ڈانواں ڈول یقین

یہ قارئین کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اسے میری حماقت‘ پاگل پن‘ بے وقوفی‘ خوش فہمی یا نادانی‘ جو بھی ان کے جی میں آئے سمجھ لیں کہ میرے جیسے خوش گمان لوگ ہر بات کا روشن پہلو دیکھ کر اپنے تئیں نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔ اوپر سے خوش فہمیوں کے نتائج ایسے نکلتے ہیں کہ ظفر کلیم کا شعر یاد آ جاتا ہے ؎
وائے خوش فہمی کہ پروازِ یقیں سے بھی گئے
آسماں چھونے کی خواہش میں زمیں سے بھی گئے
اس ملک میں آئین‘ قانون‘ روایات اور اخلاقیات سے ہونے والے مسلسل کھلواڑ کے باوجود اللہ جانے میرے من میں کیا سماتی ہے کہ میں ہر بار اس بات کی امید لگا لیتا ہوں کہ اس بار تو آئین کی سربلندی ہمارا نصیب ٹھہرے گی۔ اس بار تو قانون اپنا سکہ جما کر رہے گا یا ہماری روایات اور اخلاقیات اپنے آپ کو منوا کر رہیں گی۔ عین اس بار بھی میرا یقین تھا کہ توڑی جانے والی دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بہرحال آئین میں درج نوے دن کی مدت کے اندر اندر ہو جائیں گے۔ تقریباً تمام دوستوں کا خیال تھا کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا لیکن میرے اس سوال کا بھی کسی کے پاس جواب نہیں تھا کہ آخر آئین میں لکھے گئے واضح طریقہ کار سے آخر کوئی کس طرح چور راستہ نکال سکتا ہے؟ قطعی طور پر طے شدہ نوے دن کی مدت سے کس طرح صرفِ نظر کرتے ہوئے اس مدت کو بڑھایا جا سکتا ہے؟ میرے کسی دوست کے پاس میرے اس سوال کا کوئی شافی یا مسکت جواب تو نہیں تھا جو کسی آئینی یا قانونی توجیہ پر منحصر ہو‘ تاہم وہ بیک زبان کہتے تھے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ نوے دن میں حل ہونے والا نہیں ہے اور آئینی جادوگر اس باریک چھلنی میں کسی نہ کسی طرح مرضی کا بڑا سوراخ تلاش کر لیں گے اور اگر تلاش نہ کر سکے تو اپنی حسبِ منشا یہ سوراخ کر لیں گے لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر صاحبانِ اقتدار نے اس آئینی ابہام کی تشریح خود نہ کی تو پھر یہ کام عدالت کرے گی اور ظاہر ہے اتنے واضح آئینی حکم کی خلاف ورزی کسی طور ممکن نہیں۔ عدالت صرف اس کا طریقہ کار طے کرے گی؛ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ عدالت کی تشریح پر اس کی روح کے مطابق یعنی Letter and spiritعمل کیا جاتا ہے یا نہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد اور نام نہاد غیر جانبدار نگران حکومتیں کسی طور بھی الیکشن کروانے کیلئے تیار نہیں ہوں گی۔ نگران حکومتوں کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ یہ حکومتیں آئین میں درج آرٹیکل (2) 224 کے مطابق نوے دن کے اندر اندر الیکشن کرانے کے لیے آتی ہیں۔ یہ نگران حکومتیں آئین کے آرٹیکل (1A) 224 کے تحت بنائی جاتی ہیں اور ان کا کام صرف اور صرف غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن کروا کر گھر واپس جانا ہوتا ہے۔ یہ کام انہیں نوے دن‘ یعنی تین ماہ میں کرانا ہوتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ آئینی چھتری کے نیچے بننے والی ان نگران حکومتوں کا حصہ بننے والے لوگ اپنی عارضی حکومتی مدت کو کسی نہ کسی طریقے سے لمبا کرنے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور کچھ رات کو سوتے وقت دعا ئیں کرتے ہیں کہ یہ نوے دن بھی کسی طرح جنرل ضیاء الحق والے نوے دن بن جائیں اور وہ موج میلہ کرتے رہیں۔
