معاشی دیوالیہ پن سے اخلاقی دیوالیہ پن تک

سچ پوچھیں تو اب جدھر بھی نظر دوڑاتے ہیں سوائے افسوس‘ ملال‘ دکھ اور صدمے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ رونا صرف معاشی دیوالیہ پن کا نہیں‘ معاشرتی‘ سماجی اور اخلاقی اقدار تک کا جنازہ نکل چکا ہے لیکن وہی علامہ اقبال والی بات کہ
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
افسوس تو اس بات کا ہے کہ جن لوگوں کو‘ رہنماؤں کو‘ اداروں کو‘ سیاسی لیڈروں کو اور حکمرانوں کو اس بات کا احساس اور ادراک ہونا چاہیے تھا‘ وہ بے فکر ہیں۔ میرا خیال ہے میں غلط کہہ گیا ہوں۔ وہ متفکر تو ہیں مگر صرف اپنی ذات‘ اپنے مستقبل اور اپنی آل اولاد کے بارے میں۔ اس کے علاوہ انہیں کسی چیز کی‘ کسی بات کی‘ ملک کی یا قوم کی رتی برابر فکر نہیں ہے۔ کوئی رہنما‘ حکمران اور سیاسی لیڈر اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر نہیں سوچ رہا۔ ہاں! البتہ گفتگو اور تقریروں کی حد تک ہمارے سیاسی رہنماؤں‘ حکمرانوں اور اداروں کے سربراہوں سے بڑھ کر نہ کوئی شخص محبِ وطن ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی اس ملک و قوم کا ہمدرد اور غم خوار۔ ان کی گفتگو اور تقاریر سے متاثر ہو کر ان کا دم بھرنے والے عام شخص کی زندگی البتہ روز بروز مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
مَلک بنیادی طور پر ایک رجائی شخص ہے اور نہ صرف یہ کہ ہمیشہ مثبت گفتگو کرتا ہے بلکہ کافی محنت اور کوشش کرکے خرابی میں سے بھی اچھائی کا پہلو تلاش کر لیتا ہے اور ممکنہ حد تک پُرسکون رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ بقول اس کے ہم اپنی بہت سی مصیبتوں اور مشکلوں کے خود ذمہ دار ہیں اور اپنی ناآسودہ خواہشات کے غم میں اپنی حاصل شدہ نعمتوں پر نہ تو شکر ادا کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے لطف اندوز ہو پاتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تھوڑے عرصے سے اس کی گفتگو میں وہ امید‘ روشنی اور رجائی پن مفقود ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز ملا تو کہنے لگا: خالد! ایمانداری کی بات ہے کہ میں اب ترکِ وطن تو رہا ایک طرف‘ ترکِ سکونت کرنے کی عمر سے بھی گزر گیا ہوں اور تمہاری ہی طرح ملتان کے علاوہ اب پاکستان کے کسی اور شہر میں جا کر باقی زندگی گزارنے کا بھی نہیں سوچ سکتا کجا کہ پا کستان چھوڑ کر کہیں اور چلا جاؤں مگر ایمانداری کی بات ہے کہ اب اس ملک میں رہنے کا کوئی حال نہیں رہا۔ ہم جیسے لوگوں کا عجب المیہ ہے کہ نہ اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور جا سکتے ہیں اور نہ ہی اب اس ملک میں اطمینان اور سکون سے اپنی بقیہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ چلیں مالی مشکلات کے معاملے میں تو یہ کیا ہے کہ مہینے میں جو ایک آدھ بار ہوٹل جاتے تھے اب وہاں جانا بند کر دیا ہے۔ بکرے کا گوشت کبھی ہمارے گھر مہینے میں بارہ‘ پندرہ دن پکتا تھا‘ اب ہوتے ہوتے دو تین دن تک آن پہنچا ہے۔ مشہور برانڈ کے ڈٹرجنٹ پاؤڈر کی جگہ اب ریلوے روڈ کی ایک دکان سے کھلا پاؤڈر آدھی قیمت میں لے آتا ہوں۔ فی الحال آٹے‘ دال‘ سبزی اور دودھ وغیرہ کا کوئی متبادل تو تلاش نہیں کر سکا مگر ایسی دکانیں ضرور تلاش کر چکا ہوں جہاں یہ چیزیں اچھی کوالٹی اور مناسب قیمت میں دستیاب ہیں مگر اس ملک کی روز افزوں دیوالیہ ہوتی ہوئی اخلاقی‘ سماجی اور معاشرتی اقدار کا کیا کروں؟
عالم یہ ہے کہ اب رشوت‘ ملاوٹ‘ گراں فروشی‘ کمیشن‘ ناانصافی اور اسی قبیل کی دیگر چیزوں کو تقریباً تقریباً قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ سیاست میں وفاداریاں تبدیل کرنا اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہم نے اپنی سیاسی بربادی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ملک گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور اس صورتحال نے ملک کی معاشی کمر توڑ کر رکھ دی ہے مگر ہر دو فریق اپنی اپنی جگہ اقتدار بچانے اور اقتدار کے حصول کی جنگ میں اس بری طرح برسرپیکار ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ ہمارے قومی رہنما ہیں؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں ہم لوگوں نے ملک کی باگ ڈور دے رکھی ہے؟ سیاسی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ ہم نے اپنے کسی تجربے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ کسی سیاسی پارٹی اور اس کے سربراہ نے حصولِ اقتدار کی اس جنگ میں بے اصولی اور کم ظرفی سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا۔ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے خلاف اخلاقی بنیادوں پر تقریریں فرمانے والوں کے چہروں کی چمک اس وقت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب کسی دوسری پارٹی کا کوئی منتخب نمائندہ یا الیکٹ ایبل ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے۔ کل تک لوٹا سازی کے خلاف تقریر کرنے والوں کو جب خود لوٹوں کی ضرورت پڑتی ہے تو اپنی پارٹی میں آنے والے لوٹوں کو نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ ان کو صاحبِ ضمیر جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ کیا اس سیاسی دیوالیہ پن کے موسم میں آزاد جموں و کشمیر کی دیگر دونوں پارٹیاں فارورڈ بلاک نامی دو نمبری کو مسترد نہیں کر سکتی تھیں؟ حصولِ اقتدار کیلئے جاری اخلاقیات سے عاری جنگ کو کہیں ”ڈکا‘‘ نہیں لگایا جا سکتا تھا؟ کیا جمہوریت کے چیمپئن ہونے کے دعویدار بلاول بھٹو اور ووٹ کو عزت دو جیسے بیانیے کی علمبردار مسلم لیگ (ن) اس فارورڈ بلاک کو مسترد کرکے اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور ووٹ کی تکریم کی جانب قدم اٹھا کر کسی اچھی روایت کا آغاز نہیں کر سکتی تھی؟
اخلاقی‘ معاشرتی اور سماجی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی وڈیو یا آڈیو لیک ہوتی ہے۔ ایک پارٹی کے رضاکار اس وڈیو یا آڈیو کا دفاع کرتے ہیں اور دوسری پارٹی کا سوشل میڈیا بریگیڈ اس لیک ہونے والی آڈیو وڈیو پر اخلاقی بھاشن دیتا ہے اور دوسرے فریق پر لعنت ملامت کے تیر چلاتا ہے۔ دو دن نہیں گزرتے اور ایک نئی آڈیو یا وڈیو آ جاتی ہے اور یہ تماش بین قوم پہلی وڈیو کو بھول کر دوسری پر توجہ فرما دیتی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ کوئی پارٹی اپنی چارپائی کے نیچے ”ڈنگوری‘‘ پھیرنے پر تیار نہیں جبکہ دوسروں کے کپڑے اتارنے میں بھی رتی برابر عار محسوس نہیں کرتی۔
اب یہ صورتحال ہے کہ قوم پر نہ کسی آڈیو کا اثر ہو رہا ہے اور نہ کسی وڈیو کا۔ اگر ایک پارٹی کے لیڈر کی وڈیو ہے تو اس کے چاہنے والوں پر اس کا بال برابر اثر نہیں ہوتا اور یہی حال دوسری پارٹی کا ہے۔ یعنی اگر یہ آڈیو یا وڈیو میری پارٹی کے کسی لیڈر سے متعلق ہے تو پھر یہ سو فیصد غلط ہے‘ ایڈٹ شدہ ہے‘ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا کارنامہ ہے یا پھر اگر سچ بھی ہے تو کیا ہوا؟ لیک شدہ آڈیو یا وڈیو جس کے بارے میں ہوتی ہے اس کا مؤقف ہوتا ہے کسی کی نجی گفتگو یا نجی زندگی کی ریکارڈنگ کرنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہ غیراخلاقی اور غیرقانونی حرکت ہے مگر اخلاقیات اور قانون اس گفتگو یا اخلاق یافتہ حرکات کے بارے میں کیا کہتا ہے جو ان آڈیو/ وڈیو میں ہوتی ہیں؟ اب حالیہ آڈیوز کا زور ہمارے سابقہ زوردار چیف جسٹس ثاقب نثار پر ہے اور جج صاحب ان آڈیوز کو چوری شدہ مواد (ٹیپ شدہ گفتگو) کہہ کر غیرقانونی اور غیراخلاقی قرار دے رہے ہیں۔ بندہ پوچھے ٹیپ کرنا تو غلط ہے لیکن آپ کی اور آپ کے بیٹے کی مبینہ حرکات کس اعلیٰ اخلاقی درجے پر فائز کی جا سکتی ہیں؟ جناب جج صاحب اچھی بھلی متنازع قسم کی چیف جسٹسی کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے تھے اور لوگ ان کی پولی پولی ڈھولکی بجا رہے تھے۔ مگر ٹکٹوں کی مبینہ فروخت والی آڈیو سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ باعزت ریٹائرمنٹ بھی کسی کسی کو ہی نصیب کرتا ہے‘ مگر بعض لوگ ذاتی طور پر خاصی محنت کرکے بدنامی مول لیتے ہیں۔
بقول ملک صاحب: جب کسی ملک میں اس قسم کی آڈیوز اور ویوڈز کو بھی حامی مل جائیں اور قوم پر ان کا کسی قسم کا اثر نہ ہو تو سمجھ لیں کہ قوم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے۔ ایسی بری صورتحال میں بندہ مایوس اور دلگرفتہ نہ ہو تو بھلا اور کیا کرے؟