نوحہ ٔ شہر نا پرساں

روح کے مزے ہیں کہ وہ خاکی جسم کو چھوڑنے کے بعد پرواز کر سکتی ہے مگر باقی بچ جانے والے بے روح جسم‘ جسے عرفِ عام میں میت کہا جاتا ہے‘ کا المیہ یہ ہے کہ وہ بے بسی کی ایسی تصویر ہوتی ہے جسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کیلئے چار کندھوں کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ لوگ بھی اس میت کو اٹھا کر اسی زمین پر چلتے ہیں۔ مسلمانوں میں میت کی آخری منزل قبرستان ہوتی ہے۔ لواحقین‘ دوست‘ عزیز واقارب اور ہمسائے دنیائے فانی سے رخصت ہو جانے والے اپنے دوست‘ عزیز یا رشتے دار کو اس کی آخری منزل تک اٹھا کر لے جاتے ہیں تاہم میں حیران ہوں کہ ملتان کے قدیمی قبرستان پیر عمر میں لوگ اپنے پیاروں کی میت قبرستان کے اندر کس طرح لے کر جاتے ہوں گے؟
اس قبرستان کے داخلی دروازے کے سامنے دو اطراف میں بنی ہوئی دیوار اور تعمیرات کے طفیل بن جانے والے اس گلی نما راستے سے کس طرح گزرتے ہوں گے کہ سارے راستے میں تو گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہے۔ بلکہ یہ پانی بھی کب ہے؟ ممکن ہے چھ سات ماہ قبل جب یہ یہاں کھڑا ہوا ہو تو یہ پانی ہی ہو۔ مگر اب یہ تعفن‘ بدبو اور غلاظت بھرا کیچڑ ہے جس سے گزرے بغیر چارہ بھی نہیں اور گزرنا بھی ایک آزمائش سے کسی طور کم نہیں۔ اللہ خوش رکھے ہمارے دوست ڈاکٹر انعام الحق مسعود کو کہ وہ برسوں سے ہر اتوار کو اپنے والدین کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کیلئے اس قبرستان میں جاتے ہیں۔ نجیب الطبع حکیم محمد شفیع مرحوم کا یہ فرزند ملتان میں نہ ہو تو اور بات ہے تاہم ملتان میں ہو تو پھر شاید کوئی آندھی یا طوفان ہی اسے اپنے ہفتہ وار معمول سے ہٹا سکتا ہے وگرنہ ہم سب دوستوں کو علم ہے کہ وہ اتوار کو صبح قبرستان جائیں گے اور واپسی پر والد مرحوم کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے راستے میں اپنی مرحومہ پھوپھی کے گھر حاضری لگوا کر آئیں گے۔ ان کے والد ِگرامی کا بھی ساری زندگی یہی معمول رہا کہ وہ اس قدیمی قبرستان میں ابدی نیند سوئے ہوئے والدین کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپسی اپنی ہمشیرہ کے گھر سے ہو کر اپنے گھر آتے تھے۔ چوک شہیداں کے ایک کونے پر ان کا مطب تھا اور اس کے عین مخالف سمت میں چوک کے دوسری جانب ڈاکٹر عزیز الرحمان کا کلینک تھا۔ حکیم محمد شفیع کا مطب ہمہ وقت بھرا رہتا تھا اور حلیم الطبع حکیم صاحب بڑے تحمل اور شفقت سے مریضوں کو دیکھتے دکھائی دیتے۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی مگر جب میں چوک شہیداں کا ذکر کرتا ہوں تو یادوں کا ساون بھادوں برسنا شروع ہو جاتا ہے اور میں اس میں بہہ کر کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہوں۔ میرا بچپن اور لڑکپن چوک شہیداں سے جڑا ہوا ہے۔ میری پھوپھی مرحومہ طبیعت کی ناسازی پرحکیم شفیع کے ہاں جاتی تھیں اور ہمیشہ ان کے ہاتھ میں شفاکے بارے میں رطب اللسان رہتی تھیں۔ ڈاکٹر انعام الحق مسعود کا کہنا ہے کہ میری تو خیر ہے کہ میں اکیلا دیوار کے ساتھ ساتھ موجود خشکی کی ایک پتلی سی پٹی پر چل کر قبرستان کے اندر پہنچ جاتا ہوں لیکن کندھوں پر چار پائی اٹھائے اس کیچڑ سے بچ کر اندر داخل ہونا کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔ بارش کے پانی میں ابلتے ہوئے گٹر اور ارد گرد سے آنے والے کوڑے کرکٹ نے باہمی بھائی چارے سے غلاظت کا ایسا ملغوبہ تشکیل دیا ہے جو دکھائی دینے سے قبل ”سنگھائی‘‘ دینے لگ جاتا ہے۔ یہ صرف ایک قبرستان کا حال ہے۔ لیکن اب اس قبرستان سے نکل کر ادھر اُدھر کا حال دیکھتے ہیں۔
