قرض اتارنے کا آسان طریقہ

شیرا کوٹ لاہور میں واقع ایک بس سٹینڈ پر اُتر کر ایپ سے ٹیکسی بک کروا کے ٹیکسی ڈرائیور کو فون کیا تو جواباً ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ وہ مجھ سے محض تین سو میٹر کی دوری پر ہے اور دو چار منٹ میں پہنچ جائے گا۔ انتظار دو چار منٹ کے بجائے جب دس منٹ کا ہو گیا تو دوبارہ فون کیا۔ ڈرائیور نے جواب دیا کہ وہ مجھ سے محض پچاس میٹر دور ہے مگر رش اتنا ہے کہ وہ پچھلے پانچ منٹ سے ایک ہی جگہ پر رُکا ہوا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ اسے مجھ تک پہنچنے کے لیے اڈے کے سامنے سے گزر کر تھوڑا آگے سے یوٹرن لینا پڑے گا اور وہاں بھی ٹریفک بُری طرح پھنسی پڑی ہے۔ اگر میں تھوڑی تکلیف کرکے پیدل سڑک پارکرکے آ جاؤں تو آپ کا وقت بچ جائے گا۔ میں نے اس کی بات کو نہایت مناسب جانا اور اپنا بیگ کھینچتے ہوئے سڑک کی دوسری طرف چلا گیا۔
ایک دو منٹ کے بعد وہ پہنچ گیا اور میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اب ایک اور مرحلہ درپیش تھا اور وہ یہ کہ آگے ٹریفک بالکل ہی رُکی ہوئی تھی۔ چنگ چی والے لوہے کی باڈی پر مشتمل اپنی خلائی گاڑیاں الٹے سیدھے طریقے سے نہ صرف پھنسائے کھڑے تھے بلکہ جدھر ذرا سی بھی جگہ دکھائی دے رہی تھی وہاں بلا خوف و خطر گھسائے جا رہے تھے۔ ہر گاڑی والا ان کی دلیری سے گھبرایا دکھائی دے رہا تھا کہ سب کو معلوم تھا کہ خواہ وہ چنگ چی میں لگ جائیں یا چنگ چی ان کو سائڈ مار دے‘ نقصان ہر صورت صرف انہی کا ہو گا اور چنگ چی کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ بھلا اس کا بگڑ بھی کیا سکتا ہے؟
موٹر سائیکلوں والے ٹریفک کے ہر قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ون وے سڑک پر مخالف سمت سے اس شان و شوکت اور اعتماد کے ساتھ آ رہے تھے کہ کئی بار غور کرنا پڑا کہ کیا ہم درست سمت میں ہی جا رہے ہیں؟ اسی ٹریفک سے تنگ آکر میں نے لاہور اپنی گاڑی پر جانا بند کر دیا ہے کہ بندہ ایک ایک اشارے پر کئی کئی منٹ پھنسا رہتا ہے اور ہمہ وقت یہ خوف رہتا ہے کہ موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والے کو مات دینے والا کوئی نوجوان موٹر سائیکل سوار خدا جانے کب کدھر سے آ جائے اور گاڑی کو ٹھوک دے۔ ایسے میں لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور دو طرح کی گفتگو سننے کو ملتی ہے‘ پہلی تو یہ کہ گاڑی والے تو انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور موٹر سائیکل والوں کو تو بالکل ہی کیڑے مکوڑے سمجھ لیتے ہیں۔ تھوڑے سمجھدار لوگ فوراً انسانیت کے ٹھیکیدار بن جائیں گے اور بڑے آرام سے پچکارتے ہوئے فرمائیں گے کہ چلیں جانے دیں‘ خیر ہے۔ تھوڑا سا ڈنٹ پڑا ہے‘ دو چار سو روپے سے ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ نے آپ کو بہت دیا ہے‘ شکر کریں کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ قوم کی ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ موٹر سائیکل والے کی ٹکر سائیکل والے سے ہو جائے تو سائیکل والا نہ صرف مکمل بے گناہ اور مظلوم ہے بلکہ موٹر سائیکل والا باقاعدہ ظالم اور قصور وار ہے۔ یہی فارمولا موٹرسائیکل اور گاڑی والے کے ٹکرانے پر اپلائی کیا جاتا ہے اور ایسے معاملات میں جو بندہ بھی مالی طور پر نسبتاً بہتر درجے پر فائز ہے وہ نہ صرف یہ کہ بلا تحقیق قصور وار ہے بلکہ ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا مجرم ہے جسے قرارِ واقعی سزا ملنی چاہئے۔
