سدا بہار یادیں

مجھے امجد صاحب کی رحلت کی خبر شوکت علی انجم نے دی۔ جونہی اس نے مجھے یہ افسوسناک خبر سنائی‘ یادوں کا ایک دریچہ کھل گیا۔ گزشتہ پینتا لیس سال ایک فلم کی صورت دماغ کے پر دے پر چلنے لگے۔ یہ خبر سنتے ہی جس شخص کو پہلا تعزیتی فون کرنے کا سوچا وہ ہمدم دیرینہ محمد افضل شیخ تھا۔ افضل شیخ ہم سے بھی کہیں زیادہ امجد اسلام امجدؔ کے قریب تھا۔ اتنا قریب کہ امجد اسلام امجدؔ نے اپنی تازہ ترین تصنیف ”قاصد کے آتے آتے‘‘ جو اُن کے مکاتیب پر مشتمل ہے‘کا انتساب برادرم افضل شیخ کے نام کرتے ہوئے لکھا ہے ”برادرِ عزیز شیخ محمد افضل کے نام جو محبت کرنا بھی جانتے ہیں اور نبھانا بھی‘‘۔ اور یہ بات سو فیصد سچ بھی ہے۔
لاہور تو میں جا ہی رہا تھا ایسے میں مجھے تعزیت کیلئے شیخ افضل کے علاوہ کوئی شخص نہ سوجھا۔ اکیس اور بائیس ستمبر 2022ء کی درمیانی شب جب میں امجد اسلام امجدؔ کے ساتھ برطانیہ روانہ ہو رہا تھا تو ایئر پورٹ پر انہیں رخصت کرنے کیلئے شیخ افضل بھی آیا ہوا تھا حالانکہ شیخ افضل میرا زمانۂ طالبعلمی کا دوست ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اس رات ”ہمیں‘‘ نہیں بلکہ صرف ”انہیں‘‘ یعنی امجد صاحب کو الوداع کہنے آیا تھا۔ اس رات ہم اتنا ہنسے کہ ہمارے جبڑے دکھ گئے۔
امجد صاحب کی رخصتی ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک عہد کی رخصتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ یادوں اور واقعات کا ایک باب تھا جوبند ہو گیا ہے۔ واقعہ سنانا تو امجد اسلام امجدؔ پر ختم تھا۔ یادداشت ایسی شاندار کہ رشک آتا تھا اور پھر اس واقعے کی تفصیل اور جزئیات‘ اوپر سے انداز ایسا دلچسپ کہ بندہ اس میں کھو کر رہ جائے۔ کراچی کے ایک شاعر کا قصہ سنایا کہ وہ بیمار ہوئے تو ہم ان کی طبیعت پوچھنے کیلئے ان کے گھر فون کرتے تھے تو ان کی اہلیہ ان کا حال بتاتیں کہ ابھی طبیعت نہیں سنبھلی یا ان کی صحت بحال نہیں ہوئی۔ ایک دن فون کیا تو کہنے لگیں کہ بھائی! اب اللہ کا شکر ہے آج ان کی طبیعت بہت بہتر ہے‘ آج صبح انہوں نے چائے پی‘ پان کھایا اور گالیاں بکیں‘ الحمدللہ اب وہ ٹھیک ہیں۔
ایک مشاعرے کا حال سنایا کہ ایک بزرگ شاعر مائیک پر آئے اور غزل سنانی شروع کی‘ پہلا شعر پڑھا جو خاصا پھسپھسا تھا۔ کوئی داد نہ ملی۔ دوسرا‘ تیسرا اور پھر چوتھا شعر بھی داد کے بغیر گزر گیا۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے غزل والے کاغذ کو لپیٹا اور مائیک پر کہنے لگے: سامعین! اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا میری غزل کے بقیہ اشعار بھی اسی قسم کے ہیں۔ اتنے واقعات کہ اگر وقت پر انہیں قلمبند کرتے تو کئی جلدوں پر مشتمل ایک دستاویز بن جاتی مگر قلم سے کاغذ پر وہ انداز کیسے منتقل ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت کرتے ہوئے امجد اسلام امجدؔ کو عطا کر رکھا تھا۔
یہ غالباً زکریا یونیورسٹی کے 1984ء کے مشاعرے کا واقعہ ہے۔ کیا زمانہ تھا کہ تب بڑے بڑے نامور شعرا عوامی انداز میں زندگی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس مشاعرے میں منیر نیازی‘ انور مسعود‘ شہزاد احمد‘ مظفر وارثی‘ امجد اسلام امجد‘ عطاالحق قاسمی‘ حسن رضوی‘ ڈاکٹر اجمل نیازی‘ جوگی جہلمی‘ عبیرابوذری‘ جانباز جتوئی اور دیگر کئی شعرا تشریف لائے ہوئے تھے۔ مہمان شعراکے ٹھہرنے کیلئے گلگشت کالونی میں کرائے کی کوٹھویوں میں قائم طلبہ کے ہاسٹلز میں بندوبست تھا۔ نسبتاً دو بہتر ہاسٹلوں میں مقیم طلبہ سے کمرے خالی کروا کر ان میں مہمان شعراکو رات ٹھہرایا گیا تھا۔ صبح ناشتے سے پہلے میں مہمانداری کیلئے ہاسٹل آ گیا‘ شعراکے اعزازیے کے لفافے میرے ہی پاس تھے۔ سستا زمانہ تھا‘ شاعروں کا اعزازیہ تین ہزار روپے تھا۔ کچھ شعرا نے وہ لفافے پکڑے اور بغیر گنے جیب میں رکھ لیے اور کئی ایک نے سامنے میز پر رکھ دیے۔ ایک شاعر نے بڑے مزے سے لفافہ کو ایک طرف سے پھاڑا‘ اس میں رکھی رقم گنی اور پھر کہنے لگے کہ یہ تو تین ہزار ہیں۔ میں نے گھبرا کر کہا کہ آپ کو میں نے خود بتایا تھا کہ اعزازیہ تین ہزار روپے ہو گا اور آپ نے اس پر ہامی بھری تھی۔ وہ کہنے لگے: ٹھیک ہے میں نے ہامی بھری تھی لیکن رات سامعین کی فرمائش میں میں نے جو دو غزلیں فالتو سنائی تھیں‘ ان کی آپ علیحدہ سے ادائیگی کریں۔ میرے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ ہم نے ایک ایک چیز کی تفصیل لکھ کر اور تمام درکار دفتری تقاضے پورے کرنے کے بعد دفتر خزانہ دار سے پوری پوری رقم لی تھی اور ان کے لفافے بنا کر شعراکو دیتے وقت ایک کاغذ پر اس رقم کی وصولی کے دستخط بھی لے لیے تھے۔ کم از کم میری جیب میں تو اس وقت پندرہ بیس روپے سے زیادہ رقم بھی نہیں تھی۔ پھر اس شاعر نے کہا کہ آپ مجھے ایک ہزار روپے مزید دیں میرے چہرے پر چھائی ہوئی پریشانی دیکھ کر حسن رضوی مرحوم نے کہا کہ تم فکر نہ کرو۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا لفافہ کھولا اور اس میں سے پیسے نکالے ہی تھے کہ امجد اسلام امجد اور عطاالحق قاسمی نے اپنے اپنے لفافے میں سے پیسے نکالے اور ایک ہزار روپے پورے کر کے اس شاعرکو پکڑا دیے جو اُس نے جیب میں ڈال لیے۔ میں نے بڑی خجالت اور شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آج تو اتوار ہے‘ میں کل یونیورسٹی کھلنے پر دفتر خزانہ دار سے ایک ہزار روپے لے کر آپ کو بھجوا دوں گا۔ امجد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ تم اس کیلئے فکر نہ کرو۔ یہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں جس کیلئے تمہیں فکر ہو رہی ہے۔ مجھے اس روز دو طرح کے شاعروں کے مختلف رویوں کا تجربہ ہوا اور میں نے اس سے ایک ایسا سبق سیکھا جس نے بعد میں میری زندگی پر بڑا مثبت اثر ڈالا۔ امجد صاحب ان لوگوں میں سے تھے جن کی گفتگو‘ رویے اور طرزِعمل سے اس عاجز نے بہت کچھ سیکھا۔
ستمبر 2022ء کو میں اور امجد صاحب لندن میں الفرڈ میں ٹھہرے ہوئے تھے؛ تاہم ہمارا زیادہ وقت امجد صاحب سے شدید محبت کرنے والے ان کے فین ساجد کی یرغمالی میں گزرتا تھا۔ یہاں ان کا ایک اور چاہنے والا راشد اور ڈاکٹر نیلم آ جاتی تھیں۔ امجد صاحب باتوں کا ایسا دفتر کھولتے کہ دن گزرنے کا پتا ہی نہ چلتا۔ میں نے ان کے ساتھ جو سب سے شاندار سفر کیا وہ امریکہ کا تھا اور اس میں انور مسعود صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ عجب روٹین تھی کہ جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار تین دن مشاعرے ہوتے۔ سوموار‘ منگل‘ بدھ اور جمعرات چار دن ہم فارغ ہوتے۔ مسلسل سفر تھا جو ہمیں درپیش تھا۔ جن تین دن مشاعرے ہوتے ہم ہر روز علی الصباح ایک نئے شہر کے ایئر پورٹ پر ہوتے رات وہاں مشاعرہ پڑھتے۔ آدھی رات کو ہوٹل پہنچتے اور سورج نکلنے سے پہلے اُٹھ کر اگلے شہر روانگی کیلئے ایئر پورٹ کی طرف بھاگ کھڑے ہوتے۔ نہ نیند پوری ہوتی تھی اور نہ تھکاوٹ اترتی تھی لیکن امجد اسلام امجد اور انور مسعود صاحب کی چہلیں‘ جملے بازی‘ گفتگو اور واقعات ایسا دل لگائے رکھتے کہ نہ کبھی تھکن کا احساس ہوا اور نہ ہی سفر کی بوریت نے ہی اپنا چہرہ کروایا۔ اس دوران میں نے مسلسل انور مسعود صاحب کی وہیل چیئر کھینچی اور اس وہیل چیئر کے زور پر ہر امریکی ایئر پورٹ میں ترجیحی لائن کے طفیل آسانی پائی۔
امجد صاحب! آج ہم میں نہیں لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے کام کی وجہ سے سدا زندہ رہتے ہیں۔ کسی دل جلے حاسد نے منیر نیازی سے کہا کہ انہوں نے گزشتہ پندرہ‘ سولہ سال سے کوئی نیا شعر نہیں کہا۔ منیر نیازی نے نہایت ہی رسان سے اسے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں‘ غالب نے تو گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں کوئی نیا شعر نہیں کہا۔ لوگ اپنے کام کے حوالے سے زندہ رہتے ہیں اور امجد صاحب بھی ایسے ہی تھے۔ اس فقیر کے پاس ان کی یادوں کا وہ خزانہ ہے کہ جب چاہے یادوں کا دریچہ وا کر کے ان سے ملاقات کر سکتا ہے۔