معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
’’کرپٹ ‘‘سیاستدانوں میں اضافہ؟
سابق وزیراعظم عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں الیکشن کمیشن کے پانچ ارکان نے نااہل قرار دے دیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک رکن ڈینگی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اسلام آباد نہیں پہنچ سکے‘ سو فیصلے پر ان کے دستخط موجود نہیں تھے۔ فیصلہ سنا تو دیا گیا لیکن اسے پورے کا پورا جاری نہیں کیا گیا۔ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے لیکن الیکشن کمیشن نے خان صاحب کو ”کرپٹ‘‘ ،”دروغ گو‘‘ اور حقائق کو چھپانے کا مرتکب قرار دے کر پاکستانی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا ہے۔
عمران خان کے خلاف یہ ریفرنس ان کے چند مخالف ارکانِ پارلیمنٹ نے سپیکر کو پیش کیا تھا جسے انہوں نے من و عن الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیا‘ اس نے کئی سماعتوں کے بعد اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقا گزشتہ کچھ عرصہ سے چیف الیکشن کمشنر کو نشانے پر رکھے ہوئے تھے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عمران خان کی رضا مندی سے عمل میں آیا تھا‘ انہوں نے وزیراعظم کے طور پر اس کی منظوری دی تھی اور ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے تھے لیکن بعدازاں اس تقرری کی ذمہ داری ”کسی اور‘‘ پر ڈال کر اپنے آپ کو سبکدوش کر لیا۔اس دوران تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی آیا جس کے تحت کارروائیاں جاری ہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ بالآخر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ خان صاحب کی نااہلی کے تازہ اعلان نے ان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے‘ ان کے مخالف ان پر چڑھ دوڑے ہیں اور اس بات پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ وہ ”کرپٹ‘‘ثابت ہو گئے ہیں۔ انہوں نے توشہ خانہ سے تحائف تو خریدے لیکن الیکشن کمیشن کو پیش کردہ گوشواروں میں ظاہر نہیں کئے‘ ان کے خلاف وہ موٹے موٹے الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں جو وہ اپنے مخالفوں کے خلاف کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز سے لے کر بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن تک بیک زبان انہیں ‘چور‘ قرار دے کر دل ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ ان کے پُرجوش مداحوں نے ”مقبول ترین‘‘ لیڈر پر اس حملے کو مخالفین کی کمزوری قرار دیا کہ وہ سیاسی میدان میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ اس لئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آئین اور قانون کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے اعلامیے کا جائزہ لیا جائے تو نواز شریف اور خان صاحب ایک ہی صف میں کھڑے نظر نہیں آتے۔ اول الذکرکے خلاف سپریم کورٹ نے براہ راست کارروائی کی تھی اور انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی یوں ہوتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی۔ قانونی ماہرین کی بڑی تعداد یہ رائے رکھتی ہے کہ سپریم کورٹ کو شخصی طور پر کسی کے خلاف براہِ راست کارروائی اس لئے نہیں کرنی چاہیے کہ اسے اپیل کا حق حاصل نہیں ہوتا‘ جس مقدمے میں ملزم کو اپیل کا حق نہ مل سکے‘ اسے انصاف کے ارفع اصولوں کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ نوازشریف کے خلاف جو فیصلہ آیا‘ اس کی بنیاد بھی تکنیکی تھی‘ اپنے بیٹے کی کمپنی میں ڈائریکٹرشپ کی تنخواہ کو گوشواروں میں ظاہر نہ کئے جانے کی بنیاد پر انہیں ”بدعنوان‘‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انہوں نے یہ پیسے وصول بھی نہیں کئے تھے‘ صرف کمپنی کے حسابات میں وہ واجب الادا تھے۔ نوازشریف کی تاحیات نااہلی کو کافی نہ سمجھ کر بعدازاں چیف جسٹس ثاقب نثار نے پارٹی کی قیادت کے حق سے بھی انہیں محروم کر دیا۔