خان کا پلڑا اب بھی بھاری ہے

آج کل سوشل میڈیا پر سابق وزیراعظم عمران خان کا ایک چار سال پرانا وڈیو کلپ چل رہا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے پاس بڑی تجربہ کار ٹیم ہے اور وہ اقتدار میں آکر ملک کو یکدم اوپر اُٹھا دیں گے۔ ایک اور کلپ میں کہہ رہے ہیں کہ شکر ہے ہمیں 2013ء میں اقتدار نہیں ملا‘ ہماری تو تیاری نہ تھی۔ پھر جب اقتدار ملا تو ایک اور کلپ میں کہہ رہے ہیں کہ مجھے تو اندازہ نہ تھا کہ کتنی مشکلات ہیں۔ ہم تو تیار ہی نہ تھے۔ اب 2022ء میں شوکت ترین کو وہی باتیں کہہ رہے ہیں جو 2018ء میں کہی تھیں۔
لوگ ان باتوں کا مذاق اُڑا رہے ہیں کہ خان صاحب یہ وعدے اور دعوے تو کرتے ہیں کہ میں فلاں کام کر دوں گا‘ میں ایسا کر دوں گا ویسا کر دوں گے۔ لیکن عملاً جب اقتدار ملا تو وہ اپنے وعدوں اور دعووں کے مطابق کچھ نہ کر سکے۔ وہ کہتے تھے کہ فلاں ملک کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے‘ خود وزیراعظم بنے تو ہیلی کاپٹر سے نہیں اترے بلکہ اب تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عمران خان کی سکیورٹی پر ہر ماہ دو کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ مطلب سال کا چوبیس کروڑ۔ اگرچہ شریف خاندان سکیورٹی کے کام میں سب سے زیادہ نمبرز لے گیا تھا جب بات سالانہ اربوں روپوں تک جا پہنچتی تھی کیونکہ چار چار گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کرکے خاندان کے تقریباً ہر بندے کو سکیورٹی‘ پروٹوکول‘ گاڑیاں اور پولیس گارڈز ملے ہوئے تھے جس کا سارا خرچہ پنجاب اور وفاقی حکومت کے بجٹ سے ادا ہو رہا تھا۔ اسلام آباد میں سارک کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر چالیس لگژری بلٹ پروف گاڑیاں منگوائی گئیں کہ سارک مہمانوں کے لیے ضرورت ہے‘ حالانکہ انہیں پتا تھا سارک کا اجلاس خطرے میں تھا کیونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اسلام آباد نہیں آنا تھا اور کانفرنس نہیں ہونی تھی۔ وہی ہوا اور گاڑیاں شریف خاندان کے چند افراد نے سکیورٹی اور پروٹوکول کے نام پر بانٹ لیں۔ بعد میں جب حکومت گئی تو نیب کی مدد سے وہ گاڑیاں ریکور کرائی گئیں۔
ہر ماہ دو کروڑ کا صرف عمران خان کا خرچہ ہے۔ اگر دیگر لیڈروں اور سیاستدانوں کی سکیورٹی اور پروٹوکول کا پورا خرچہ نکالا جائے تو پتا چلے گا کہ پاکستانی عوام جو کچھ کما کر ٹیکس کی شکل میں حکومتِ پاکستان کے خزانے میں جمع کراتے ہیں وہ سارا ہمارے ان لیڈروں کی سکیورٹی‘ پروٹوکول اور عیاشیوں پر خرچ ہورہا ہے۔ ایک طرف روزانہ پٹرول ڈیزل اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف روزانہ شہباز شریف کوئی نہ کوئی نیا مشیر رکھ لیتے ہیں۔ ایک مشیر لاکھوں میں پڑتا ہے لیکن شہباز شریف یا ان کے اتحادیوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پاکستانی قوم بنیادی طور پر بڑھک مار اور رنگ باز لیڈرز کو پسند کرتی ہے۔ جو سیدھی اور عام بات کرے‘ عقل اور سمجھ کی بات کرے یا پھر جھوٹ اوربڑھکوں سے کام نہ چلائے تو یہ قوم اسے عام سا بندہ سمجھتی ہے‘ جب تک کوئی لیڈر پنجابی فلموں کے لیجنڈری کردار مظہر شاہ کی طرح بڑھک مار کر پورے سینما ہال کو سر پر نہیں اٹھا لیتا اسے کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اگر آپ عمران خان کا عروج دیکھیں تو وہ جب تک عقل اور سمجھ کی باتیں کرتے رہے تو انہیں زیادہ توجہ نہ ملی۔ عوام ان کے فین ضرور تھے اور انہیں ایماندار بھی سمجھتے تھے لیکن اپنی قسمت ان کے ہاتھ میں دینے کو تیار نہ تھے۔ اس لیے عمران خان کو ان کے خاص ہمدردوں نے دو باتیں سکھائیں۔ نمبر ایک یہ کہ عام لوگوں کو ٹکٹ دے کر حکمران بنانے کا جنون ختم کریں کیونکہ عام لوگ لیڈروں کے نعرے مارنے کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ اٹھا کر انہیں سر پر بٹھا لیا جائے۔آپ اُن لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیں جو الیکشن جیت سکیں۔ دوسرا انہیں یہ مشورہ دیا گیا کہ رنگ بازی اور بڑھکوں کے بغیر عوام آپ کے پیچھے نہیں آئیں گے۔ آپ کو بڑا ایڈوانٹیج یہ ہے آپ ابھی تک وزیراعظم نہیں بنے لہٰذا آپ کی ایمانداری اور قابلیت کا بھرم ابھی باقی ہے۔ جبکہ شریف اور زرداری دو دو تین تین دفعہ اپنی باریاں لے چکے اور بہت بدنام ہوچکے۔ یوں خان صاحب نے چن چن کر الیکٹ ایبلز ساتھ ملائے اور ساتھ ہی عوام کو وہ خواب دکھائے کہ انہیں لگا اگر خان صاحب وزیراعظم بن گئے تو دنیا کے درجن بھر ملکوں کی خصوصیات صرف اکیلے پاکستان میں اکٹھی ہو جائیں گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اب خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم نئی معاشی ٹیم تیار کررہے ہیں جو اگلی دفعہ ملک میں ایسا انقلاب لائے گی جو کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ اور ان کے بقول اس معاشی انقلاب کی قیادت شوکت ترین کے ہاتھ میں ہوگی جو پچھلے دنوں آئی ایم ایف کی ڈیل رکوانے کے لیے پاکستانی ریاست تک کو داؤ پر لگانے پر تل گئے تھے۔
عمران خان سے پہلے بھٹو صاحب نے بڑھکیں ماریں‘ جب انہوں نے کہا کہ ہم ہزار سال بھارت سے جنگ لڑیں گے۔ اس بڑھک کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کے بعد پاکستان سنبھل نہ سکا۔ پھر کہا: گھاس کھا لیں گے ایٹم بم بنائیں گے۔ بم تو بن گیا اور گھاس کھانے کی نوبت بھی تقریباً آن پہنچی ہے۔ نواز شریف بڑھکیں مارنے کے معاملے میں کچھ کمزور تھے لیکن اُن کی کمی بعد میں شہباز شریف اور ان کے دیگر پارٹی لیڈروں نے پوری کر دی۔ شہباز شریف جب بھی کسی ملک سے ہو کر آتے تو وہ بڑھک مارتے کہ ہم بھی پاکستان کو پیرس بنا دیں گے‘ کبھی ترکی کے عبداللہ گل کے نعرے تو کبھی چین جیسی ترقی کرنے کی بڑھکیں۔ یہ سب لیڈرز بڑھکیں مار مار کر دنیا کے ہر ملک کا حوالہ دے کر پاکستان کو ویسا بنانے کا دعویٰ کرتے رہے لیکن پاکستان کو کبھی پاکستان بنانے کا کسی نے نہیں سوچا۔ سب نے ہمیں یہی بتایا کہ ہم نالائق‘ نکمے اور فارغ لوگ ہیں اور دیگر اقوام آئیڈیل اقوام ہیں۔ ہم لوگوں کے اندر اتنا احساسِ کمتری بھر دیا گیا ہے کہ اب جوبھی لیڈر کہتا ہے کہ میں پاکستان کو فلاں ملک یا پاکستان کے فلاں شہر کو پیرس یا لندن بناؤں گا‘ لوگ اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔ ہمارے اندر یہ احساس بٹھا دیا گیا ہے کہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ تمہارے پاس تو بتانے کے لیے اپنے رول ماڈلز یا مثالیں تک موجود نہیں۔ جب بھی خان صاحب تقریر کریں گے وہ دنیا کے درجن بھر ممالک کی مثالیں ضرور دیں گے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ احساسِ کمتری کے مارے عوام فوراً سمجھیں گے کہ اگر خان صاحب دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو پاکستان بھی راتوں رات سپر پاور بن جائے گا۔ عمران خان نے اس قوم کو یقین دلا دیا ہے کہ وہ وزیراعظم بنے تو اگلے دن سے وہ خود کو سپر پاور سمجھیں جس سے دنیا امداد اور بھیک لینے آئی گی‘ جیسے اس وقت ہم جاتے ہیں۔ خان صاحب بھی خود کو سپر پاور سمجھ کر تقریر کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب وہ ساڑھے تین سال وزیراعظم رہے تو مجال ہے کہ ایک دن بھی انہوں نے ان درجن بھر ملکوں کے طریقے پر چلتے ہوئے مثالیں قائم کرنے کی کوشش کی ہو۔ نیدرلینڈ کے وزیراعظم کے سائیکل پر دفتر جانے کی بار بار مثالیں دینے والے وزیراعظم خود ساڑھے تین سال ہیلی کاپٹر سے نہیں اترے۔ اب وہ فرما رہے ہیں کہ اگلا معاشی انقلاب شوکت ترین لائیں گے۔ 2018ء میں یہ انقلاب اسد عمر نے لانا تھا۔ اب 2023ء کے انقلاب کی ذمہ داری شوکت ترین کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ تین چار سال بعد پھر وہ آج کی طرح کہہ رہے ہوں گے کہ ہماری تیاری نہ تھی لہٰذا تیسری دفعہ باری ملی تو پھر ملک کو یکدم اوپر اٹھا دیں گے۔
وہی بات کہ بڑھکوں کا مقابلہ حکومتی اتحاد کی گیارہ پارٹیوں اور عمران خان کے درمیان جاری ہے‘ لیکن اب تک بڑھکیں مارنے میں اکیلے عمران خان کا پلڑا بھاری لگ رہا ہے۔