1984ء سے 2023ء تک … (1)

یہ بات درست ہے کہ خبروں کے حوالے سے ملکِ عزیز میں کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا۔ مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ‘ جس پر نظر دوڑائیں خوار و خستہ دکھائی دیتی ہے۔ عوام کے اعتماد کا پوچھیں تو کم ازکم ان تین اداروں پر تو ہرگز دکھائی نہیں پڑتا۔ ان تین کے علاوہ بھی ایک آدھ اور زور آور پر عوامی غم و غصہ عروج پر ہے۔ غرض ایسی بے چینی‘ مایوسی اور جذبات کی شدت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ محض چند لوگوں کا معاملہ نہیں‘ جسے بھی ملے‘ اسے ہی بے چین پایا۔ اس میں ہر قسم کے لوگ تھے۔ امیر سے لے کر غریب تک‘ ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کو متفکر‘ مایوس اور رنجیدہ پایا۔ یہ الگ بات کہ ان کے تحفظات اور پریشانیاں ایک دوسرے سے کسی حد تک مختلف تھیں مگر اس سارے نظام سے مایوسی کا عنصر مشترکہ تھا۔ سیاسی محاذ آرائی‘ بڑھتی ہوئی باہمی مخاصمت‘ عدم برداشت‘ ذاتیات کے گرد گھومتی ہوئی سیاست‘ ملک و قوم کے مفاد سے بے اعتنائی اور روز بروز ڈوبتی ہوئی ملکی معیشت سے ساری قومی لیڈر شپ کی بے پروائی۔ غرض کوئی ایک مرض ہو تو اس کے علاج کی بات کریں۔
اب روز انہی گھسے پٹے اور مایوسانہ قسم کے موضوعات پر کیا لکھیں؟ اور بھلا اس لکھنے کا اثر بھی کیا ہو رہا ہے؟ مجھ جیسا بندہ مایوس نہ بھی ہو تو کم از کم تنگ ضرور آ جاتا ہے‘ سو یہ عاجز بھی مسلسل انہی موضوعات پر لکھتے ہوئے تنگ آ جاتا ہے تو پھر اپنا قلم ان موضوعات کی طرف پھیر لیتا ہے جدھر اسے تھوڑی سے امید کی کرن دکھائی پڑتی ہے۔ یہ عاجز گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرہ سے مختلف فلاحی تنظیموں کے ساتھ اندرون اور بیرونِ ملک ان کی فنڈ ریزنگ کے پروگرامز میں ان کا مستقل حصہ ہے اور خصوصاً رمضان میں گزشتہ کئی سال سے اس کارِخیر میں حصہ لے رہا ہے مگر اس سال ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں قیدیوں کے ساتھ ایک دن منانے کا تجربہ سب سے الگ اور مختلف رہا۔ سرکاری ٹی وی کے ملتان سٹیشن نے ایک نئی روایت ڈالتے ہوئے ملتان ڈسٹرکٹ جیل کے قیدیوں کے ساتھ ایک دن گزارنے کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں شاکر حسین شاکر نے مجھ سے رابطہ کیا اور میری دستیابی کا پوچھا۔ میں نے پروگرام کی تفصیل سنی تو شاکر کو کہا کہ میری دستیابی کو چھوڑو‘ یہ بتاؤ کہ یہ پروگرام آپ کس دن کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان شاء اللہ بہرصورت اس میں شرکت کروں گا۔ قیدی بہرحال قابلِ رحم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی مثبت توجہ کے مستحق ہیں اور گھر والوں سے دوری کے عذاب میں ان لوگوں کے ساتھ ایسا وقت گزارنا جس سے وہ خواہ وقتی طور پر ہی سہی‘ خوشیوں کے لمحے کشید کر سکیں تو بھلا اس سے بہتر بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟
جب یہ پروگرام بن گیا تو شا کر حسین شاکر نے قیدیوں کے لیے عید کے تحفے کے طور پر ان کے کپڑوں اور جوتوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ ملتان میں ہمارے چند مخیر دوست ایسے ہیں کہ اس قسم کے معاملات میں جب بھی ان سے بات کریں‘ وہ کبھی انکار نہیں کرتے۔ ایسے ہی دو دوستوں سے جب اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کسی تفصیل میں جانے کے بجائے صرف اتنا پوچھا کہ کتنے جوڑے کپڑے اور جوتے چاہئیں؟
شاکر نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ تو پہلے بھی یہاں آچکے ہیں‘ کوئی فرق دکھائی دیتا ہے؟ میں تقریباً چار عشروں کے بعد اس جیل کی حدود میں داخل ہوا تھا‘ اس دوران اندر سارا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ جیل کی گیارہ عدد بیرکوں کے درمیان قدیم چکر تو اسی طرح موجود تھا لیکن اس جگہ کے اندر کے حالات اور بیرکوں کی ساری صورتحال خوشگوار حد تک بدل چکی تھی۔ جیل کے مرکزی دروازے سے لے کر اندرونی حصار والی دیوار کے درمیان جو علاقہ کبھی اجاڑ پڑا ہوتا تھا‘ سرسبز و شاداب دکھائی دے رہا تھا اور جگہ جگہ درخت سارے ماحول کو ایک خوشگوار نظارے میں بدل رہے تھے۔ چکر اور جیل کے مین گیٹ کے درمیان ٹی وی والوں نے ریکارڈنگ کے لیے سارا بندوبست کیا ہوا تھا۔
