ریگستان…(6)

نگرپارکر تھرپارکر کا آخری بڑا قصبہ ہے۔ نگرپارکر میں داخلے سے پہلے ایک بار پھر رینجر کی چیک پوسٹ پر رکنا پڑا۔ پوری تفتیش ہوئی‘ کہاں سے آئے ہیں اور کدھر جانا ہے۔ بتایا کہ کارونجھر تک جانا ہے۔ پرچی دیتے وقت سختی سے تاکید کی گئی کہ کارونجھر سے آگے نہیں جانا۔ ہم نے بھلا آگے جا کر کیا کرنا تھا؟ پرچی لی اور نگرپارکر میں داخل ہو گئے۔ تنگ اور بارونق بازار تھا اور اس کے اختتام پر ایک گلی دائیں طرف جا رہی تھی اور ایک سڑک بائیں جانب جا رہی تھی۔ دائیں ہاتھ والی گلی میں نگرپارکر کا مشہور ننگرپارکر بازار ٹیمپل ہے۔ وہی ویراواہ والے جین مندر جیسا طرزِ تعمیر؛ تاہم اس سے زیادہ بڑا اور کہیں بہتر حالت میں‘ بائیں سڑک کارونجھر کے پہاڑی سلسلے کے پاس سے ہوتی ہوئی آگے دیہات میں چلی جاتی ہے یہ تنگ اور خستہ حال سڑک ہے۔ ہماری منزل کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ تھا۔
گرینائٹ اور چائنا مٹی پر مشتمل یہ پہاڑی سلسلہ انیس بیس کلو میٹر طویل اور تین سو میٹر سے زیادہ بلند ہے۔ گلابی رنگ کے یہ پہاڑ سورج کے ابھرنے سے لیکر غروب ہونے تک مختلف رنگ بدلتے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے میں بھی جین مت کے کئی مندر ہیں جن میں سے چند ایک کے تو محض کھنڈر بچے ہوئے ہیں جبکہ بھودیسر مندر اچھی حالت میں ہے۔ سوڈھا حکمرانوں کے زمانے میں بھودیسر اس علاقے کا دارالحکومت تھا۔ چند عشرے قبل ان پہاڑوں سے گرینائٹ نکالنے کیلئے شاید جی الانہ کو اجازت دی گئی مگر عملی طور پر کوئی کام شروع نہ ہوا؛ تاہم دو سال قبل دوبارہ ان پہاڑوں سے گرینائٹ نکالنے کا ٹھیکہ دیا گیا اور گرینائٹ نکالنے کیلئے پہاڑ کو ڈائنامائٹ سے توڑنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر پسماندہ علاقے کے رہائشیوں کی مانند یہاں کے مقامی لوگوں نے اس پر احتجاج شروع کر دیا۔ ٹھیکہ دینے والی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی تھی اور احتجاج کرنے والی مقامی قیادت‘ جس میں اس علاقے کے عوامی نمائندے بھی شامل تھے‘ بھی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ اس کان کنی سے مقامی ماحول خراب ہو جائے گا‘ حیات ِجنگلی کو نقصان پہنچے گا اور ان پہاڑوں میں بنے ہوئے مندر تباہ ہو جائیں گے۔ حالانکہ اس عمل کے بغیر بھی کئی مندر صفحۂ ہستی سے غائب ہو چکے ہیں اور ان پہاڑوں میں نہ تو کوئی قابلِ ذکر حیاتِ جنگلی ہے اور نہ ہی کوئی خاص نباتات اور جنگل جو کہ متاثر ہوتے مگر بقول ڈاکٹر عنایت یہ ہمارا قومی شعار ہے کہ صدیوں تک کوئی چیز بیکار پڑی رہے اور ہمیں ایک دھیلے کا فائدہ بھی نہ پہنچائے مگر جونہی کوئی ادارہ یا فرداس بیکار پڑے ہوئے معدنی خزانے کو ہلانے جلانے کی کوشش کرے گا مقامی لوگ کوئی نہ کوئی نکتہ نکال کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس معدنی دولت میں اس علاقے کے مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے علاوہ اس سے حاصل کردہ آمدنی سے اس علاقے کے ترقیاتی کاموں کا حصہ مقرر کر دیا جائے تو اس صورت حال میں قابلِ ذکر تبدیلی آ سکتی ہے۔ مقامی لوگوں کے احتجاج اور شور مچانے پریہ کام بند کردیا گیا ہے۔ اگر روایتی ڈائنامائٹ سے پتھر توڑنے کے بجائے اسے جدید طریقے سے لیزر کٹنگ کے ذریعے نکالا جائے تو نہ صرف گرینائٹ کا ضیاع کم ہو جائے گا بلکہ بہت سے اعتراضات اور مسائل بھی ختم ہو جائیں گے۔ گرینائٹ نکال لیا جائے تو یہ قیمتی پتھر ہے وگرنہ عام پتھر اور اس میں کوئی فرق نہیں۔ سو اب یہ قیمتی پتھر مٹی کے بھاو ٔ زمین پر پڑا ہوا ہے۔