1996ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے پر الیکشن کروانے کیلئے جو نگران حکومت بنی اس میں ملک معراج خالد نگران وزیراعظم تھے۔ ان کی کابینہ میں ایک نگران وزیر نے جب اپنا قلمدان سنبھالا تو انہیں بخوبی علم تھا کہ ان کی مدتِ وزارت زیادہ سے زیادہ نوے دن ہوگی۔ انہیں اسلام آباد کے منسٹرز انکلیو میں رہنے کو گھر ملا تو انہوں نے اس گھر میں رہنے کے بجائے اسلام آباد کے ا یک پوش رہائشی علاقے میں گھر لے کر دینے کو کہا۔ خیر انہیں یہ مکان مل گیا۔ اب اس گھر میں وہ تین ماہ کیلئے آئے تھے مگر دل کے اندر جو وزارت کے مزے لینے کی خواہش اور اس مدت کو لمبا کرنے کی آرزو تھی اس کے زیرِ اثر انہوں نے ا س تین ماہ والے عارضی گھر میں اپنے شادی شدہ اور برسر روز گار بیٹے کو جو اسلام آباد میں ہی کرائے کے گھر میں رہتا تھا‘ اس کے اہلِ خانہ سمیت اپنے اس گھر میں رہنے کیلئے بلا لیا۔ اب ظاہر ہے اسلام آباد میں کرائے کا گھر چھوڑنا اور تین ماہ کے اندر اندر دوبارہ گھر تلاش کرنا اور دو بار سامان شفٹ کرنا کوئی آسان کام تو نہ تھا مگر اس انسانی نفسیات کا کیا کیا جائے جو اقتدار کو دوام دینے کیلئے دعا سے دوا تک ہر حربہ استعمال کرنا جائز سمجھتا ہے۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ میں کہہ رہا تھا کہ مجھے نجانے کیوں یقین تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بہر صورت نوے دن کے اندر اندر ہو جائیں گے اور معاملہ عدالت سے ہوتا ہوا نوے روز میں الیکشن کرانے کے حکم پر طے بھی ہو گیا ہے لیکن راجن پور کے قومی حلقہ این اے 193 کے نتائج دیکھنے کے بعد سے میرا یہ یقین اس فیصلے پر عملدرآمد کے سلسلے میں ڈانواں ڈول ہو گیا ہے۔ اس الیکشن کے نتیجے نے تیرہ جماعتی حکومتی اتحاداور سہولت کاروں کو جو پیغام دیا ہے اس کے پیشِ نظر درج بالا سب فریقوں کی امیدوں پر بری طرح اوس پڑی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی صورتحال یہ واضح کر رہی ہے کہ معاملات اس کے الٹی سمت جا رہے ہیں جو سوچ کر اس ملک کی سیاسی بساط پہلے لپیٹی اور پھرنئے سرے سے بچھائی گئی تھی۔
صبح رانا ثنا اللہ کا دعویٰ نظر سے گزرا کہ ایک سروے کے مطابق مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سب سے مقبول جماعت ہے اور اسی شام کو ان کے اس دعوے کا دھرن تختہ ہو گیا اورتحریک انصاف کے امیدوار محسن لغاری نے مسلم لیگ( ن) جنوبی پنجاب کے ہیوی ویٹ رہنما اور الیکٹ ایبل اویس خان لغاری کے بیٹے عمار لغاری کو 35174 ووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست فاش دی۔میں نے شاہ جی سے رانا ثنا اللہ والے سروے کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے: ایسے سروے دراصل Sample کی بنیاد پر اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس سروے میں جو سیمپل لیا تھا وہ ایک خاتون‘ ایک داڑھی والے‘ ایک مونچھوں والے اور ایک کلین شیو والے مرد کو بنیاد بنا کر کیا گیا تھا‘ اب یہ محض اتفاق ہے کہ اس سیمپل میں جس خاتون سے سوال پوچھا وہ مریم اورنگزیب‘ داڑھی والا مرد عطا تارڑ‘ مونچھوں والا خود رانا ثنا اللہ ا ور کلین شیو مرد طلال چودھری تھا۔
یاد رہے کہ 2018 ء میں اویس خان لغاری نے قومی اسمبلی کی اپنی آبائی نشست این اے 192 سے‘ جس میں ان کا چوٹی زیریں والا گھر بھی شامل ہے ‘اپنی جیب میں پڑی ہوئی قومی اسمبلی کی سیٹ تصور کرتے ہوئے اپنے نمبر ٹانکنے کی غرض سے میاں شہباز شریف کو اس نشست سے الیکشن لڑوایا۔ اس نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار محمد خان لغاری نے تمن داروں کے امیدوار میاں شہباز شریف کو تیرہ ہزار ووٹ سے شکست دی۔ اس بار بھی اویس لغاری اینڈ کمپنی کے تکبر اور جیت کے زعم کا یہ عالم تھا کہ این اے 193 پر انہوں نے پی ڈی ایم کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑا جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار اختر خان گورچانی نے تیر کے نشان پر لڑتے ہوئے بیس ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اسی محسن لغاری نے 2018ء میں آزاد امیدوار کے طورپر چار ہزار ووٹ لئے تھے۔ اور اب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نوے ہزار سے زائد ووٹ لیے ہیں۔ این اے 193 کے نتیجے نے نوے دن کے اندر الیکشن والے میرے یقین کو ڈانواں ڈول کر رکھا ہے۔ آگے اللہ بہتر جانتا ہے۔