پانی پت کی چوتھی جنگ

بڑے عرصے سے سب کو علم تھا کہ نومبر ایک آفت بن کر آئے گا۔ اس ملک میں جب سب سیاستدان ہر قیمت پر حکمرانی عوام کے بجائے گیٹ نمبر چار سے حاصل کرنے کے خواہشمند ہوں اور اس کے لیے وہ کسی سیاسی یا جمہوری اخلاقیات پر یقین نہ رکھتے ہوں تو پھر وہاں ایک تعیناتی کے لیے کسی بھی حد تک جانے اور گرنے پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ایک ہائی پروفائل تعیناتی نے پورے ملک کا نظام گرفت میں لے رکھا ہے۔ کسی کو اپنی قوت یا عوامی طاقت پر بھروسا نہیں ہے‘ سب چاہتے ہیں کہ ہر جگہ اپنا بندہ ہو تاکہ وہ ان کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت کریں۔اگرنواز لیگ کے لوگوں سے پوچھیں کہ عمران خان کو ہٹانے کی انہیں کیا ضرورت پڑی تھی جب اس کا ایک سال بچ گیا تھا تو عجیب جواب ملتا ہے۔فروری میں حالات ایسے ہوچکے تھے کہ عمران خان کے وزیر ٹی وی شوز میں جانے کو تیار نہیں تھے۔ میں خود گواہ ہوں کہ وزیر گھبراتے تھے کہ ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں۔ مجھے یاد ہے دو تین وزیروں سے بات ہوئی تو کہنے لگے‘ جی ہم کیوں جائیں ان بڑے لوگوں کا دفاع کرنے ٹی وی چینلز پر جو مال بنا رہے ہیں۔ وہ خان کے دوست ہیں اور وزیر بنے بیٹھے ہیں۔ وہ خود کو ٹیکنوکریٹ کہہ کر فیصلے کرتے ہیں اور اپنا ایک پائو گوشت الگ کر لیتے ہیں اور ہمیں کہا جاتا ہے اب جائیں اور ان کا دفاع کریں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو وفاقی وزیر سرور خان نے تو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کابینہ میں سب یار دوست ہیں جو کل کو اپنا بیگ اٹھا کر پاکستان سے نکل جائیں گے۔ بیس تو ایسے لوگ بیٹھے تھے جو وزیروں کا منصب رکھتے تھے لیکن وہ نہ ایم این اے تھے نہ سینیٹرمگر انہی کی سنی جاتی تھی۔ ایک مرحلے پر وہ نان الیکٹڈ جو چاہتے تھے وہی فیصلے کابینہ کرتی تھی۔ ایل این جی کا کارگو تین ڈالر کی شرح سے مل رہا تھالیکن یہ سستی ترین گیس نہ خریدی گئی اور پھر وہی کارگو اکتالیس ڈالر پر خریدا گیا۔ کورونا کے دنوں میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بیس ڈالر فی بیرل تک گر گئی تھی۔ بھارت نے بڑی مقدار میں خرید لیا۔ ہمارے ہاں الٹا پٹر ولیم وزارت نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو خط لکھا کہ فوری طور پر باہر سے تیل منگوانا بند کردیں اور آئل ریفائنریز کے پاس جو مہنگا تیل پڑا ہے وہی خریدا جائے گا اور وہی کچھ ہوا کہ عوام کو جوتیل تیس چالیس روپے فی لٹر مل سکتا تھا وہ ستر اسی روپے لٹر پر بیچا گیا تاکہ کمپنیوں کو گھاٹا نہ ہو۔
ان حالات میں اچانک زرداری اور نواز شریف کو بتایا گیا کہ جناب آگے نومبر آرہا ہے۔ باقی کی کہانی آپ سب نواز لیگ کے وزیر خرم دستگیر سے سن ہی چکے ہوں گے کہ کیسے انہیں ڈرایا گیا تھا کہ نومبر میں عمران خان اپنی پسند کا آرمی چیف لگا کر نواز لیگ کے سب سرکردہ لوگوں کو جیل میں ڈال دے گا۔ ٹاپ لیڈرشپ کو نااہل کر کے اگلے سال کا الیکشن آرام سے جیت کر وہ اگلے پانچ برس بھی حکومت کرے گا۔ یہ بات ویسے اب پی ٹی آئی کے وزیر بھی ٹی وی چینلز پر کہنا شروع ہوگئے تھے کہ ہم یہاں 2028ء تک حکومت کرنے آئے ہیں۔اگر عمران خان بھی نومبر کا انتظار کررہے تھے کہ وہ پاکستان کے مسٹر پوتن بنیں گے تو ان کے مخالفین بھی یہ بات نہ سمجھ سکے کہ شاید وہ جلدی نہ کرتے تو خان صاحب کی حکومت جس طرح چل رہی تھی وہ نومبر تک اتنے اَن پاپولر ہوچکے ہوتے کہ اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ وہ دس سال چھوڑیں‘ اگلے الیکشن تک پہنچ پاتے۔حالت یہ تھی کہ پاکستان میں حکومتِ وقت بہت کم ضمنی الیکشن ہارتی ہے جبکہ پی ٹی آئی تقریبا ًتمام ضمنی الیکشن ان ساڑھے تین سال میں ہار چکی تھی۔ ڈسکہ کا مشہورِ زمانہ ضمنی الیکشن سب کو یاد ہوگا کہ عمران خان مرکز میں وزیراعظم اور پنجاب میں بزدار وزیراعلیٰ تھے پھر بھی جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
