جسٹس اطہر من اللہ کا نوٹ

ایک فقرہ اکثر استعمال ہوتا ہے ‘فلاں بندے کو دشمن کی ضرورت نہیں ‘وہ خود کو تباہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بات مجھے جمعہ والے دن کے دو اہم واقعات سے سمجھ میں آرہی ہے کہ ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے خواہ مخواہ بھارت کو دشمن بنائے رکھا۔ بھارتیوں کو لگتا ہے اب عقل آئی ہے کہ پاکستان سے دشمنی کے چکر میں وہ بھی وقت اور وسائل ضائع کرتے رہے ہیں۔ آپ نوٹ کریں جب پاکستان بدترین حالات سے گزر رہا ہے تو انڈیا کی طرف سے پاکستانی سرحدوں پر کوئی شرارت نہیں کی جا رہی۔ ایک سال سے اوپر گزر گیا ہے کبھی نہیں سنا کہ ایک گولی بھی لائن آف کنٹرول پر چلی ہو۔ اس سے پہلے اتنا طویل سکون پرویز مشرف کے دور میں آیا تھا جب وزیراعظم واجپائی اسلام آباد تشریف لائے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نے ایک پازیٹو ٹرن لیا اورتین چار برس اچھے گزر گئے۔اور اب ایک سال سے بارڈر پر سکون ہے۔ بھارت کو بھی اب سمجھ آئی ہے کہ پاکستان سے دبائو ہٹا لیں‘یہ لوگ خودکفیل ہیں خود کو تباہ کرنے کیلئے۔
میں دراصل دو چیزیں پڑھ کر ڈپریس ہوا ہوں۔ پہلے جسٹس اطہر من اللہ صاحب کا پنجاب الیکشن سوموٹو پر 25 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ اور پھر شام کو نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد کا پریس نوٹ ۔ان دونوں کو ملا کر پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمیں دشمن کی ضرورت کیوں نہیں ہے۔جسٹس اطہر من اللہ ان ججز میں سے ایک ہیں جنہوں نے ہیومن رائٹس ایشوز پر ریاست یا ریاستی اداروں کے ہاتھوں شکار لوگوں کو تحفظ اور ریلیف دیا۔ جتنے ریلیف جسٹس اطہر من اللہ کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے صحافیوں‘سوشل میڈیا ایکٹوِسٹس اور حکومتوں کے سیاسی مخالفین کو ملے ‘ شاید ہی کسی اور عدالت سے ملے ہوں۔ہمارے پیارے شہید ارشد شریف کے خلاف جب ریاستی ادارے روزانہ ایف آئی آرز درج کرارہے تھے تاکہ اسے سزا دی جائے تو یہی جسٹس اطہر من اللہ تھے جنہوں نے ارشد شریف کو ایجنسیوں‘ تھانہ کچہری اور جیل جانے سے کئی بار بچایا۔ارشد شریف کی کئی مقدمات میں عبوری ضمانت لی‘اسے حراست اور تشدد سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ارشد شریف پرماضی میں بھی مقدمے ہوئے تھے تب بھی جسٹس اطہر من اللہ نے اسے ہر دفعہ ضمانت دے کر بچایا تھا۔ اطہر من اللہ نے کئی صحافیوں کو اسی طرح بچایا تھا۔اس لیے میرے دل میں ان کی بہت عزت ہے۔اب جو نوٹ انہوں نے لکھا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔
انہوں نے جو بہادرانہ کام کیا ہے وہ سپریم کورٹ اور برادر ججز پرسخت کمنڑی ہے جو یقینا بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آئے گی‘ لیکن آپ یہ تسلیم کریں گے کہ جوباتیں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھی ہیں وہ بڑی حد تک درست ہیں خصوصا ًعدلیہ کے ماضی میں بھٹو جیسے پھانسی کے فیصلے ہوں یا پھر بارہ اکتوبر جیسی فوجی بغاوتیں جنہیں عدالتوں نے کور فراہم کیا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کے سپریم کورٹ میں لائے گئے سیاسی مقدمات نے عدالت اور ججوں کے امیج کو ہرٹ کیا۔ان کا کہنا ہے کہ اس سیاسی کھیل میں ”لُوزر‘‘ سپریم کورٹ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ججز نے ”سیاسی کپڑے‘‘پہن رکھے ہیں۔یوں لوگوں کا اعتماد عدلیہ پر کم ہوا یا ججز نے موقع دیا کہ انگلیاں اٹھائی جائیں۔