گھٹنوں میں درد کے باوجود میں ان پہاڑیوں پر چڑھ گیا اور جہاں تک ہمت نے ساتھ دیا چڑھتا رہا تاوقتیکہ مجھے اندازہ ہوا کہ اگر مزید اوپر گیا تو واپسی کا سفر کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ واپسی پر راستے میں عجائب گھر میں رک گئے۔ چند بیکار سے پلاسٹر آف پیرس کے مجسموں کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ چوکیدار سے دریافت کیا کہ روپلو کولہی کا گھوڑے پر سواری کرتا ہوا مجسمہ کہاں ہے؟ اس نے بتایا کہ واپس جاتے ہوئے ننگرپارکر شہر کی طرف پہلی دکان کے سامنے والے احاطے میں یہ مجسمہ موجود ہے۔ روپلو کولہی صرف سینیٹر کرشنا کولہی کا دادا ہی نہیں بلکہ اس علاقے میں انگریز قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت بھی ہے۔ روپلو شامتوجی کولہی کو بائیس اگست 1858ء کو انگریزوں کے خلاف بغاوت اور مزاحمتی تحریک چلانے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔ اس علاقے میں مزاحمت کے آخری کردار کی یادگار پر ”امر شہید‘‘کا بورڈ لگا ہوا ہے۔
بازار میں درجنوں پرانی جیپیں کھڑی ہوئی تھیں جو سیاحت کیلئے ادھر آنے والوں کو مختلف سیاحتی مقامات تک لے جانے کیلئے دستیاب تھیں۔ دو تین گیسٹ ہاؤس اور ہوٹل بھی تھے اور بازار میں حیدر آباد سے آئی ہوئی دو ایئرکنڈیشنڈ بسیں بھی کھڑی تھیں۔ روپلو کولہی ریزورٹ کے منیجر دلیپ کمار نے بتایا کہ ادھر زیادہ سیاحت جولائی اور اگست کے مہینے میں ہوتی ہے جب بارشوں کے بعد سارا ریگستان سبزے کا قالین بن جاتا ہے۔ میں نے سندھ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے اس ریزورٹ کا نمبر لے لیااور ارادہ کیا کہ اگلے سال زندگی رہی تو اس ریگستان کی بہار دیکھنے کیلئے چکر لگاؤں گا۔ پانی کی کمی کا شکار تھر اب بھی شاید دنیا کا سب سے سر سبز ریگستان ہے خدا جانے جب یہاں برسات کے بعد سبزہ اپنی اصل بہار دکھاتا ہوگا تو اس ریگستان کا کیا عالم ہوگا؟
واپسی پر ہم ماروی کے کنویں پر رک گئے۔ عمر ماروی اور مومل رانو سندھ کی دو مشہور عشقیہ لوک داستانیں ہیں اور دونوں کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ ماروی تھرپارکر کے گاؤں ملیر کی رہائشی تھی اور اپنے ایک رشتہ دار کھیت سے منسوب تھی۔ اسی گاؤں کے رہائشی اس کے ایک عاشق نے ماروی کے حسن کا قصہ اس علاقے کے حکمران عمر سومرا کو سنایا۔ عمر سومرا ماروی کے گاؤں پہنچا تو وہ کنویں سے پانی بھررہی تھی۔ اس کے حسن کو دیکھ کر سومرا حکمران مبہوت رہ گیا اور اسے مال و دولت کی پیشکش کی مگر انکار پر اسے اٹھا کر عمر کوٹ لے گیا؛ تاہم ماروی نے سارے ظلم و ستم برداشت کرنے کے باوجود شادی کی ہامی نہ بھری تو بالآخر ایک سال تک قلعے میں قید رکھنے کے بعد مجبوراً اسے رہا کر دیا۔ ماروی گھر واپس آئی مگر اسے پریشانی تھی کہ وہ کھیت پر اپنی پاکدامنی کیسے ثابت کرے گی۔ شادی والی رات وہ کھیت کے حجلۂ عروسی میں آنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ ماروی سندھ کی تاریخ کی سب سے بہادر خاتون قرار دی جاتی ہے۔ یہ قصہ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ”شاہ جورسالو‘‘ میں بیان کیا ہے۔
رات ہم نے عمر کوٹ (امر کوٹ) میں گزاری۔ یہ شہر 1947ء سے پہلے امر کوٹ تھا جو اس کو آباد کرنے والے رانا امر سنگھ سوڈھا کے نام پر تھا۔ اس نام پر بڑا اختلاف ہے۔ بہت سے مورخ اسے رانا امر سنگھ سوڈھا کے نام پر امر کوٹ کہتے ہیں تاہم مورخین کا ایک گروہ اسے عمر سومرا کے نام سے منسوب کر کے عمر کوٹ کہتا ہے۔ مجھے اس تاریخی جھگڑے سے کچھ لینا دینا نہیں؛ تاہم پہلے یہ امر کوٹ ہی کہلاتا تھا پھر ہم نے ہر چیز کو مسلمان کرنے کی ٹھانی اور اس مہم کی زد میں آ کر امر کوٹ‘ عمر کوٹ ہو گیا اور سلام کوٹ‘ اسلام کوٹ ہوگیا۔ مٹھی اس لئے بچ گیا کہ اس کے قریب ترین اسلامی نام میسر نہیں تھا؛ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ تاریخی نام نہ ہندو ہوتے ہیں اور نہ مسلمان۔ یہ صرف اس علاقے کی تاریخ اور زمین سے جڑے ہوئے حقائق ہوتے ہیں اور انہیں قائم رہنا چاہئے۔ میں لائل پور کو فیصل آباد‘ منٹگمری کو ساہیوال‘ فورٹ سنڈیمن کو ژوب اور کیمبل پور کو اٹک کرنے سے بھی متفق نہیں ہوں۔ یہ تنگ نظری تنگ دل والے نریندر مودی کو تو شاید سجتی ہو مگر وسیع القلب اور کشادہ دل والے مسلمانوں کو نہیں سجتی۔ (جاری)