بے سمت سفر … (2)

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد تیس سال سے کم عمر ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ سولہ سال سے کم عمر کے اڑھائی کروڑ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ یعنی اگلے دس سے بیس سال کے اندر یہ اڑھائی کروڑ غیر تعلیم یافتہ اور غیر ہنر مند بچے اڑھائی کروڑ خاندان ہوں گے۔ تعلیم اور کسی مناسب روزگار سے محروم یہ اڑھائی کروڑ خاندان اس ملک کی معیشت پر کتنا بڑا بوجھ ہوں گے‘ اس کا صرف تصور کروں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ہماری ترجیحات ہی دوسری ہیں۔ جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ یہی رونا روتا دکھائی دیتا ہے کہ اسے ملکی معیشت تباہ حال اور خزانہ خالی ملا ہے‘ اب بھلا وہ گزشتہ حکومتوں کی عشروں پر مبنی خرابیوں کو اپنے مختصر سے دور اقتدار میں کیسے درست کرے؟
کیا تعلیمی نصاب اور درسیات کو مستقبل کی ضروریات کے مطابق تیار کرنا کوئی ناممکن کام ہے؟ ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانا بھلا کون سا جوئے شیر لانا ہے؟ دنیا میں رائج الوقت رحجانات کا اندازہ لگانا بھلا کون سا مشکل کام ہے؟ فیوچر فور کاسٹنگ کون سی راکٹ سائنس ہے؟ تعلیمی نظام کو درست سمت کی طرف موڑنا بھلا کون سا ایسا کام ہے جس کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے اور اڑھائی کروڑ آؤٹ آف سکولز بچوں کے مستقبل کی منصوبہ سازی کے لیے کون سی عدالت سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کی محتاجی آن پڑی ہے اور متروک نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے لیے کون سی مقتدرہ کی اشیرباد یا مرضی کے لوگوں کی تقرری کی مجبوری حائل ہے؟
دراصل ہمارے حکمرانوں کے پاس وہ وژن ہی نہیں جو قوموں کے مستقبل کو روشن کرتا ہے اور ہمارے قانون سازوں کی ترجیحات میں قوم کی ترقی نہیں بلکہ ترقیاتی فنڈز کا حصول شامل ہے۔ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے لیکن سارے ارکانِ پارلیمنٹ سڑک سازی‘ گلی سازی‘ کھمبا سازی اور گٹر سازی میں مصروف ہیں۔ آپ خود سوچیں‘ جن کے بچے امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں‘ بینک اکاؤنٹس سوئٹزر لینڈ میں اور جائیدادیں لندن میں ہوں ان کو تعلیم سے محروم رہ جانے والے اڑھائی کروڑ بچوں اور ان کے مستقبل کے حوالے سے ملک کی فکر کیوں ہو گی؟
دنیا کدھر جا رہی ہے؟ مجھ جیسا 1985ء میں ایم بی اے کرنے والا شخص جو اپنے زمانے میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگی کے حوالے سے سب سے Latest ڈگری کا حامل تھا‘ سینتیس سال بعد عملی طور پر اپنے مضمون سے کٹ جانے کے بعد آج کی نئی کاروباری دنیا پر نظر دوڑاتا ہے تو خود کو جاہلِ مطلق تصور کرتا ہے۔ دنیا میں کاروبار کا سارا تصور ہی تبدیل ہو چکا ہے اور سیلز و مارکیٹنگ سے لے کر سپلائی چین مینجمنٹ تک سب کچھ اتنا حیرت ناک ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ میں نے جس قسم کے بزنس کی تعلیم حاصل کی تھی وہ کم از کم یہ تو ہرگز نہیں تھی۔ جدید کاروباری تقاضوں اور تصورات کے بارے میں کچھ پڑھے تو ایک عرصہ ہو گیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں اب بھی ان جدید تصورات کے بارے میں سوچنے اور اس سلسلے میں منصوبہ بندی کرنے کے معاملے میں اس مقام سے بہت پیچھے ہیں جہاں دنیا اس وقت پہنچ چکی ہے۔ ابھی میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہا جہاں دنیا جلد ہی پہنچنے والی ہے۔ ممکن ہے موجودہ حالات کے مطابق ایک آدھ یونیورسٹی کو کوئی حقیقی ادراک ہو وگرنہ باقی ہر طرف تو برا حال ہے۔
