1984ء سے 2023ء تک … (3)

9فروری 1984ء کی جس شب مجھے پولیس نے پکڑا‘ یہ محض اتفاق ہے کہ اُسی دن ابوبکر ہال میں دوپہر کے کھانے کے دوران ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز ڈاکٹر محمد افضل سے میس میں ملاقات ہو گئی۔ میں اپنے دوسرے کلاس فیلوز کے ہمراہ کھانا کھانے میس میں آیا تھا۔ اس روز ہمارے تیسرے سمسٹر کا پہلا پیپر تھا جو ہم اولڈ کیمپس میں دینے کے بعد اگلے پیپر کی تیاری کیلئے نیو کیمپس میں واقع اس ہوسٹل میں آئے تھے۔ خدا جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں اپنی کھانے کی میز سے اٹھا اور سیدھا ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ کو علم ہے کہ میں اپنے تیسرے سمسٹر کے پیپرز میں مصروف ہوں اور طلبہ یونینز پر لگنے والی پابندی کے سلسلے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں پہلے ہی یونیورسٹی سے اپنے دو سالہ اخراج کو تین سال میں بھگتا کر واپس آیا ہوں اور اگر اب مجھے کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں کوئی مصیبت یا مشکل درپیش آئی تو یہ آپ لوگوں کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ کہہ کر میں نے انہیں بارِدگر متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہیں نا! انہوں نے اپنے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لاتے ہوئے مجھے اطمینان دلایا کہ میں بے فکر رہوں ان شااللہ کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہو گی اور اُسی رات پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔
اگلے روز صبح جب میرے بڑے بھائی مجھے تھانہ صدر کی حوالات میں مل کر رخصت ہوئے‘چند منٹ کے بعد ہی ڈاکٹر افضل میرے شعبہ کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر اللہ صاحب کے ہمراہ مجھے ملنے حوالات پہنچ گئے۔ وہ خاصے پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ میں حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری اس گرفتاری کے پیچھے یونیورسٹی انتظامیہ کا کوئی ہاتھ نہیں اور مجھے تو خود ابھی ابھی علم ہوا کہ تم گرفتار ہو گئے ہو اور میں فوراً تمہارے پاس آیا ہوں۔ ہم تمہاری رہائی کی پوری کوشش کریں گے لیکن تم اس سلسلے میں کوئی بدگمانی اپنے دل میں نہ لانا۔ میں نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے تو فوراً اپنے پیپروں کا قصہ لے کر بیٹھ گیا کہ اب میرے باقی ماندہ پیپرز کا کیا بنے گا؟ میرے شعبہ کے چیئرمین کہنے لگے کہ تم بے فکر رہوتم جب بھی باہر آؤ گے تمہارے پیپرز لے لیے جائیں گے۔ میں نے معاملے کو فوری طور پر حل ہوتا دیکھ کر مزید پاؤں پسار لیے اور کہا کہ آپ کو تو علم ہے کہ میں اپنی مرضی سے اندر نہیں آیا‘ اس لیے میں اپنے پیپرز کیلئے ری ایگزامینیشن فیس نہیں دوں گا۔ ہر دو حضرات نے مجھے تسلی دی کہ تم سے ری ایگزامینیشن فیس بھی نہیں لی جائے گی۔ پھر میں نے پوچھا کہ میری مارکیٹنگ کی رپورٹ کا کیا بنے گا؟ انہوں نے کہا کہ وہ تم باہر آنے کے بعد جمع کروا دینا۔ میں نے کہا: واپس آنے کے بعد دس دن بعد جمع کرواؤں گا۔ وہ اس پر بھی راضی ہو گئے۔ پھر اگلا مطالبہ یہ کر دیا کہ میں اندر ہوں اور پیپرز کی تیاری نہیں کر سکتا ‘لہٰذا آپ باہر آنے کے بعد مجھ سے Objective پیپرز لینا۔ وہ اس پر بھی راضی ہو گئے۔ یہ سن کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ مجھے اپنے سارے نامعقول مطالبات تسلیم ہو جانے پر اتنی خوشی ہوئی کہ حوالات میں ہونے کی پریشانی اور رات پڑنے والی مارکا درد بھی بھول گیا۔ دس گیارہ گھنٹوں میں یہ پہلی خوشی تھی جو مجھے نصیب ہوئی۔