ملتان کی نواب پور روڈ پر سیوریج ڈالنے کا آغاز 2020ء میں ہوا تھا اور یہ سڑک تب سے کسی جنگ زدہ متاثرہ علاقہ کی تباہ حال سڑک کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ عرصہ تین سال سے سڑک عملی طور پر ٹریفک کیلئے بند ہے اور یہ کوئی ایسی سڑک نہیں جو دو چار سو گز پر مشتمل کوئی لنک روڈ ٹائپ سڑک ہو بلکہ یہ شہر کی معروف ترین نہ بھی سہی مگر خاصی معروف سڑک ہے جس کی لمبائی بلا مبالغہ پانچ کلو میٹر کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے چار کلو میٹر طویل ٹکڑا گزشتہ تین سال سے ارد گرد رہنے والے ہزاروں انسانوں کیلئے مسلسل باعثِ آزار ہے۔ ایک طرف مخلوقِ خدا تنگ و پریشان ہے دوسری طرف ملتان شہر کے فلائی اوورز کی سائیڈوں پر لوہے کی حفاظتی دیوار بنانے پر مبلغ نو کروڑ روپے سے زیادہ رقم صرف کی جا رہی ہے جس کی فی الحال نہ کوئی اشد ضرورت ہے اور نہ ہی ترجیحات میں اس کا کوئی جواز بنتا ہے۔ ان پیسوں سے کئی زیادہ ضروری کاموں کی انجام دہی کی جا سکتی تھی مگر اس نادر منصوبے سے کئی کہانیاں وابستہ ہیں جو سینہ بہ سینہ چل رہی ہیں۔
اگر ملتان شہر کے صرف ایک قبرستان اور ایک سڑک کا معاملہ ہوتا تو شاید یہ عاجز بھی کچھ ترجیحات طے کرتا اور کسی اور موضوع پر لکھتا لیکن ملتان شہر تو ہر اس جگہ سے کھدا پڑا ہے جہاں کھودا جاسکتا تھا اور اس کام میں خاص احتیاط یہ کی گئی ہے کہ صرف کھدائی میں پھرتیاں دکھائی جائیں جبکہ بعد میں اس کھدائی کو سمیٹنے والا کام کس نے کرنا ہے؟ اس بارے میں کمبخت راوی حسبِ معمول خاموش ہے اور صرف نواب پور روڈ ہی نہیں‘ ہزاروں سال سے مستعمل سورج کنڈ‘ سورج کند روڈ بھی اسی کرشمے کی زد میں ہے۔ اسی طرح بی سی جی چوک سے قاسم پور نہر کی طرف جانے والا راستہ بھی اپنے مسیحا کا منتظر ہے۔ اور ہاں! مجھے اپنے آبائی گھر واقع چوک شہیداں سے یاد آیا کہ یہاں سے قریب ہی چوک شاہ عباس سے حرم گیٹ والا راستہ بھی انہی پھرتیوں کے طفیل کھدا پڑا ہے اور درستی کرنے والے محکموں کی نظر کرم کا منتظر ہے۔
گمان تھا کہ شہر میں آوارہ گردی کے صرف فوائد ہوتے ہیں مگر اب یہ حال ہے کہ شہر میں کسی طرف جانے کا ارادہ کریں تو کسی دوسرے آوارہ گرد سے معلوم کرتے ہیں کہ کون سا راستہ کم خراب ہے۔ باوا صفرا روڈ کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ خونی برُج سے 14 نمبر چونگی روڈ اسی صورتحال کا شکار ہے۔ بندہ کس کس سڑک کو روئے؟ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تُو ہی تُو ہے۔ 11 نمبر چونگی سے وہاڑی چوک روڈ کا ستیاناس ہے۔ شہر کی مصروف ترین سڑک حضوری باغ روڈ سے چند ماہ پہلے گزرنا چاہا تو سراسر ناکامی ہوئی۔ اب اس سڑک کی متبادل سڑک واٹر ورکس روڈ بھی اسی تباہی کی زد میں آ چکی ہے۔ نو نمبر چونگی کے راؤنڈ اباؤٹ سے کچہری کی طرف جائیں تو تیس چالیس گز کے فاصلے پر سڑک کے بائیں طرف سات آٹھ فٹ کی نہایت ہی نامعقول قسم کی گڑھا نما شے گزشتہ دوسال سے گزرنے والوں کا امتحان لینے میں اور محکمے کی کارکردگی دکھانے میں مصروف ہے مگر کسی کو اس کو ٹھیک کروانے کا خیال نہیں آیا۔ حیرانی ہے کہ ادھر سے اس محکمہ کے ذمہ داران اور شہر کے انتظامی افسران سبھی گزرتے ہیں اور گزرتے وقت اس گڑھے سے بچنے کے لیے گاڑی کو انتہائی دائیں طرف بھی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی کو یہ گڑھا بہرحال دکھائی نہیں دیتا۔
میں جو یہ ملتان کا حال لکھ رہا ہوں تو بہت سے قارئین کو اس میں اپنا اپنا شہر دکھائی دے رہا ہوگا اور حقیقت یہی ہے کہ ہر شہر میں مراعات یافتہ طبقے کے لیے بنائے گئے جزیروں کے علاوہ ہر جگہ یہی حال ہے۔ مذکورہ بالا سب سڑکیں وہ ہیں جہاں سے ملتان کے ہزاروں لوگ روزانہ کی بنیاد پر ذلیل و خوار ہوکرگزرتے ہیں تاہم مجھے یقین ہے کہ وہ باآوازِ بلند نہ سہی‘ دل ہی دل میں ضرور گالیاں دے کر گزرتے ہوں گے۔ تاہم بقول شاہ جی اب اربابِ اختیار کو بآوازِ بلند قسم کی نہ تو گالیاں سنائی دیتی ہیں اور نہ فریادیں۔ تو بھلا دل ہی دل میں دی جانے والی گالیوں کی کیا اوقات ہے ؟