گو کہ انتالیس سال قبل جب میں اس جیل میں جنرل (ر) ضیا الحق کے مارشل کے تحت جوڈیشل ریمانڈ پر آیا تھا تو رات حوالات میں پڑنے والی مار کے سبب سارا بدن دُکھ رہا تھا اور کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی لیکن اس سے قطع نظر جیل کی مجموعی صورتحال کم از کم دکھائی دینے کی حد تک بہت ہی بہتر ہو چکی تھی۔ انتالیس سال پہلے نو فروری 1984ء کو جنرل ضیا الحق نے بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر طلبہ یونینز پر پابندی عائد کر دی۔ اسی رات کو پولیس نے ”حفظِ ماتقدم‘‘ کے طور پر جس طالب علم کو سب سے پہلے گرفتار کیا‘ وہ یہ عاجز تھا۔ رات کو میں اپنے ایک مہمان دوست مرحوم سلیم الرحمان المانی کو گھر سے باہر چھوڑنے آیا تو دروازے کے پیچھے چھپے ہوئے پولیس اہلکاروں نے مجھے مہمان سمیت پکڑا اور گلی کی نکڑ پر کھڑی ہوئی پرائیویٹ وین میں بٹھا کر چل پڑے۔ میں کافی تسلی میں تھا کہ مجھے تھانے جا کر تھوڑی پوچھ گچھ کریں گے اور پھر گھر واپس بھیج دیں گے۔ میں صبح ہی اپنے تیسرے سمسٹر کا پہلا پرچہ دے کر رات کا کھانا یونیورسٹی ہاسٹل میں کھا کر گھر آیا تھا۔ جب میں ابوبکر ہال میں راؤ اعجاز وغیرہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا‘ تب میرے شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفر اللہ‘ جو بعد میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے ریکٹر بھی رہے‘ وہیں موجود تھے۔ ان کے ہمراہ ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز ڈاکٹر محمد افضل وینس بھی وہیں تھے۔ میرا خیال تھا کہ ہر دو اساتذہ کی گواہی کے بعد مجھے چھوڑ دیا جائے گا مگر میری پریشانی تب بڑھی جب پولیس مجھے تھانے کی طرف لے جانے کے بجائے تحصیل چوک سے کچہری کے بجائے بند بوسن کی طرف چل پڑی۔ میرے دل میں کئی قسم کے خیال آ رہے تھے؛ تاہم گول باغ جا کر میری تسلی ہو گئی جب وہاں کھڑے ہوئے ایک دو پولیس اہلکار اسی ویگن میں بیٹھے اور مجھے لے کر تھانہ صدر آ گئے۔ ابھی میں ویگن سے پوری طرح اترا بھی نہیں تھا کہ ایک پولیس والے نے مجھے ایک زور دار تھپڑ مارا اور کہنے لگا کہ یہ سٹوڈنٹس بڑے خبیث ہوتے ہیں۔ ہمیں ”ماماں ماماں‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ جانے میرے دل میں کیا آئی۔ شاید یہ اس اچانک پڑنے والے زور دار تھپڑ کا اثر تھا کہ میرا خوف نکل گیا تھا۔ میں نے تھپڑ مارنے والے سپاہی کی طرف استہزائیہ انداز میں دیکھا اور کہا کہ اگر ماماں ماماں کہتے ہیں تو اب نانکے (ننھیال) آیا بھی تو ہوا ہوں۔ بس یہ سننا تھا کہ ایک پہلوان نما سپاہی نے مجھے تھانے کے دروازے پر ہی دھوبی پٹخا مار کر زمین پر گرا دیا۔ یہ شاید دیگر نکتہ دانوں کے لیے صلائے عام کا اشارہ تھا‘ اردگرد کھڑے ہوئے تین چار مشٹنڈوں نے اپنے بیدوں سے میری دھلائی شروع کر دی۔ حسبِ منشا میری طبیعت صاف کرنے کے بعد مجھے محرر کے کمرے میں لے جایا گیا۔
یہاں سوال و جواب کا مرحلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مجھ سے پوچھا گیا کہ سٹوڈنٹس یونین کا صدر وقار ندیم وڑائچ‘ جو میرا کلاس فیلو بھی تھا‘ کدھر ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت وقار ندیم وڑائچ میرے گھر میں میرے کمرے میں آرام سے سو رہا تھا اور اسے علم ہی نہیں تھا کہ مجھے پولیس پکڑ کر لے جا چکی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ یہ سمجھ کر آرام سے سو گیا کہ میں شاید مہمان کو دروازے سے رخصت کرکے گھر کے اندر جا کرکسی کمرے میں سو گیا ہوں۔ جبکہ گھر والوں کا خیال تھا کہ میں باہر والے کمرے میں جہاں دو بیڈ لگے ہوئے تھے‘ اپنے دوست اور صدر طلبہ یونین وقار ندیم کے پاس ہوں۔ یہ تو اگلے روز صبح معلوم ہوا کہ میں تو گھر میں ہی نہیں ہوں۔ (جاری)