جب ایک کھلے میدان کے اندر جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر پڑے ہوئے تھے‘ ننگر پارکر والے پتھر سائز میں اتنے بڑے نہیں مگر ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر کی طرح پڑے ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ بڑھتے جا رہے تھے ۔لق و دق صحرا کے اندر بکھرے ہوئے یہ پتھر عجیب حیران کن منظر پیش کر رہے تھے۔ (جاری)