اندرا گا ندھی‘ بینظیر بھٹو اور عمران خان … (6)

اندرا گاندھی کی سنسنی خیز کہانی کو اب یہیں روکتے ہیں۔ ایک ایسی شرمیلی لڑکی‘ جس کے اندر بچپن میں اپنی ماں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو دیکھ کر عجیب سی سرد مہری اور انتقام کے جذبات نے سر اٹھایا تھا اور جس نے اپنی ماں کے دکھوں کا بدلہ آنے والے دنوں میں سب بھارتیوں سے لیا۔ اب ذرا ہم پاکستان کی طرف لوٹتے ہیں۔ انسانی مزاج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیسے کچھ لوگ ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں یا خود کو زیادہ ذہین اور چالاک سمجھ کر گاڈ فادر کا رول اختیار کر لیتے ہیں۔ اندرا‘ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ جنہوں نے انہیں ناسمجھ جان کر ان کے سر پر ہاتھ رکھا کہ یہ بچہ جمورا بن کر رہیں گے اور ہم پیچھے سے ان کی ڈوریاں ہلائیں گے‘ وہی سب سے زیادہ ان کے انتقام کا نشانہ بنے۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ تو احسان فراموشی تھی کہ جنہوں نے ان لیڈروں کو اقتدار دلوایا‘ وہی ان کا نشانہ بنے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو کے سیاسی انکلز بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ تو کل کی لڑکی ہے‘ اسے سیاست اور اقتدار کی غلام گردشوں کی کیا خبر‘ ہم سب سیاسی داؤ پیچ جانتے ہیں‘ ہم حکومت چلائیں گے۔ بینظیر بھٹو جب وزیراعظم بن رہی تھیں تو جنرل اسلم بیگ نے‘ انہیں اپنے گھر کھانے پر بلا کر اپنے تئیں ان کا گاڈ فارر بننے کی کوشش کی۔ لیکن بینظیر بھٹو کو علم تھا کہ اقتدار میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا۔ مسٹر بیگ چاہتے تھے کہ بینظیر بھٹو اچھے بچے کی طرح ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کریں۔ وہ ایسے بہت سارے کام کررہے تھے جس کا بینظیر بھٹو تک کو پتا نہ تھا کیونکہ بیگ صاحب خود کو وزیراعظم کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے بینظیر بھٹو کو یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ بنائے رکھنے پر مجبور کیا جیسے اندرا گاندھی کو کانگریس کی سنڈیکیٹ یا کانگریس کے صدر نے مجبور کیا تھا کہ وہ وزیر داخلہ کو نہ ہٹائے بلکہ وزیراعظم شاستری کی پوری کابینہ کو نہ چھیڑے۔ اندرا نے بھی موقع کا انتظار کیا اور جونہی غذائی بحران کی وجہ سے فسادات شروع ہوئے‘ اسے برطرف کر دیا۔ اندرا اور بینظیر بھٹو کو شروع میں اندازہ تھا کہ وہ اس وقت کمزور پوزیشن میں ہیں اور طاقتور لوگوں سے ٹکر نہیں لے سکتیں۔ اس لیے انہوں نے انتظار کیا۔ جنرل اسلم بیگ تو یہاں تک حکومتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے کہ جب بینظیر بھٹو راجیو گاندھی کے قتل کے بعد تعزیت کرنے دہلی گئیں تو وہاں ان کی ملاقات اندر کمار گجرال سے ہوئی تھی۔ اندر کمار گجرال نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بینظیر بھٹو نے 1989ء میں ہونے والی فوجی مشقوں کے دوران اپنے وزیرخارجہ یعقوب علی خان کے ہاتھ بھارت پر نیوکلیئر بم مارنے کا پیغام بھیجا تھا۔ بینظیر بھٹو ششدر رہ گئیں کہ بھلا وہ کیسے ایسا کہہ سکتی تھیں۔ بعد ازاں پتا چلا کہ یہ اسلم بیگ تھے‘ مبینہ طور پر جنہوں نے یعقوب علی خان کو کہا تھا کہ وہ بھارتی وزیرخارجہ کو وزیراعظم پاکستان کا یہ پیغام پہنچائیں۔
بینظیر بھٹو کو احساس ہوا کہ اصل حکومت تو بیگ صاحب چلا رہے تھے۔ پھر جب بینظیر بھٹو نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی تو انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ بینظیر بھٹو اس وقت تک اِندرا کی طرح پاورفل سرکل کو منظور تھیں جب تک وہ ان کی مرضی پر چلتی رہیں۔ جب انہوں نے روٹ بدلا تو انہی قوتوں نے انہیں اقتدار سے باہر کر دیا جو اقتدار میں لائی تھیں۔ نواز شریف کی کہانی بھی یہی تھی کہ جنرل اسلم بیگ انہیں ناسمجھ جان کر لائے تھے کہ بھٹو خاندان کے خلاف پنجاب میں انہیں ایسا بندہ چاہیے تھا جو بھٹو کی کرشماتی شخصیت کا توڑ کر سکتا۔ نواز شریف بھی اندرا گاندھی کی طرح انتظار کرتے رہے کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ انہی سے ٹکرا جائیں جو انہیں اقتدار میں لائے تھے۔ جنرل اسلم بیگ کا ماننا تھا کہ وہ نواز شریف کو آگے لا کر خود کنگ میکر بنے رہیں گے اور ممکن ہے انہیں توسیع مل جائے۔ شنید ہے کہ جنرل اسلم بیگ آخری دنوں میں مارشل لا لگانے کی پلاننگ کررہے تھے۔ پھر میجر عامر کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی کہ اگر ان کا ڈنک نکالنا ہے تو تین‘ چار ماہ پہلے ہی نیا چیف مقرر کر دیں‘ پوری فوج نئے چیف کی طرف دیکھے گی اور اسلم بیگ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ وہی ہوا‘ نئے آرمی چیف جنرل آصف نواز کی تقرری کے اعلان کے ساتھ ہی ہواؤں کا رخ بدل گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل آصف نواز خود کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں انہیں کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے کیونکہ ابھی چیف تو بیگ صاحب ہی تھے۔ انہیں تسلیاں دینے والے بھی میجر عامر تھے کہ اب وہ نئے چیف ہیں اور پوری فوج ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اسلم بیگ کوئی ایسا حکم دیں گے تو بھی تو کوئی نہیں مانے گا۔ پھر صدر اسحاق خان نے بھی نواز شریف کو بچہ اور ناسمجھ جان کر ان کا گاڈ فادر بننے کی کوشش کی جیسے بیگ صاحب کر رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد ہی نواز شریف کے جنرل بیگ اور صدر اسحاق کے ساتھ ایسے اختلافات پیدا ہوئے کہ تینوں منظر سے غائب ہو گئے اور بینظیر بھٹو کا راستہ صاف ہو گیا۔ نواز شریف بھی اندرا گاندھی کی طرح چند ماہ میں سیاسی طور پر بالغ ہو گئے اور ان سب سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں کو چیلنج کیا جو انہیں بے ضرر سمجھ کر لائی تھیں۔
عمران خان کی کہانی تو ابھی زیادہ پرانی نہیں بلکہ ابھی چل رہی ہے کہ کیسے یہ منصوبہ بنا کہ عمران خان بھولا اور ناسمجھ ہے‘ اسے ابھی دنیا کی ہوا نہیں لگی‘ یہ کھلنڈرا عوام میں مشہور ہے‘ پاپولر ہے لہٰذا قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید نے اپنے تئیں عمران خان کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان بھی بڑی کامیابی سے وہی اداکاری کرتے رہے جو کبھی اِندرا نے کی تھی۔ قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کو عمران سے کچھ اپنے کام لینا تھے اور عمران خان نے وزیراعظم بن کر شریفوں اور زرداریوں سے اپنے پرانے بدلے چکانے تھے لہٰذا وہ ایک دوسرے کو سُوٹ کررہے تھے۔ سب راج نیتی کا کھیل تھا۔ باجوہ صاحب نے توسیع لی اور فیض حمید نے آرمی چیف بننا تھا لیکن جب فیض حمید کے آرمی چیف بننے کے دن قریب آئے تو باجوہ صاحب کا موڈ بدل چکا تھا اور یہیں سے عمران خان کو کھڑا ہونے کا موقع ملا۔ خان کے حساب کتاب کے مطابق وہ فیض حمید کے آرمی چیف بنتے ہی وہ خود کو 2028ء تک وزیراعظم دیکھ رہے تھے لیکن جب جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی کی پوسٹ سے ہٹایا گیا تو عمران خان نے پہلی دفعہ اس طرح سٹینڈ لیا جیسے اندرا گاندھی نے کانگریس پارٹی کے خلاف لیا تھا۔ عمران خان‘ جہانگیر ترین اور علیم خان کو بھی یہی تاثر دیتے رہے کہ وہ ان کی جیب کا سکہ تھے۔ یہی تاثر بڑی کامیابی سے عمران خان نے جنرل باجوہ کو بھی دیے رکھا لیکن ایک دن ہر حکمران کی زندگی میں آتا ہے جب وہ مزید بچہ جمورا بن کر نہیں رہ سکتا۔ وہ انہی کے خلاف بغاوت کرتا ہے جو اسے بچہ سمجھ کر لاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔ اگر آپ اندرا‘ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان کی سیاست اور پھر وزیراعظم بننے کی کہانی کو غور سے سمجھیں تو سب کڑیاں آپ کو ملتی نظر آئیں گی کہ طاقت حاصل کرنے سے پہلے سیاستدان کیسے ہوتے ہیں اور جونہی انہیں پاور ملتی ہے تو وہ انہیں بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اسی پاور نے نواز شریف کو بدلا‘ بینظیر بھٹو کو بدلا اور عمران خان کو بدلا جس کی کہانی آج کل آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن جس انداز میں پاور نے اندرا گاندھی کو بدلا تھا اور اس نے بھارت کے بڑے بڑے سیاسی جگادریوں کے کڑاکے نکال کر رکھ دیے تھے، وہ سننی خیز کہانی پھر کبھی سہی۔ (ختم)