1984ء سے 2023ء تک

حوالات کی رات دو عدد پریشانیاں لاحق تھیں۔ پہلی یہ کہ اگلے چار پیپرز کا کیا بنے گا اور دوسری یہ کہ گھر واپسی پر ابا جی کے غیظ و غضب کا کیا بنے گا؟ خیر سے پیپرز والی پریشانی تو حوالات میں ہی دور ہو گئی جب مجھے ملنے کیلئے آنے والے ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز اور شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن کے چیئرمین نے میرے سارے مطالبات قطع نظر اس کے کہ وہ معقول تھے یا نامعقول‘ فوری طور پر تسلیم کر لیے۔ لہٰذا ایک مسئلہ تو دس بارہ گھنٹے میں ہی حل ہو گیا لیکن دوسرے مسئلے نے لگ بھگ ایک مہینہ پریشان کیے رکھا؛ تاہم جب جیل سے واپس گھر پہنچا تو علم ہوا کہ میری ساری فکرمندی بالکل فضول میں تھی اور واپسی پر ابا جی نے میرا استقبال خلافِ توقع جوتوں کے بجائے محبت سے کیا۔ یہ بڑی انوکھی بات تھی۔بعد میں پتا چلا کہ ابا جی کا دل میری طرف سے دوسرے دن ہی صاف ہو گیا جب پولیس نے میری گرفتاری کے دوسرے دن مجھ پر ایمرسن کالج کے طلبہ کی جانب سے کی جانے والی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ میں ملوث کرتے ہوئے میری موقع واردات سے گرفتاری ڈال دی۔ قصہ یوں تھا کہ ابا جی مرحوم ایمرسن کالج کی ڈسپلنری کمیٹی کے سینئر رکن تھے اور جس وقت کالج کے باہر بوسن روڈ پر ساری ہنگامہ آرائی ہو رہی تھی‘ ابا جی ڈسپلن کمیٹی کے دیگر اراکین مع پرنسپل نہ صرف یہ کہ موقع پر موجود تھے بلکہ ہنگامہ آرائی میں مصروف طلبہ کو سمجھانے بجھانے میں لگے رہے۔ ایسے میں جبکہ ابا جی خود موقع پر موجود ہوں‘ میری کیا مجال ہو سکتی تھی کہ میں وہاں آتا؟ ویسے بھی ابا جی کو صبح ہی میرے گھر سے غائب ہو جانے کا علم ہو چکا تھا اور جب وہ کالج پہنچے تب تک ان کو میری گرفتاری کا تو بہرحال علم نہیں تھا لیکن یہ پریشانی ضرور تھی کہ آخر میں اپنے دوست کو اپنے کمرے میں چھوڑ کر کہاں چلا گیا ہوں؟
جب وہ کالج سے واپس گھر پہنچے تو انہیں بڑے بھائی نے بتایا کہ خالد گھر سے خود کہیں نہیں گیا بلکہ اسے رات پولیس نے گھر کے دروازے سے گرفتار کر لیا ہے اور وہ تھانہ صدر کی حوالات میں بند ہے۔ ظاہر ہے ابا جی کو اس پر بھی تاؤ آ گیا اور انہوں نے مجھ پر میری غیر موجودگی میں غصہ اتارا اور میرے علاوہ گھر کے دیگر لوگوں کو بھی ڈانٹا کہ یہ سب ان کی ڈھیل اور ہلاشیری کا نتیجہ ہے کہ یہ لڑکا الٹے سیدھے کاموں میں لگا رہتا ہے اور لیڈری کے چکر میں پڑ کر ہم سب کو پریشان کرتا رہتا ہے۔ جب یہ پہلی بار پکڑا گیا تھا‘ اگر اس وقت اس کی طبیعت بھلے طریقے سے صاف کر دی جاتی تو یہ نوبت نہ آتی۔ پھر انہوں نے اپنی بڑی بہن یعنی میری پھوپھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپاں! اگر آپ لوگ اس کی تب کی حرکات‘ جب میں پڑھنے کیلئے پنجاب یونیورسٹی گیا ہوا تھا‘ مجھ سے نہ چھپاتے اور جب وہ پچھلی بار حوالات کی سیر کرکے واپس آیا تھا‘ اسے مجھ سے نہ بچاتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا؛تاہم اگلے روز یہ ہوا کہ جب وہ کالج پہنچے تو انہیں گزشتہ روز والے ہنگامے کے بعد کٹنے والی ایف آئی آر کے بارے میں علم ہوا۔ بحیثیت رکن ڈسپلنری کمیٹی جب انہوں نے ایف آئی آر پڑھی تو اس میں درج تھا کہ طالب علم رہنما خالد مسعود خان کو ہنگامہ آرائی‘ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ پڑھ کر ابا جی کو میری بے گناہی کا یقین آ گیا کہ اگر میں نے واقعی کوئی خلافِ قانون حرکت یا جرم کیا ہوتا تو پولیس کو مجھ پر یہ جھوٹا کیس نہ ڈالنا پڑتا۔ اوپر سے مزید یہ ہوا کہ اسی روز کالج میں پرنسپل کو فون آ گیا کہ وہ میرے والد کو لے کر ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے دفتر حاضر ہوں۔