اڈے سے چوک یتیم خانہ تک ایک کلو میٹر کے لگ بھگ فاصلہ آدھے گھنٹے میں طے ہوا۔ اس دوران میرے منتظر دوست کا دوبار فون آیا اور اس نے پوچھا کہ میں کہاں پہنچا ہوں تو اسے بتایا کہ ابھی وہیں ہوں جہاں سے چلا ہوں۔ اس نے وجہ پوچھی تو میں نے جل کر کہا کہ دراصل میرا ادھر سے نکلنے کو دل نہیں کر رہا۔ بندۂ خدا! راستہ ملے تو یہاں سے کہیں نکلوں۔ ایک تو ہمیں ٹریفک کا سلیقہ نہیں اور اوپرسے مخلوقِ خدا اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ جہاں جائیں لگتا ہے کہ شاید اس علاقے کی ساری آبادی گھر چھوڑ کر سڑک پر آ گئی ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ آبادی ہی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ الامان۔ میرا دوست زور سے ہنسا اور کہنے لگا: تم آبادی کے اضافے کی فکر نہ کرو۔ اس اضافے سے جہاں تھوڑے بہت مسائل پیدا ہوئے ہیں وہیں بہت بڑا فائدہ بھی ہوا ہے۔ میں اس کی بات سن کر بڑا حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ آخر اس آبادی میں اضافے سے ایسا کون سا فائدہ ہوا جس کی طرف وہ اشارہ کر رہا ہے۔ وہ دوست کہنے لگا: ہر چیز کے دو رُخ ہوتے ہیں‘ہم بحیثیت قوم دراصل ہمیشہ ہر چیز کا منفی رُخ اور تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آتی مگر صرف تھوڑا سا نقطۂ نظر یا ہمارا جائزہ لینے کا پیمانہ بدل جائے تو نتائج بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ ذیابیطس کے معاملے میں ہوا تھا۔ جب نارمل شوگر کا پیمانہ 160تھا۔ تب پوری دنیا میں دس کروڑ لوگوں کو شوگر تھی۔ چند سال بعد ڈاکٹروں نے سوچا یہ تو کوئی مناسب بات نہ ہوئی۔ اتنی بڑی دنیا میں صرف دس کروڑ لوگوں کو شوگر ہے۔ اب اتنے کم مریضوں سے تو کام نہیں چلے گا‘ لہٰذا شوگر کے ڈاکٹروں کی تنظیم نے نارمل شوگر کا پیمانہ 160سے کم کرکے 140کر دیا۔ اس فیصلے کی اگلی صبح جب دنیا میں شوگر کے مریضوں کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا تو پتا چلا کہ رات ہی رات میں یہ تعداد دس کروڑ سے بڑھ کر بتیس کروڑ ہو گئی۔ چند سال بعد شوگر کے معالجوں کی تنظیم کے دل میں پھر کھد بد ہوئی اور انہوں نے نہایت غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ احتیاطاً علاج کرنا بیمار ہو کر علاج کرنے سے بدرجہا بہتر ہے ‘لہٰذا انہوں نے نارمل شوگر لیول140 سے کم کرکے 120کر دیا۔ اس نادر فیصلے کے بعد اگلی صبح اٹھنے پر دنیا بھر کے مزید تیس کروڑ لوگوں کو معلوم ہوا کہ رات تو وہ اچھے بھلے تھے مگر اب وہ شوگر کے مریض ہیں۔ یعنی دنیا میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں بھی بیٹھے بیٹھے ویسے ہی اضافہ ہوتا چلا گیا جس طرح پاکستان میں پڑے پڑے پلاٹوں کی قیمت دوگنی چوگنی ہوتی جاتی ہے۔ ظہیر احمد ظہیر کا ایک شعر ہے کہ
یہ رائیگانی بھی کیا خوب ہے زمیں کی طرح
پڑے پڑے ہی میرے دام بڑھتے جاتے ہیں
تاہم آبادی کے اضافے سے پاکستان کی معیشت میں ایک بہت ہی مثبت تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ کہ جب ہماری آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اٹھارہ کروڑ تھی تو ایک حساب کے مطابق ہر پاکستانی ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا مقروض تھا۔ تاہم برائے مہربانی اب تم کیلکو لیٹر اٹھا کر حساب نہ شروع کر دینا۔ میں تمہیں صرف سمجھانا چاہتا ہوں نہ کہ تم اس میں مین میخ نکالنا شروع کر دو۔ ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ جب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہماری آبادی اٹھارہ کروڑ تھی تب ملک کے ہر فرد پر یعنی فی کس قرضہ ایک لاکھ پچیس ہزار روپے تھا۔ اب نئی مردم شمار کے مطابق آبادی چوبیس کروڑ ہو گئی ہے تو بیٹھے بیٹھے ہمارا فی کس قرضہ کم ہو گیا ہے۔ اب ملک کی فی کس آبادی پر واجب الادا قرض کی رقم ایک لاکھ پچیس ہزار روپے سے کم ہو کر ترانوے ہزار سات سو پچاس روپے ہو گئی ہے۔ یعنی نہ ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا چڑھ گیا اور آبادی کے بڑھنے سے فی کس قرضہ تقریباً اکتیس ہزار کم ہو گیا ہے۔ اگر اس حساب سے ہم آبادی میں اضافہ کرتے رہے اور اسے بڑھا کر دو ارب کر دیا تو فی کس قرضہ گیارہ ہزار دو سو پچاس روپے رہ جائے گا اور ہم ہر بندے سے اتنے پیسے لے کر قرضہ خواہوں کے منہ پر ماریں گے۔ لہٰذا ہمت کریں اور ملک کی آبادی میں زیادہ سے زیادہ اور جلد از جلد اضافہ کریں۔ اب آپ کو قرض کی لعنت سے جان چھڑوانے کیلئے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ یہ اسحاق ڈار‘ حفیظ شیخ یا شوکت ترین وغیرہ کے بس کی بات نہیں۔ آپ ہمت کریں اللہ برکت ڈالنے والا ہے۔