اپنے اپنے مقدر کے احمق

فی الوقت اگر کالم نویس سہولت اور آسانی سے کالم لکھنا چاہے تو سیاست پر لکھنا سب سے آسان ہے مگر اب اس کا کیا کیا جائے کہ یہ عاجز اس ملک میں جاری سیاسی ”چونڈا پٹائی‘‘ سے ”اک نک‘‘ ہو چکا ہے۔
صبح اٹھ کر اخبار پڑھیں‘ کسی بھی سیاستدان کا ایک بیان پڑھ لیں تو اس میں سے دوکالم نکلتے ہیں۔ حماقتیں ہیں کہ دونوں طرف سے جاری و ساری ہیں۔ یوٹرن اب صرف خان صاحب کا ٹریڈ مارک ہی نہیں رہ گیا‘ حالیہ حکمران بھی اپنی حد تک کچھ کسر نہیں چھوڑ رہے۔ جدھر جائیں ہر طرف سیاسی گفتگو کا چلن ہے۔ کہیں دو منٹ بھی اس سے مفر نہیں۔ جو ہمارے نزدیک معقول آدمی تھے‘ وہ بھی اس سیاسی گھڑمس میں ایسی ایسی نامعقول گفتگو کرتے پائے گئے ہیں کہ گفتگو سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور اچھی گفتگو کو دل ترس گیا ہے۔
آپ ہی بتائیں نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی تقرری پر کیا لکھا جائے؟ رہ گئی بات اس عبوری تقرری پر پی ٹی آئی کے واویلے کی تو وہ کم از کم اس عاجز کی تو سمجھ سے باہر ہے۔ اب اس بات پر کیا شور مچانا کہ نگران وزیراعلیٰ ان کی مرضی کا نہیں ہے۔ بندہ پوچھے آپ کا تو اپنا وزیراعلیٰ تھا جس سے اسمبلی تڑوا کر آپ اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ نگران وزیراعلیٰ ہماری پسند کا نہیں ہے۔ اپنے پکے وزیراعلیٰ کی خود چھٹی کروانے کے بعد مرضی کا نگران وزیراعلیٰ نہ لگنے پر مچائے جانے والے شور پر مجھے تو ہنسی آتی ہے۔ جہاں سیاست اس حد تک بچکانہ ہو جائے کہ پی ٹی آئی والے کہیں کہ ہمارے ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے جائیں تو سپیکر صاحب فرمائیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ایک ایک رکنِ قومی اسمبلی کو بلا کر تصدیق کریں گے اور ذاتی شنوائی اور تصدیق کے بعد پی ٹی آئی کے مستعفی ہونے والے ارکانِ اسمبلی کے استعفے انفرادی طور پر منظور کریں گے۔ یہ حیلہ صرف اور صرف پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفوں میں رکاوٹ ڈالنے کی خاطر اختیار کیا گیا تھا۔ مگر جیسے ہی پی ٹی آئی کو پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کے سلسلے میں پریشانی لاحق ہوئی اور انہیں احساس ہوا کہ قومی اسمبلی میں تو ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا ہوگا جب شہباز شریف آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے امیدوار اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سے مل کر جنرل الیکشن کے لیے نگران وزیراعظم کا انتخاب کریں گے تو بھلا انہیں اس بات سے کون روک سکے گا کہ وہ چاہیں تو مریم نواز شریف کو نگران وزیراعظم بنا دیں۔
آپس کی بات ہے کہ اس سے بڑھ کر سیاسی لطیفہ اور المیہ اور کیا ہوگا کہ راجہ ریاض قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف ہیں۔ ان کے انتخاب سے ذہن میں ”پاکٹ یونین‘‘ کا تصور آ جاتا ہے جو سیٹھ صاحبان اپنی ملز اور صنعتی یونٹس میں بننے والی مزدور یونینز میں اپنا تنخواہ دار بندہ سی بی اے (اجتماعی سودا کاری ایجنٹ) میں عہدیدار منتخب کروا لیتے ہیں۔ جس بندے نے مزدوروں کے مفاد کی خاطر سیٹھ یا مل مالک سے ٹکر لینی ہوتی ہے وہ بندہ دراصل خود سیٹھ یا مل مالک کا تنخواہ دار ایجنٹ ہوتا ہے۔ بھلا ایسے مزدور لیڈر نے مزدوروں کے حقوق کا خاک تحفظ کرنا ہے؟ یہی حال اپنے راجہ ریاض کا ہے جسے سرمایہ دار سے سیاستدان اور پھر حکمران بن جانے والے شریف خاندان نے اپنی اعلیٰ کاروباری اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے صنعتی یونٹس میں پاکٹ یونین کے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اندر خانے اپنے وفادار بندے کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف بنا دیا اور اس طرح انہوں نے قومی اسمبلی میں پاکٹ یونین کو متعارف کروا کر ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ شریف خاندان نے ہمارے سیاسی نظام میں جتنی نئی بدعات متعارف کروائی ہیں‘ اس سلسلے میں ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہو سکتا ہے۔