اس چھوٹی سی بیرک کے ساتھ ایک کھلا احاطہ تھا جس میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ رات ہم بیرک میں بند کر دیے جاتے جبکہ صبح اس بیرک کا دروازہ کھول دیا جاتا۔ میں نے اس فراغت کو غنیمت جانا اور اس احاطے میں جوگنگ شروع کر دی۔ قریب ایک گھنٹے کی جوگنگ کے بعد میں تھک کر دھوپ میں زمین پر لیٹ جاتا۔ سانس برابر کرنے کے بعد اس احاطے کے ایک کونے میں لگے ہوئے شلجم اکھاڑتا اور انہیں دھو کر کچا کھا جاتا۔ شنید تھی کہ یہ شلجم اسی بیرک میں مقیم ایک سیاستدان نے اپنا دل لگانے کیلئے کاشت کیے تھے جس سے اب ہم لطف اندوز ہو رہے تھے۔ آرگینگ قسم کے شلجم اللہ جانے واقعی اتنے میٹھے تھے یا پھر جیل میں غنیمت کے طور پر ملنے کی وجہ سے میٹھے لگتے تھے لیکن یہ بات طے ہے کہ زندگی میں اس سے زیادہ میٹھے شلجم نہ پہلے کبھی کھائے تھے اور نہ ہی بعد میں کبھی اتفاق ہوا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس طرح کچے شلجم کھانے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی کبھی بعد میں۔ شلجم کھانے کے بعد انرجی لیول بہتر ہو جاتا تو ورزش شروع کر دیتا۔ جیل کے وہ دن شاید میری زندگی کا واحد ایسا وقت ہے جسے میں نظم و ضبط اور فراغت کا حسین امتزاج کہہ سکتا ہوں۔ کوئی کام کاج نہیں تھا لیکن زندگی کے معمولات میں ایسا نظم و ضبط پھر کبھی دوبارہ نصیب نہ ہوا۔ مغرب کی اذان سے پہلے ہمیں بیرک میں بند کر دیا جاتا‘ مغرب اور عشا کی نماز بیرک کے اندر ادا کی جاتی‘ تھوڑی سی گپ شپ ہوتی‘رات آٹھ نو بجے ہی ایسا لگتا کہ آدھی رات گزر چکی ہے۔ دس بجے سے پہلے سو جاتے۔ صبح فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی۔ میں ایک آدھ گھنٹہ دوبارہ سو کر اٹھتا تو ہماری بیرک کا دروازہ کھل جاتا۔ صبح شام دو وقت ملا کر دو اڑھائی گھنٹے جوگنگ کرنے کا پھر دوبارہ کبھی وقت ہی نہ ملا۔ اس ساری بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ نکلتا کہ بھوک ایسی لگتی کہ خدا کی پناہ۔ ممکن ہے لنگر خانے میں پہنچنے والی قائداعظم کی تصویروں والی نقد سفارش کے باعث فراہم ہونے والی تڑکے والی دال اتنی لذیذ نہ رہی ہو جتنی کہ وہ چمک اٹھنے والی بھوک کے طفیل لگتی تھی۔ یہ سارا اڑھائی تین گھنٹوں پر مشتمل ایکسر سائز کا کمال تھا۔ اس روٹین کا نقصان یہ ہوا کہ گھر میں ایک پھلکا کھانے والا خالد مسعود جیل میں چار چار روٹیاں کھانے لگ گیا۔ جب گھر واپس آیا تو میری مرحوم پھوپھی جو ہمارے ساتھ رہتی تھیں‘مجھے دیکھ کر کہنے لگیں کہ ہم اس کمبخت کی وجہ سے گھر میں پریشانی سے سوکھے جا رہے تھے اور یہ جیل سے موٹا تازہ ہو کر واپس آیا ہے۔
حیرانی ہوتی ہے کہ تب چوبیس گھنٹے کا دن کس طرح آرام اور سکون سے گزر جاتا تھا۔ جیل کی تو چھوڑیں باہر بھی موبائل فون کی علت اور سوشل میڈیا کی شرارت کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ بلکہ کسی کے خواب و خیال تک میں نہیں تھا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد دھوپ میں گھاس پر لیٹ جاتے۔ وٹامن ڈی کا بھلا اس سے بہتر سورس اور کیا ہو سکتا تھا؟ پچھلے دنوں وٹامن ڈی کا ٹیسٹ کروایا تو اس کی کم از کم نارمل ویلیو پچیس ہوتی ہے اور میری گیارہ نکلی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تب میں یہ ٹیسٹ کرواتا تو یقینا تیس چالیس سے بھلا کیا کم نکلتا۔ فروری 1984ء میں ایک آمر کی طلبہ یونینز پر لگائی گئی پابندی (درمیان میں ایک دو سال کے علاوہ) گزشتہ چار عشروں سے نافذ العمل ہے۔ اس دوران جمہوری حکومتیں بھی آئیں مگر کسی کو بھی یہ سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ یہ بات درست ہے کہ طلبہ یونینز کی کچھ قباحتیں بھی تھیں مگر آج بھی پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان چند قباحتوں سے ہٹ کر تعلیمی اداراوں میں طلبہ یونینز کی بدولت بے شمار فوائد بھی تھے اور ان کے اثرات ملکی سیاست اور اسمبلیوں میں دکھائی دیتے تھے۔ طلبہ کی شخصیت سازی میں ان طلبہ یونینز کے زیر اہتمام ہونے والی ہم نصابی سرگرمیوں کا جو حصہ تھا۔ اس کا اندازہ تعلیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں آنے کے بعد ہوا کہ ان غیر نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں نے طلبہ کی شخصیت پر جو مثبت اثرات مرتب کیے وہ عملی زندگی میں بہت کام آئے۔ خاص طور پر وہ اعتماد جو سٹیج پر چڑھ کر اپنی بات کو دلیل کے ساتھ کرنے سے حاصل ہوا اور کالج میگزین میں لکھنے کا جو موقع ملا اور اس نے لکھنے کی صلاحیت کو جس طرح نکھاراوہ قابلِ ستائش ہے۔