میں امریکہ میں ایک روز اپنے دوست علی افضل کے ساتھ ایک بہت بڑے سٹور میں گیا۔ علی افضل گھر کے لیے گروسری کر رہا تھا۔ وہ اپنے فون میں موجود لسٹ کے مطابق شیلفوں سے سامان اٹھاتا گیا اور اسے ٹرالی میں ڈالتا گیا۔ امریکہ میں بڑے بڑے سٹوروں میں جیسے وال مارٹ‘ کاسٹکو‘ ٹارگٹ‘ کروگر‘ کوہلز‘ میسیز یا دیگر سٹورز میں خریداری کے بعد ادائیگی کے دوطریقے رائج ہیں‘ ایک یہ کہ ادائیگی والے کاؤنٹرز پر جائیں‘ وہاں موجود فرد آپ کا سامان سکین کرے گا اور آپ سے اس کی رقم بصورت کیش یا بذریعہ بینک کارڈ وصول کر لے گا۔ دوسرا طریقہ یہ کہ آپ سیلف ادائیگی والے کاؤنٹرز پر جائیں‘ اپنا سامان خود سکین کریں اور کارڈ یا کیش کے ذریعے مشین کو ادائیگی کریں اور سامان لے کر گھر آ جائیں۔
علی افضل نے خریداری کی اور باہر نکلتے وقت نہ تو ادائیگی کے مینوئل کاؤنٹر کا رخ کیا اور نہ ہی سیلف ادائیگی والے کاؤنٹر پر گیا۔ اور بھلا جاتا بھی کیسے؟ اس سٹور میں ایسا کوئی انتظام تھا ہی نہیں۔ اس نے گیٹ پر لگی ہوئی ایک چھوٹی سی ڈیوائس پر اپنا فون رکھا۔ ٹوں کی آواز آئی اور علی افضل باہر آ گیا۔ میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں جو سامان اٹھا کر ٹرالی میں ڈالتا گیا ہوں وہ اوپر لگے ہوئے کیمرے سکین کرکے میرے فون میں موجود اس سٹور کی ایپ میں موجود میرے اکاؤنٹ میں ڈالتے گئے ہیں۔ جونہی فون کو سکینر سے لگایا تو یہ سارا سامان میرے کھاتے میں چلا گیا ہے اور میرے کھاتے سے منسلک کارڈ نے اس کی فوری ادائیگی کر دی ہے۔ نہ کوئی سیلز مین ہے اور نہ ہی چوری چکاری کا ڈر ہے کہ آپ جو چیز بھی شیلف سے اٹھا رہے ہیں وہ سکین ہو رہی ہے۔ اگر آپ کے فون میں موجود خرید کی گئی اشیا کی لسٹ سکینر والی لسٹ سے مطابقت نہیں رکھتی تو آپ اس گیٹ سے آگے نہیں گزر سکتے۔ اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو الارم بجے گا اور سکیورٹی والے آپ کو روک لیں گے۔
اب جو یہ پروگرامز بن رہے ہیں‘ نئے نئے سافٹ ویئر تیار ہو رہے ہیں اور ان کو آپ کے فون سے منسلک کرنے کی غرض سے جو Apps بن رہی ہیں وہی کاروبار اور صنعت کا مستقبل ہیں۔ اگر ہم اس کے لیے اپنے طالب علم کو تیار کر رہے ہیں تو اس کی آئندہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ بھی ہو گی اور کھپت بھی‘ وگرنہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ویسے ہی بے نیل و مرام گھر واپس آئیں گے جس طرح کھوٹا پیسہ واپس آتا ہے۔ قارئین! معاف کیجئے میں کھوٹے پیسے والا محاورہ استعمال کر بیٹھا ہوں جو اس ملک میں از خود متروک ہو چکا ہے لیکن صورتحال صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں آگے جا رہی ہے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ میری سینتیس سال قبل حاصل کی گئی ساری اعلیٰ تعلیم تقریباً تقریباً حرفِ بے معنی بن کر رہ گئی ہے۔ اب کاروباری دنیا جس نہج تک پہنچ چکی ہے وہاں تک میرے متروک علم کی رسائی تو نہیں ہے؛ البتہ دنیا دیکھنے کے طفیل کم از کم ان ساری تبدیلیوں سے کسی نہ کسی حد تک آگاہ ضرور ہو رہا ہوں۔ اب مجھے یہ تو علم نہیں کہ Metaverse کیا ہے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ مستقبل کا کاروبار اس کے بغیر چلنے کا نہیں۔
یورپ اور امریکہ میں ایسے کاروبار عام ہو رہے ہیں جن کا کوئی فزیکل دفتر ہی نہیں ہے۔ تمام تر کاروباری معاملات فون پر موجود اس کمپنی کی ایپ یا لیپ ٹاپ پر اس کی ویب سائٹ کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ ایمیزون نے آن لائن بزنس کی جو معراج حاصل کی ہے بے شمار کمپنیاں اب اس کی تقلید کر رہی ہیں۔ خرید و فروخت‘ واپسی‘ تبدیلی اور ریفنڈ سب کچھ آن لائن ہے۔ ایک بار دنیا نائن الیون کے بعد تبدیل ہوئی تھی اور اب دوسری بار کورونا کی وبا کے دوران تبدیل ہوئی ہے اور اس تبدیلی کی جانب شروع ہونے والا سفر بڑی تیزی سے جاری ہے جو اس تیز رفتاری میں اس تبدیلی کا ساتھ نہ دے سکا وہ فارغ ہو جائے گا اور مجھے نہایت ملال سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس متوقع فراغت کی جانب گامزن ہیں۔ (ختم)