1984ء سے 2023ء تک … (2)

محرر نے سب سے پہلا سوال جو مجھ سے کیا وہ یہ تھا کہ وقار ندیم کہاں ہے؟ میں نے کہا: مجھے اس کا کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ پھر اس نے مجھ سے سٹوڈنٹس یونین کے دیگر عہدیداروں کے بارے میں دریافت کیا مگر میں نے کہا کہ مجھے کسی کا بھی علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ پھر مجھ سے ملتان کے رہائشی ایک طالبعلم رہنما کے گھر کا پتا پوچھا۔ حالانکہ میں فروری کے سرد موسم میں پڑنے والی مار کے باعث خاصی تکلیف میں تھا مگر خدا جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں جو کمرے کی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا‘ محرر کو کہا کہ اس وقت تو مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ میرا اپنا گھر کہاں ہے۔ اس جواب کو میری گستاخی پر محمول کیا گیا اور تھانے کے پچھواڑے لے جا کر دو چار روایتی لِتر مارے گئے۔ پھر میری صحت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک سپاہی کہنے لگا کہ اتنا ہی کافی ہے‘کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ تب یہ عاجز خاصا دبلا پتلا ہوا کرتا تھا۔
واپس آنے پر ایس ایچ او نے مجھ سے پوچھا کہ میری یادداشت کچھ بہتر ہوئی ہے یا ایک آدھی ڈوز مزید دی جائے؟ میں نے کہا کہ پہلے آپ نے مجھ سے پوچھ کر میری ٹھکائی کی ہے جو اب پوچھ رہے ہیں؟ اس پر ایس ایچ او نے محرر کو مخاطب کرکے کہا: فیض خان! عادی مجرم اینویں ہوندن۔ ایندی جان ڈیکھ‘ تے کُٹ ڈیکھ جیہڑی ایہہ جھلی بیٹھے (فیض خان! عادی مجرم ایسے ہوتے ہیں۔ اس کی جان دیکھو اور مار دیکھو جو یہ برداشت کر چکا ہے)۔ اس کے بعد مجھے حوالات میں ڈال دیا گیا۔ حوالات کا حال ایک علیحدہ کالم کا موضوع ہے۔ ابھی میں حوالات میں ایک حوالاتی سے نئی رضائی مار کر اس میں گھسا ہی تھا کہ ایک سپاہی نے سلاخوں کے باہر سے مجھے آواز دے کر پوچھا کہ خواجہ عبیدالرحمن کا گھر کہاں ہے؟ میں نے کہا: میں ایسے نہیں بتاؤں گا۔ مجھے باہر نکال کر جوتے مارو اور پھر بتاؤں گا۔ وہ چلا گیا اور پھر واپس نہیں آیا۔
اس دوران یہ شکر رہا کہ میرے مہمان سلیم المانی کو تھانہ صدر میں دائیں طرف والے کمروں کی قطار میں بنے ہوئے اہلکاروں کے رہائشی کمرے میں بٹھا دیا اور اگلے دن گیارہ بجے اسے چھوڑ دیا۔ اس دوران یہ ساری کارروائی کسی قسم کے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر جاری رہی تاوقتیکہ انہوں نے صبح ساڑھے گیارہ بجے گورنمنٹ ایمرسن کالج کے طلبہ کی جانب سے ہونے والے احتجاج کے دوران کالج کے سامنے کبیروالہ کے معروف سیاستدان ڈاکٹر سید خاور علی شاہ کی رہائش گاہ کے سامنے سڑک بند کرنے‘ سرکاری املاک پر پتھراؤ کرنے اور سامنے والی کوٹھیوں کے رہائشیوں کی بھینسوں کی ”کھرلیوں‘‘ کو آگ لگا کر راستہ بند کرنے اور نقضِ امن کے جرم میں پرچہ درج کیا۔ میرا نام نہ صرف اس پرچے میں شامل تھا بلکہ ایف آئی آر کے مطابق میں جو گزشتہ بارہ گھنٹے سے حوالات میں بند تھا‘ جادوئی کرامت کے ذریعے موقعِ واردات پر موجود تھا اور ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے موقع پر گرفتار ہوا تھا۔ اس پرچے کے مطابق مجھ پر مارشل لاء کا ضابطہ لگایا گیا اور مجھے علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کر دیا گیا۔ عدالت میں جو کچھ ہوا‘ میں اس کا ذکر اپنے ایک کالم میں کر چکا ہوں۔ بہرحال مجسٹریٹ نے مجھے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم دے دیا۔