راجہ ریاض کی بطور اپوزیشن لیڈر آج کل وزیراعظم میاں شہباز شریف سے گاڑھی چھن رہی ہے۔ موصوف اس سے قبل پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت میں پیپلز پارٹی کی طرف سے 2008ء سے 2010ء تک سینئر وزیر رہنے کے بعد میاں شہباز شریف کی اسی حکومت میں 2011ء تا 2013ء قائدِ حزب اختلاف کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ اس طرح انہوں نے ایک ہی اسمبلی میں میاں شہبازشریف کے ساتھ شریکِ اقتدار اور قائدِ حزب اختلاف رہنے کا جو کارنامہ سرانجام دیا تھا‘ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
موصوف جب پنجاب میں سینئر وزیر تھے تب ان کے ملتان میں رہائش پذیر ایک عزیز نے میرے وائرلیس فون کا نمبر اچک لیا۔ قصہ یوں ہے کہ ملتان میں جب وائرلیس فون سروس شروع ہوئی تو ہمارا ایک دوست اس فون سروس کا انچارج تھا۔ نئے نمبروں کی تقسیم ہوئی تو اس نے محبت میں مجھے ایک اچھا سا نمبر دے دیا۔ یہ نمبر 600000 تھا‘ عرفِ عام میں ایسے نمبروں کو گولڈن نمبر کہا جاتا ہے۔ مجھے تو بعد میں پتا چلا کہ ایسے نمبر سٹیٹس سمبل کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس لحاظ سے میرے پاس ہونا اس گولڈن نمبر کی توہین تھی کہ ایسا شاندار نمبر کسی عام تام بندے کے پاس ہو۔ ایسے نمبر کو تو اپنے مرتبے کے برابر کسی شخص کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ لہٰذا اس نمبر کو مجھ سے ہتھیا لیا گیا۔
ہتھیایا ایسے گیا کہ میں ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے ملک سے باہر گیا اور ظاہر ہے جب میں ملک میں ہی نہیں تھا تو یہ نمبر بھی کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ راجہ صاحب کے ملتان میں رہائش پذیر اس عزیز نے کسی طرح پتا لگا لیا کہ فون عرصہ پندرہ‘ بیس دن سے بند ہے۔ سینئر وزیر نے اوپر سے کہلوا کر ملک سے میری غیر حاضری کے دوران یہ نمبر اپنے عزیز کو دلوا دیا۔ میں واپس آیا تو فون بند ملا۔ میں نے سمجھا کہ شاید کسی تکنیکی خرابی کے باعث بند ہے۔ اس خرابی کا پتا چلانے کے لیے میں نے اپنے موبائل سے نمبر ڈائل کیا تو کسی نے اٹھا لیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو میرا نمبر ہے‘ جواب ملا: اب یہ ہمارے پاس ہے‘ لے سکتے ہیں تو لے لیں۔ پی ٹی سی ایل کا قانون ہے کہ عدم ادائیگی کے باعث کٹ جانے والا فون بھی چھ ماہ تک آپ کے نام رہتا ہے اور آپ بقایا جات کی ادائیگی کرکے اسے بحال کروا سکتے ہیں۔ چھ ماہ کے بعد یہ فون کسی دوسرے کو الاٹ ہو سکتا ہے۔ میرے فون کا بل ادا شدہ تھا اور یہ میری مرضی کہ میں اسے استعمال کروں یا نہ کروں۔ میں نے اس فون کی واپسی کے لیے افتخار چودھری کو‘ جو تب چیف جسٹس تھے‘ ایک درخواست دے دی اور اخبار میں اس چوری اور سینہ زوری پر کالم لکھ دیا۔
کالم کے بعد راجہ ریاض کا فون آ گیا اور مجھے کہنے لگے کہ میں ان سے آ کر ملوں۔ میں نے کہا: اللہ مجھے آپ جیسے بندے کا سائل نہ بنائے مگر اب چونکہ آپ کو ملنے کی حاجت ہے تو آپ ملتان تشریف لائیں‘ بھلا میں کیوں آپ کے درِ دولت پر حاضری دوں؟ دو دن بعد میرے اسی دوست کے ذریعے محکمے کے اعلیٰ افسر نے ملاقات کا وقت مانگا اور اسلام آباد سے ملتان آ کر معذرت کی اور میرے فون کی سم مجھے واپس کی۔ یہ قصہ لکھنے کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے پاس اقتدار آ جائے تو وہ کیسی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرتے ہیں۔ان حالات میں ایسے سیاسی رہنماؤں سے اعلیٰ اقدار اور بھلائی کی امید رکھنا حماقت کے سوا اور کچھ بھی نہیں اور عالم یہ ہے کہ ہمارے رہنماؤں کو اس طرح کے مقلدین تھوک کے حساب سے ملے ہیں جو بلا سوچے سمجھے اپنے لیڈروں کی ہر بات کی تائید کرنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ چچا غالبؔ سے معذرت کے ساتھ:
احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں