زندگی امید پر قائم ہے

مجھے زیادہ تو علم نہیں مگر میرے علم کے مطابق سندھ میں چار میر پور ہیں۔ میر دراصل سندھ کے حکمرانوں کا لقب تھا اور یہ آباد ہونے والے شہراورقصبے سندھی حکمران میروں کے نام پر ہیں۔ میں یہ چاروں میر پور یعنی میرپور خاص‘ میر پوربتھورو‘ میرپورساکڑو اور میرپور ماتھیلو دیکھ چکا ہوں۔ ممکن ہے کوئی پانچواں میر پور بھی ہو مگر بہرحال مجھے اس کا علم نہیں۔ اسی طرح سندھ میں درجن بھر سے زائد قصبوں اور شہروں کا نام ٹنڈو سے شروع ہوتا ہے کئی سندھی دوستوں سے ٹنڈو کا مطلب دریافت کیا مگر کوئی بھی پریقین طریق سے کچھ نہ بتا سکا تاہم یہ قصبے یا ٹاؤن کا متبادل ہے۔
شہروں کے ناموں کے ساتھ بعض سابقوں اور لاحقوں کا قصہ بھی ایسا ہی ہے۔ پاکستان میں بہت سے شہروں کے ساتھ ”پور‘‘ کا سابقہ لگاہوا ہے جیسے بہاولپور‘ خان پور‘ میرپور اور خیرپور وغیرہ۔ پرانی بات ہے میں انور مسعود صاحب اور امجد اسلام امجدصاحب کے ساتھ ملتان سے بہاولپور جا رہا تھا راستے میں ایسے ہی برسبیل گفتگو میں نے انور مسعود صاحب سے پوچھا کہ یہ لفظ پور کا کیا مطلب ہے؟ انور صاحب کہنے لگے کہ پور کا مطلب بیٹا ہے‘ بہاول کا بیٹا‘ خان کا بیٹا وغیرہ۔ یہ بات سن کر امجد صاحب نے شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور انور مسعود صاحب سے کہنے لگے کہ یار انور ایہہ بھرپور دا کیہہ مطلب اے؟ (یار انور! یہ بھرپور کا کیا مطلب ہے) انور مسعود نے جواب دیا کہ اینویں یبلیاں نہ مار۔ قارئین! معاف کیجیے اس جملے میں لفظ‘ یبلیاں کا کسی طور ترجمہ ممکن نہیں اس لیے اس جملے کو ایسے ہی رہنے دیں۔
میرپور خاص کو ویسے تو میر مراد علی خان تالپور نے 1806ء میں تعمیر کروایا اور تالپور ریاست کا دارالحکومت قرار دیا‘ تاہم یہ اس سے سینکڑوں برس پیشتر سے آباد تھااور 1784ء میں اس علاقے کو میر فتح علی خان تالپور نے فتح کر کے اپنی ریاست کا حصہ بنایا۔ میر شیر محمد تالپور نے میر پور کو ریاست قرار دیتے ہوئے یہاں قلعہ تعمیر کروایا‘ میر پور 1843ء تک تالپور ریاست کا صدر مقام رہا تاوقتیکہ کہ میر شیر محمد خان تالپور کو چارلس جیمز نیپئر کے مقابلے میں ڈابو کی جنگ میں شکست ہوئی اور یہ ریاست ایسٹ انڈیا کمپنی کا حصہ بن گئی۔ میر پور خاص سے صرف بائیس کلو میٹر کے فاصلے پر چتوڑی میں میروں کے عالی شان مقبرے ہیں جو اسلامی اور راجستھانی طرزِ تعمیر کا خوبصورت امتزاج ہیں۔یہاں گنبدوں والے بارہ عدد مقبرے ہیں جن میں سے نو مقبرے اس خطے کے روایتی پیلے پتھر سے اور تین عدد اینٹوں سے تعمیر کردہ ہیں۔ ان میں محمد موسیٰ تالپور پہلا تالپور حکمران تھا جس کا مقبرہ یہاں تعمیر ہوا‘ اس کے علاوہ یہاں میر پور خاص کے بانی میر علی مراد تالپور اور ٹنڈو اللہ یار کے بانی میر اللہ یار تالپور کے مقبرے بھی ہیں۔ چتوڑی میں تعمیر کردہ یہ مقبرے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
راستے میں ٹنڈو اللہ یارسے ٹنڈو آدم کی سجی یاد آئی مگر گاڑی کا رخ حیدر آباد کی طرف ہی رکھا اور اس کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی یہ کہ ٹنڈو آدم ہمارے سارے شیڈول میں شامل ہی نہیں تھا اور ہمارے پاس حیدر آباد دیکھنے کے لیے محض ایک دن تھا جسے ٹنڈو آدم کی سجی کی نذر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حیدر آباد میں ہمیں میروں کے مقبرے جنہیں سندھی میں ”میراں جا قُبہ‘‘ کہتے ہیں دیکھنے تھے‘ ایک دوسرے کے ساتھ متصل دو احاطوں میں تعمیر کردہ یہ چوکور مقبرے بنیادی طور پر ایک ہی ڈیزائن کے ہیں مگر ان کا سائز‘ عمارتی سامان‘ سجاوٹی کام‘ ٹائل ورک‘ پتھرپر کندہ کاری‘ مینا کاری اور نقش نگاری ان مقبروں کو علیحدہ علیحدہ شناخت دیتی ہے۔ یہ دونوں احاطے تقریباً چھ ایکڑ رقبے پر مشتمل ہیں اور ان میں سب سے شاندار مقبرہ میر کرم علی تالپور کا ہے۔
میر کرم علی نے اپنا مقبرہ اپنی زندگی میں ہی ڈیزائن کروا لیا تھا۔ اس مقبرے کے ساتھ میر کرم کے بیٹوں میر نور محمد خان‘ میر ناصر خان اور پوتے میر شہداد خان تالپور کے مقبرے ہیں۔ جب ہم یہاں پہنچے تو ان مقبروں کی تزئین و آرائش اور مرمت کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ چھوٹی اینٹوں کے ڈھیر تھے اور رنگدار روغنی (Glazed) ٹائلوں کے بے شمارنمونوں پر مشتمل تعمیری سامان ہر طرف بکھرا ہوا تھا۔ کاریگر نیلی ٹائلوں اور روغنی ٹکڑوں سے جوڑ کر پرانے نمونوں کے عین مطابق تزئین و آرائش میں مصروف تھے۔ چونے میں پیلی مٹی ملا کر باہر والی دیواروں پر پلستر ہو رہا تھا۔ اسی طرح مٹی میں ناریل کے اوپر سے اترنے والے ریشے کو ملا کر نیلی ٹائلیں لگائی جا رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے چوکور‘ تکون‘ ستارہ نما‘ پنج پہلو‘ شش پہلو اور ہشت پہلو روغنی ٹکڑوں کو جوڑ کر موزاٹک نما ڈیزائن بنائے جا رہے تھے۔ کسی زمانے میں اسی قسم کا Conservation کا کام ملتان میں رکن الدین عالم کے مقبرے پر آغا خان فاؤنڈیشن نے کروایا تھا۔ پرانے اور نئے کام میں سر مو فرق نہیں تھا اور کہیں معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ کام صدیوں بعد ہورہا ہے۔ مقبرے کی عمارت‘ صحن کے فرش اور دیواروں پر مختلف سائز کی اینٹیں لگی تھیں ہر جگہ سے پرانی اور خستہ اینٹ نکال کر عین اسی سائز کی اینٹ لگائی گئی اور ایسی مہارت سے کہ بال برابر فرق محسوس نہیں ہوتا۔ ادھر ملتان کی قدیمی شاہی عید گاہ پر قابض کاظمی خاندان نے اس مسجد کی مرمت اور تزئین و آرائش کے نام پر مسجد کی ساری قدامت‘ خوبصورتی اور اصل طرزِ تعمیر کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ چونے اور مٹی کے پلستر کی جگہ سیمنٹ ریت کا پلستر کر دیاہے۔ پرانی نیلی روغنی ٹائل کی جگہ جدید ٹائلیں لگا دی ہیں اور اندر گنبدوں کے نیچے اپنے والد‘ دادا اور دیگر آباؤ اجداد کے نام پینٹ کروا دیئے ہیں۔ 1735ء میں یہ عید گاہ مغل بادشاہ محمد شاہ کے دورِ حکومت میں ملتان کے گورنر نواب عبدالصمد خان نے تعمیر کروائی تھی۔ 1848ء میں سکھوں نے ملتان پر قبضے کے بعد مسجد کو بارود خانہ بنا دیا۔ 1848ء میں ملتان کے محاصرے کے دوران گولہ گرنے سے یہ بارود خانہ ایک دھماکہ سے اڑ گیا۔ مسجد کا ایک حصہ تباہ ہو گیا‘ ملتان پر برطانوی قبضے کے بعد 1891ء میں مسجد مسلمانوں کو واپس کر دی گئی‘ انگریزوں سے واگزار ہونے والی اس سرکاری عید گاہ میں کاظمی خاندان نے اپنے ایک بزرگ کو دفن کر کے اس پر مزار بنا لیا اور عملی طور پر اس مسجد پر قبضہ کر لیا۔ سندھ میں میروں کے مقبروں پر ہونے والے عمدہ مرمتی اور Conservation کا کام دیکھ کر ملتان کی عید گاہ یاد آ گئی۔
دو عشرے قبل میں بچوں کے ساتھ ٹھٹھہ گیا تھا‘ شاہجہانی مسجد مرمت اور تزئین و آرائش کے مرحلے سے گزر کر بالکل نئی نکور ہو چکی تھی تاہم مکلی کے مقبروں کا برا حال تھا۔ مکلی کی پہاڑیوں پر بنے ہوئے اس قبرستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔ قریب دس مربع کلو میٹر پر بکھری ہوئی ان قبروں کی تعداد پانچ سے دس لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس قبرستان میں ایسی ایسی شاندار کنندہ کاری والی پتھروں کی قبریں ہیں کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ چودہویں سے سترہویں صدی کے درمیان بسنے والے اس قبرستان میں سندھ کے سمہ‘ ترکان‘ ارغون اور مغلیہ حکومت سے تعلق رکھنے والے حکمران‘ عامل اور گورنروں کی قبریں ہیں۔ جام نظام الدین‘ دریا خان‘ جان بیگ ترکان‘ مرزا جانی‘ نواب شرفا خان‘ مرزا باقی بیگ اورمرزا خان بابا کے علاوہ مائی مکلی کا مقبرہ نہایت شاندار ہے مگر عیسیٰ خان ترکان کے مقبرے کا تو کوئی جواب نہیں۔ تب یہ مقبرہ کھنڈر بن رہا تھا۔ اللہ جانے اب کیا حال ہے؟ کسی روز سر میں سمائی تو ادھر بھی نکل چلوں گا۔ زندگی امید پر قائم ہے۔