ابا جی اور پرنسپل ایمرسن کالج ملتان چھاؤنی میں واقع کور کمانڈر‘ جو ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے‘ کے دفتر پہنچ گئے۔ مارشل لاء کا زمانہ تھا اور ایسے میں زور آوروں کا سارا زور سرکاری ملازمین پر چل رہا تھا۔ ابا جی بطور سرکاری افسر ان کا سافٹ ٹارگٹ تھے‘ لہٰذا انہی ںدفتر بلا کر دھمکایا گیا کہ اپنے بیٹے کو بندہ بنا لیں وگرنہ اس کا نقصان آپ کو بھی ہو سکتا ہے۔ بعد میں مجھے پرنسپل صاحب نے بتایا کہ جونہی تمہارے ابا جی کو یہ دھمکی دی گئی وہ بجائے گھبرانے یا ڈرنے کے ایک دم تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے کہ اگر پولیس میرے بیٹے پر پرچہ کاٹتی کہ وہ ایک طلبہ تنظیم کا رکن ہے تو میں آپ کو کہتا کہ اس جرم میں اگر اس کی کوئی سزا بنتی ہے تو اسے دے دیں۔ اگر آپ اس طلبہ تنظیم کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے اراکین کو پھانسی کی سزا سنانے کا اعلان کرتے تو میں اس سزا کو بھی تسلیم کر لوں گا کہ میرے بیٹے پر یہ الزام سچائی پر مبنی ہوگا لیکن جس جرم میں اسے ملوث کرتے ہوئے اس کی گرفتاری ڈالی گئی ہے‘ وہ اس میں شامل ہی نہیں۔ اسے تو اس واقعے سے دس بارہ گھنٹے قبل رات کو گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اللہ خوش رکھے پرنسپل صاحب کو‘ انہوں نے بھی یہ گواہی دی کہ جس وقت کالج کے باہر ہنگامہ آرائی ہو رہی تھی خالد وہاں سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ خالد ہمارا پرانا طالب علم ہے اور میں اسے اپنے بچوں کی طرح پہچانتا ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ وہ ماضی میں اس قسم کی طلبہ سرگرمیوں میں بہت سرگرم رہا ہے مگر کم از کم اس بار تو میں گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ نہ صرف یہ کہ موقع پر موجود نہ تھا بلکہ یونیورسٹی میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے کے بجائے سمسٹر کا پرچہ دے کر واپس گھر آیا تھا۔ سو اس سارے واقعے نے ابا جی کو کم از کم یہ ضرور باور کروا دیا کہ میں جس جرم میں پکڑا گیا ہوں اس سے میرا دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یادش بخیر! کیا زمانہ تھا جب طلبہ ملکی سیاست میں ہونے والی اونچ نیچ پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ سڑکوں پر نکلتے تھے۔ جلوس نکالتے تھے اور ان کے رہنما ملکی سیاست میں ہونے والی برائی بھلائی پر گہری نظر رکھتے تھے اور اس میں حتی المقدور اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ طالب علم رہنماؤں کی گراس روٹ لیول پر سیاسی تربیت ہوتی تھی اور ہمارے تعلیمی ادارے ملکی سیاست کیلئے نرسری کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ آج سے چالیس پینتالیس سال پیچھے چلے جائیں تو اسمبلیوں میں ایسے اراکین کی ایک پوری لاٹ دکھائی دیتی ہے جو طلبہ سیاست سے ہوتے ہوئے ہمارے قومی اور صوبائی ایوانوں میں آئے۔ یہ تمام لوگ جو اس پراسیس سے ہو کر ایوانوں میں پہنچے بلاشبہ دیگر ارکانِ اسمبلی کے مقابلے میں کہیں زیادہ متحرک‘ صوتی اظہار پر قادر اور اپنے نظریے کی خاطر بلاجھجھک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی صلاحیت کے حامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو درجہ بہ درجہ قدمچہ بہ قدمچہ اور قدم بہ قدم پارلیمانی سیاست میں داخل ہوئے اور نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ خود کو منوایا بھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی ساری تربیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور اسمبلیوں کے در و دیوار کو اپنی گھن گرج سے ہلاتے رہے۔
طلبہ یونینز پر لگنے والی پابندیوں کے باعث نصاب کے علاوہ پڑھنے کا رواج ختم ہو گیا اور بین الکلیاتی تقریبات کے ختم ہونے سے طلبہ و طالبات کا سٹیج پر چڑھ کر بات کرنے کی تربیت کا ادارہ بھی رخصت ہو گیا۔ اس تربیت کے طفیل سیاسی طور پر شعور اور تجربہ رکھنے والے نوجوان آتے تھے اور آمروں کو للکارنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی پارٹیوں میں جمہوری اقدار کا پرچم بلند کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اب بھی اسمبلیوں میں ماضی کی چند یادگار شخصیات موجود ہیں۔ پھر طلبہ یونینز پر پابندیاں لگ گئیں اور سیاسی پارٹیوں کی لگامیں میاں اور زردار ٹائپ لوگوں کے ہاتھ میں آ گئیں جن کا ذاتی طور پر جمہوریت سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔ انہیں سیاسی غلام زادے اور تابعدار درکار تھے جو انہیں مل گئے۔ اب اسمبلیوں کے حلقے موروثی سیاستدانوں کی اولاد میں اسی طرح تقسیم ہوتے ہیں جیسے ان کی جائیداد وراثت میں ان کی اولاد کو ملتی ہے۔ 1984ء سے 2023ء تک سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ (ختم)