وہ تاریخی سبق بھول گئے کہ جو بھی سیاسی وزیراعظم بڑی محنت سے اپنی پسند کا آرمی چیف لگاتا ہے وہ ہمیشہ اسی کے ہاتھوں مار کھا جاتا ہے۔ ملک کے دو طاقتور وزیراعظم بھٹو اور نواز شریف اپنا انجام دیکھ چکے ‘ جنہوں نے جنرل ضیااور جنرل مشرف کو چیف لگایا تھا۔ کیا فرق پڑتا اگر وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ موقع دیا جاتا۔ہوسکتا ہے عمران خان سمجھتے ہوں کہ وہ زیادہ سمجھدار ہیں اور وہ اپنے آرمی چیف کے ساتھ بہتر انڈرسٹینڈنگ پیدا کرسکیں گے‘ جو کام بھٹو اور نواز شریف نہ کرسکے۔ لیکن کیا کریں‘ انسانی نفسیات ہے کہ طاقت اور اقتدار کی جنگ میں دوستیاں نہیں ہوتیں بلکہ وقتی مفادات ہوتے ہیں۔ عمران خان کو موقع ملنا چاہئے تھا کہ وہ پانچ سال پورے کرتے اور مرضی کا چیف لگاتے۔ نواز شریف نے مرضی کا چیف لگایا جو بعد میں عمران خان کے کام آیا۔ کیا پتہ کہ عمران خان کا لگایا ہوا چیف نواز شریف اور زرداری کے کام آتا۔ ہم انسان عجیب مخلوق ہیں‘ ہمیں خود اپنا پتہ نہیں ہوتا کہ کس لمحے ہم کیا کر گزریں جبکہ دوسرے ہمیں اپنا بندہ سمجھ کر اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہوتے ہیں‘ جیسے عمران خان اور ان کے وزیر نومبر کی تقرری ذہن میں رکھ کر 2028 ء تک حکومت میں بیٹھے تھے۔ان حالات میں نواز لیگ اور زرداری کا بھاگ کر صرف نومبر کی تعیناتی سے بچنے کے لیے اتنا بڑا بحران پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ مان لیا سب کچھ جمہوری انداز میں کیا گیا۔ ہاؤس کے اندر سے تبدیلی لائی گئی لیکن کیا کریں کہ اس ملک میں وہ جمہوریت نہیں ہے جو برطانیہ میں ہے جہاں تین چار ماہ میں تین وزیراعظم بدل گئے ہیں لیکن وہاں کوئی آسمان نہیں ٹوٹا۔ نہ وہاں لانگ مارچ ہوئے‘ نہ دھرنے نہ بندے مرے یا کسی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
ہمارے ہاں اب کسی کو یہ پارلیمنٹ یا جمہوریت قابلِ قبول نہیں ہے‘ اگر ان کی مرضی کا لٹیرا یا فراڈیا یا ڈرامے باز ان کا وزیراعظم نہیں ہے۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ اس ملک میں کسی کو لوٹ مار سے فرق نہیں پڑتا بس بندہ اس کی پسند کا ہو۔کچھ دن پہلے اپنے دوست فواد چوہدری سے ٹی وی شو میں بات ہورہی تھی توایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت پاکستانی تاریخ کی صاف شفاف ترین حکومت تھی۔ میں منہ میں انگلیاں دبا کر رہ گیا۔ میں نے ایک درجن سکینڈلز گنوا دیے لیکن بھلا کہاں۔نواز شریف ‘ شہباز شریف یا زرداری ہوں وہ ابھی تیس چالیس سال پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کے ووٹر کو ان کی وارداتوں یا سکینڈلز سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں جو اَب ان سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے کندھوں پر اپنے والدین کی سیاست اور سکینڈلز کا جو بوجھ ہے وہ ان سے جان نہیں چھڑا سکتے اور آج کا نوجوان انہیں اس بوجھ سے نجات حاصل کیے بغیر اون کرنے کو تیار نہیں ۔
یہ ملک واقعی اب حالتِ جنگ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ ایسا ہورہا ہے کہ اب ڈر لگنا شروع ہوگیا ہے۔ پچھلے دو تین ہفتوں کے واقعات نے جان نکال لی ہے اور اقتدار کے کھلاڑی آرام کے موڈ میں نہیں۔ سب اپنے اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کرنا چاہتے ہیں ۔کسی کو اس ملک پر ترس نہیں آرہا۔ اب سب تلوار پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ پانی پت کا میدان سج چکا‘ طبلِ جنگ بج چکا۔ پانی پت کی چوتھی جنگ بس چھڑنے کو ہے۔ دلی پر حکمرانی کے لیے پانی پت کی تین جنگوں کا انجام ہم سب جانتے ہیں۔ اب تک ہم نے اقتدار کے لیے لڑی گئی جنگیں کتابوں میں پڑھی تھیں‘ آنکھوں سے اب دیکھ بھی رہے ہیں۔