یہ بات آپ کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ سیاستدانوں نے پارلیمنٹ میں اپنی لڑائی لڑنے کے بجائے بندوق ججوں کے کندھے پر رکھ کر چلائی تاکہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے جائیں۔ سیاستدانوں نے اس فورم کو استعمال نہیں کیا جو اِن کیلئے بنایا گیا تھا‘ مطلب قومی اسمبلی‘ سینیٹ یا صوبائی اسمبلی۔ الٹا اسمبلیاں توڑ کر وہ سپریم کورٹ پہنچ گئے اور ججوں نے بھی ان کی خواہشات کا احترام کیا اور یوں سیاست میں گھستے چلے گئے‘ جسکے نتیجے میں عدالت اتنا نقصان اٹھا چکی ہے جس کا ازالہ شاید ممکن نہ ہو۔ یوں ان سیاسی مقدمات کی لڑائی میں جہاں عدالت تنازعات کا شکار ہوئی وہیں ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا اور معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ وہ صفحات پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کیسے سیاستدانوں‘ فوجی حکمرانوں اور ججز کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جس میں اس وقت پاکستان پھنس چکا ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ سیاستدان بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور ساتھ ملک اور قوم کو بھی ناکام کیا ہے۔
ان حکمرانوں کو حکومت بنانے اور چلانے کیلئے جرنیلوں اور ججوں کی ضرورت تھی۔ان میں سے کوئی ایک بھی نہ تھا جو اقتدار پانے کیلئے ان کے کندھے استعمال نہ کرتا۔اب بھی وہی لڑائی چل رہی ہے کہ مقتدرہ میرے مخالف کیساتھ کیوں ہے‘ میرے ساتھ کیوں نہیں۔ یقینا عمران خان کے حامی جسٹس اطہر من اللہ کے اس نوٹ پر خوش نہیں ہوں گے کیونکہ جسٹس صاحب نے پی ٹی آئی کی سیاست اور عدلیہ کے استعمال کو بڑی باریک بینی سے ڈسکس کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیسے ان برسوں میں عدلیہ اپنا احترام لوگوں کی نظروں میں کھو بیٹھی ہے۔اگرچہ بہت سے لوگ اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کریں گے کہ سپریم کورٹ کو سیاسی نوعیت کے مقدمات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں اسلئے بنائی جاتی ہیں کہ وہ ایسے مقدمات سنیں‘ فیصلے دیں نہ کہ فیصلے کرنے سے گھبرائیں کہ عدالت متنازع ہو جائے گی۔
سیاستدانوں بارے کہا جاتا ہے کہ ان کی کھال موٹی ہو جاتی ہے۔ ان پر تنقید ہو یا ان کے خلاف ٹرینڈ چلیں یا ٹاک شوز میں کوئی بات خلاف کر دے تو ان کو رات کی نیند کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ اگلے دن وہ پھر ہنستے مسکراتے ملیں گے لیکن ایک جج یا عدالت یہ سب کچھ افورڈ نہیں کرسکتی کہ کوئی ایک انگلی بھی ان کی طرف اُٹھے۔مجھے یاد پڑتا ہے امریکہ سے ایک کتاب خریدی تھی جس میں امریکن تاریخ کے اہم مقدموں کی تفصیلات تھیں۔ ان میں ایک باب اس نظریۂ انصاف پر بھی تھا کہ بے شک عدالت سے ننانوے گناہگار یا مجرم چھوٹ جائیں لیکن کسی ایک بے قصور کو سزا نہیں ملنی چاہئے۔ اس مقدمے میں جو دلائل دیے گئے تھے وہاں سے یہ جملہ مقبول ہوا تھا کہ بے گناہ کو کبھی بھی سزا نہ دیں چاہے آپ کو ننانوے مجرم آزاد کرنے پڑیں۔ اس تصورِ انصاف کے پیچھے فلاسفی بہت اہم تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرہ کے لوگ اپنی ریاست اور عدالتوں پر یقین رکھتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے کسی بے گناہ کو پھانسی نہیں لگے گی۔ اگر اس نے جرم نہیں کیا تو وہ محفوظ ہے۔ اس قانون کے تصور کے مطابق عام لوگوں کا بھروسا یا یقین نہیں ٹوٹنا چاہئے۔ لوگ اس بات کو ہضم کر لیتے ہیں کہ کوئی گناہگار مجرم یا قصور وار سزا سے بچ گیا‘لیکن اگر انہیں پتہ چلے ایک بے قصور اور بے گناہ کو پھانسی لگا دیا گیا تو ان کا سارا بھروسا اور یقین ایسا ٹوٹے گا کہ سماج بکھر جائے گا‘لہٰذا سب لوگوں کااعتماد جیتنا عدالتوں اور ججوں کیلئے ضروری ہے کہ کوئی بندہ یہ نہ سوچ پائے کہ عدالتیں بے قصور کو بھی سزا دے سکتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا نوٹ پڑھیں تو لگے گا کہ سارا فوکس اس بات پر ہے کہ سیاسی مقدمات اور فیصلوں میں سیاسی اپروچ نے ان سب کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کو سزا دلوانے کیلئے یہی کام نواز شریف اور سیف الرحمن نے کرایا تھا جس سے عدالتوں کا امیج ہرٹ ہوا۔جواہمیت اور کوریج سیاسی مقدمات اور جج صاحبان کو میڈیا یا دیگر فورمز پر ملتی ہے وہ دوردراز کے پراپرٹی مقدمے پر نہیں ملے گی‘ لہٰذا شاید عدالتیں اس لیے بھی زیادہ سوموٹو لیتی رہی ہیں۔ برسوں سے یہ کھیل چل ہے اس لیے جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ چند لوگوں کے سیاسی مفادات کے اس کھیل میں سپریم کورٹ اور ججوں کو کیا ملا ؟ آج سب انگلیاں عدالت کی طرف اُٹھ گئی ہیں۔