مجھے تھانہ صدر کے باہر کھڑے ہوئے ایک تانگے میں بٹھا کر جب دو پولیس اہلکار ڈسٹرکٹ جیل کی طرف روانہ ہوئے تو ایک سپاہی نے از راہِ ہمدردی میرے ہاتھوں میں لگی ہوئی ہتھکڑی پر اپنا ”پرنا‘‘ ڈال دیا۔ میں نے بڑے مزے سے وہ پرنا اٹھا کر واپس کیا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی خاتون کو چھیڑنے یا چرس بیچنے کے الزام میں جیل نہیں جا رہا کہ مجھے شرمندگی ہو۔ میں مارشل لاء کے ضابطے کے تحت جیل جا رہا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔یاد آیا‘ مجھے عدالت میں پیش کرنے سے پہلے میرے بڑے بھائی مرحوم طارق محمود خان نے ملتان کے معروف اور ہردلعزیز کرائم رپورٹر مرحوم قاسم جعفری کے توسط سے مجھے تھانہ صدر میں تلاش کر لیا اور بتایا کہ گھر والوں کو صبح علم ہوا کہ میں رات سے لاپتا ہوں تووہ سب بہت پریشان ہیں۔ میں نے خاص طور پر ابا جی کا پوچھا تو بھائی کہنے لگے کہ پریشان تو تھے مگر ظاہر نہیں کر رہے تھے اور غصہ دکھا رہے تھے کہ اس کی حرکتیں ایسی ہی ہیں‘ کسی دن کوئی ”بڑا چن چڑھائے گا‘‘۔
جیل کی زندگی کو بس محسوس کیا جا سکتا ہے‘ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جیل انتظامیہ کی مہربانی تھی کہ انہوں نے مجھے عادی مجرموں کے ساتھ بیرک میں رکھنے کے بجائے جیل کے شمال مشرق میں موجود ایک احاطے کے اندر بنی ہوئی ایک چھوٹی سی بیرک‘ بلکہ بیرک بھی کہاں‘ ایک بڑے سے کمرے میں‘ جس کی آمنے سامنے کی دو دیواریں سلاخوں پر مشتمل تھیں اور ایک طرف داخلے کا سلاخوں والا دروازہ تھا‘ میں بھیج دیا گیا۔ پہلے دن تو میں اس جگہ بالکل اکیلا تھا؛ تاہم اگلے روز دو تین اور پنچھی آ گئے۔ یہ ایمرسن کالج کے بالکل معصوم اور بھولے بھالے سے فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے۔ ایک کا نام پیر محمد تھا اور وہ جیل میں آدھا دن بچوں کی طرح روتا رہتا تھا۔ دو‘ چار دن کے بعد اس کی طبیعت تھوڑی سنبھلی۔ اس دوران سپرنٹنڈنٹ جیل ہمیں ملنے آیا اور یہ سن کر کہ میں ایم بی اے کا طالب علم ہوں‘ ہمیں ایک عدد قیدی بطور مشقتی دے دیا۔ یہ مشقتی وہاڑی کے قریب کسی گاؤں سے تھا اور اسے زمیندار نے کسی گستاخی پر چوری کا الزام لگا کر پکڑوا دیا تھا۔ معمولی سی چوری کے الزام میں یہ گزشتہ چار مہینوں سے بند تھا اور اس کی ضمانت نہیں ہو رہی تھی۔ یہ مشقتی ہمارے بڑے کام آیا۔ اسے جیل کے بھیدوں کا بھی علم تھا اور اچھے برے اہلکاروں کا بھی پتا تھا۔ اس کے طفیل ایک جیل اہلکار سے معاملہ طے ہو گیا۔ ڈیوٹی کے بعد وہ میرے بھائی کو جا کر ملا اور اپنے انعام کے علاوہ میرے لیے نقدی لے آیا۔ جیب میں پیسے ہوں تو ہر جگہ آسانی ہو جاتی ہے خواہ وہ جیل ہی کیوں نہ ہو۔
نہایت عمدہ تڑکے والی دال اور سپیشل سبزی کے باعث کھانے کے مسائل تو حل ہو گئے۔ صرف اس روز مسئلہ بنتا جس روز گوشت پکتا تھا۔ لانگری اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس ہڈیوں اور چھیچھڑوں کے ملغوبے کو کسی طور بہتر نہ کر پاتا۔ سو اس روز میں فاقہ کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ ٹوتھ برش‘ جیم‘ بسکٹ‘ چینی‘ گڑ اور دیگر اشیائے خورو نوش آنا شروع ہو گئیں۔ زندگی بڑے ڈھب سے گزر رہی تھی۔ صرف ایک فکر تھی کہ جب جیل سے گھر واپس جاؤں گا تو ابا جی بڑی چھترول کریں گے۔
کیا زمانہ تھا کہ بندہ جیل میں تو بے فکر ہے لیکن واپس گھر جاتے ہوئے ابا جی سے پڑنے والے متوقع جوتوں سے خوف زدہ ہے۔ کسی نے کہا کہ کیا زمانہ ہوتا تھا جب ہمیں نہ فور جی کا کوئی مسئلہ ہوتا تھا اور نہ ہی فائیو جی کا رولا ہوتا تھا۔ صرف ابا جی اور امی جی ہوتی تھیں۔ ایک کے دو جوتوں سے چلتا ہوا نیٹ ورک بند ہو جاتا تھا اور دوسرے کی محبت سے یہ بند نیٹ ورک چل پڑتا تھا۔ جیل میں شجرکاری اور سبزہ دیکھا تو ایک گھر کے بھیدی نے کان میں بتایا کہ اس بہتری کا سہرا سرکار کے بجائے دو تین ایسے قیدیوں کے سر جاتا ہے جو نیب کی پکڑ کے باعث اس جیل میں قیام پذیر رہے اور پیسے کے زور پر اپنا اور جیل کا بھلا کرتے رہے۔ ہاؤسنگ سکیم میں بے ضابطگیوں کے الزام میں جیل بھگتنے والے اس ارب پتی کی حصہ داری ملتان کے ایک ایم این اے سے بھی تھی مگر اس نے وفاداری بشرطِ استواری کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سلسلے میں اپنی زبان مکمل طور پر بند رکھی۔ جوابی طور پر اس کے عوضانے میں ایم این اے نے موصوف کو جیل میں ایسے مزے کروائے کہ گھر کی یاد بھی نہ آنے دی بلکہ شنید ہے کہ موصوف گھر بھی آیا کرتے تھے۔ بہرحال اس کے طفیل جیل کی شکل و صورت ضرور نکھر گئی۔ (جاری)