عمران خان کے خلاف جو فیصلہ آیا‘ اس کی نوعیت بھی تکنیکی ہے‘ ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس کے گوشواروں میں انہوں نے توشہ خانہ سے خرید کردہ تحائف کو ظاہر کر دیا تھا لیکن الیکشن کمیشن کے سامنے یہ ظاہر نہیں کئے گئے‘ اس لئے عمران خان کو ”کرپٹ‘‘ اور ”دروغ گو‘‘ قرار دے کر نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس نااہلی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ فیصلہ ابتدائی ہے‘ انتہائی نہیں۔ مزید دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ خان صاحب کو عمر بھر کیلئے نااہل قرار دیا گیا ہے نہ پانچ سال کیلئے۔ ان کی نااہلی الیکشن ایکٹ کی جس دفعہ کے تحت عمل میں آئی ہے وہ صرف موجودہ قومی اسمبلی کی مدت تک کیلئے ہے۔ گویا‘ وہ قومی اسمبلی کی اس نشست سے محروم ہو جائیں گے جس سے وہ پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف عدالتی کارروائی کی ہدایت بھی کی ہے جس کے مطابق ان پر مقدمہ درج کرکے سیشن کورٹ کو بھجوا دیا جائے گا جو ایک مقررہ مدت (غالباً چار ماہ) میں فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا‘ ان کے خلاف جرم ثابت ہونے پر تین سال قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکے گی‘ اس فیصلے کے خلاف بھی ہائی کورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔
قانونی طور پر عمران خان کی سیاست کے راستے میں کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ کھڑی نظر نہیں آ رہی ‘ اس فیصلے کے اثرات نفسیاتی اور سیاسی زیادہ ہوں گے کہ خان صاحب کے مخالفین ان کو وہی کچھ کہہ سکیں جو وہ ان کو کہتے چلے آ رہے ہیں‘ گویا ”کرپٹ سیاستدانوں‘‘ کے کلب میں ان کیلئے نشست محفوظ ہو جائے گی۔ یہ صورتحال بھی کوئی پسندیدہ نہیں ہے۔ چار سال پیشتر نواز شریف کو نااہل قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا تھا‘ خان صاحب بھی زور لگانے والوں میں شامل تھے‘ عدالت کے ذریعے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی بھی ہوگئی تھی اور ان کیلئے 2018ء کا انتخابی میدان صاف ہو گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ان کی حکومت قائم ہوئی۔ عمران خان کے مخالف ان کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں‘ اس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ کیا آئے گا‘ یہ کہنا مشکل ہے۔ فی الحال تو وہ قابو نہیں آ رہے۔ کاش ہمارے اہلِ سیاست ایک دوسرے کو میدان سے نکال باہر کرنے کے بجائے کھلے دل سے کھلا مقابلہ کرنے کی عادت اپنائیں۔ عوام کو فیصلے کرنے دیں۔ تاریخ کسی غلطی کو ہزار بار بھی دہرا لے‘ غلطی‘ غلطی ہی رہے گی‘ دہراتے چلے جانے سے گالی پھول نہیں بن سکتی۔
پوٹھوہار ‘ خطۂ دلربا
ڈاکٹر شاہد صدیقی انگریزی کے استاد ہیں۔ عمر انگریزی پڑھتے اور پڑھاتے گزری۔ قومی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے اسناد حاصل کیں یا یہ کہیے کہ دنیا بھر میں دھاک بٹھائی اور پھر خود کو پاکستان کیلئے وقف کر دیا۔ مختلف جامعات سے وابستہ رہے‘ علامہ اقبال یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور اب لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پانچ سال پہلے اردو صحافت کے کوچے میں قدم رکھا تھا۔ روزنامہ ”دنیا‘‘ انہیں یہاں کھینچ لایا تھا‘ سو وہ آئے اور چھاتے چلے گئے۔ڈاکٹر صاحب براہ راست سیاسی معاملات پر قلم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں‘سماجی‘ تعلیمی اور تاریخی موضوعات انہیں عزیز ہیں۔خطۂ پوٹھوہار‘ ان کا مسکن ہے اور محبوب بھی۔ انہوں نے اس کی تاریخ‘ سماج‘مقامات اور شخصیات کا تذکرہ اس دلآویز انداز میں کیا ہے کہ پڑھنے والوں کے دل میں وہیں جا بسنے کا شوق پیدا ہو ہو جاتا ہے۔ ان کے کالموں کا اولین مجموعہ رنگارنگ پھولوں کا گلدستہ ہے کہ ایک مربوط کتاب کی شکل میں مہک رہا ہے۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کے فاضل وائس چانسلر ڈاکٹر طلعت نصیرپاشا کے زیر اہتمام اس کی تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی‘ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اردو کالم نگاری کو نئی وسعت اور رفعت سے آشنا کیا ہے۔ کالم نگار ان کے زندہ الفاظ اور افکار سے استفادہ کرکے دل میں اترنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