اپنی غلطی سے محبت

اپنی غلطی کون مانتا ہے؟ کوئی نہیں۔ میں بھی نہیں اور آپ بھی نہیں۔ ممکن ہے ہم لوگ اکیلے میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوں کہ ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے جس کا خمیازہ ہم نے ہی بھگتنا ہے لیکن سرعام کوئی نہیں مانتا۔ شاید انسانی اَنا اسے روک لیتی ہے۔ اپنی ذات سے رومانس اور محبت انسان کو اپنے خلاف فیصلہ دینے سے روک لیتی ہے۔ انسان خود کو کبھی غلط نہیں سمجھتا۔ جو خود کو غلط سمجھتے ہیں تو سمجھ لیں وہ بڑے لوگ ہیں۔
اس لیے اگر آج عمران خان بھی خیبر پختونخوا کے الیکشن میں اپنی پارٹی کی شکست کی ذمہ داری مہنگائی پر ڈالنے کو تیار نہیں یا ان کا خیال ہے کہ ان کے دو بڑے فیصلوں کی وجہ سے پارٹی دن بدن نیچے جارہی ہے تو اس میں بھی انسانی مزاج کاہاتھ ہے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی وجہ سے پارٹی بلدیاتی انتخابات کا پہلا فیز ہار گئی۔ خیبر پختونخوا کے وزراکہتے ہیں قصور ان کا نہیں بلکہ مہنگائی کا ہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے دور ہوگئے۔ یوں خان صاحب اپنے فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں‘وہ سارا بوجھ صوبائی اوروفاقی وزیروں پر ڈال رہے ہیں کہ غلط ٹکٹیں بانٹی گئیں۔ خان صاحب کا اشارہ دراصل اپنے وزیروں کی طرف ہے جن کے رشتہ داروں کو ٹکٹیں ملیں اور جنیوئن ورکرز کو دور رکھا گیا جبکہ وہی وزیر کہتے ہیں جب پٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمتیں ڈالر ریٹس کی وجہ سے آسمان پر پہنچی ہوئی ہوں گی تو کون مائی کا لعل الیکشن جیت پائے گا؟ اگر دیکھا جائے تو دونوں صورتوں میں عمران خان صاحب کو ہی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اگر وجہ مہنگائی ہے تو بھی حکومت کے فیصلے اس میں شامل ہیں اور اگر وجہ ٹکٹوں کی تقسیم اور وزیروں کے رشتہ داروں کا معاملہ ہے تو بھی ذمہ داری وزیر اعظم صاحب کی بنتی ہے کہ انہوں نے ہی وزیراعلیٰ محمود خان اور پرویز خٹک کے ذمے یہ کام لگایا تھا اوردونوں نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ تھا کہ اپنے اپنے بیٹوں کو بلدیاتی اداروں کے الیکشن کے لیے امیدوار بنا نا۔ جب کچھ وزیروں نے کھسر پھسر شروع کی تو انہیں کہا گیا کہ فکرناٹ! آپ بھی اپنے اپنے بیٹوں‘ بھتیجوں‘ بھانجوں کو میدان میں لائیں۔ یوں سب نے بیٹھ کر بندر بانٹ کر لی۔ ایک دوسرے کو کانا کیا اور جب الیکشن ہارے تو عمران خان کی حکومت کو ہی مہنگائی کا ذمہ دار قرار دے کر الیکشن کی ہار کا جواز پیش کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان صاحب اور ان کے وزیر کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں نے بھی وڈیو پیغامات کے ذریعے اس قوم کے نام پیغامات بھیجنے شروع کیے تھے کہ پاکستان سستا ملک ہے اور پاکستانی ناشکرے ہیں جو ابھی بھی چیخیں مار رہے ہیں۔ لگتا ہے یا تو پاکستانیوں نے اوورسیز دوستوں کی وہ وڈیوز سنی ہی نہیں یا پھر ان وڈیوز کا اثر نہیں ہوا یا پھر عمران خان صاحب کی شخصیت کا رومانس ان سے اترنا شروع ہو گیا ہے۔ لوگ سمجھتے رہے کہ آج کل میں کوئی چمتکار ہو جائے گا اور عمران خان صاحب سب ٹھیک کر دیں گے‘ خود خان صاحب نے ایک ہی تقریر اتنی دفعہ کر دی ہے کہ سب کو زبانی یاد ہوگئی ہے۔ یوں جب آپ خود کو بار بار دہرانا شروع کرتے ہیں تو کچھ عرصے بعد آپ اپنی audience کھو بیٹھتے ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ان کے پاس نیا کہنے کو کچھ نہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ صوبے میں ٹکٹوں کی تقسیم دوسرے مرحلے میں ٹھیک کر دی جائے گی۔ شاید خان صاحب چیک کرنا چاہتے ہوں گے کہ شکست ٹکٹوں کی وجہ سے ہوئی ہے یا مہنگائی کہ وجہ سے۔ اب کی دفعہ شکست ہوگئی تو پتا نہیں کیا جواز تلاش کیا جائے گا اگرچہ اس دفعہ کا ایک ہی جواز ہو گا کہ سکینڈ فیز میں الیکشن ان علاقوں میں ہوئے ہیں جہاں اپوزیشن پارٹیاں اکثریت میں ووٹ بینک رکھتی ہیں۔
دراصل خان صاحب کو عدم تحفظ لے ڈوبا ہے۔ وہ بندہ جو کھیل کے میدان میں بہترین اور قابل کھلاڑی اتارتا تھا‘ جس کی وجہ سے وہ بڑا کپتان بنا‘ وہ اب سیاست کے کھیل میں اہم عہدوں پر عام کھلاڑی کھلا رہا ہے تاکہ وہ کنٹرول میں رہیں۔ آپ اگر فیڈرل لیول سے لے کر صوبائی سطح پر دیکھیں تو آپ کو ہر جگہ کمزور لوگ بڑے عہدوں پر بیٹھے نظر آئیں گے۔ پنجاب ہو یا خیبر پختو خوا‘ دونوں صوبوں میں کمزور بلکہ گمنام وزیراعلیٰ لائے گئے‘ وجہ ایک ہی تھی کہ سیاسی طور پر تگڑا یا ایکٹو بندہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور سنبھالا نہیں جاتا۔ اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ ایسا بندہ لایا جائے جو بڑے عہدے پر فرمانبردار ہو۔ کھانا بھی پوچھ کر کھائے۔ یہ کام اکیلے خان صاحب نے نہیں کیا‘ اگر آپ کو یاد ہو تو یہ کام نواز شریف نے بھی کیا تھا جب غلام حیدر وائیں کو وزیراعلیٰ لگایا گیا اور شہباز شریف پیچھے بیٹھ کر صوبہ چلاتے تھے۔ بینظیر بھٹو دور میں سردار عارف نکئی وزیراعلیٰ بنائے گئے‘ ایک دن وہی وزیراعلیٰ کسی کو تھانے سے چھڑانے خود پہنچ گئے تھے۔ یہ تھا لیول وزیراعلیٰ کا۔
یوں عمران خان وہی ماڈل لے کر چلے۔ اب عمران خان کے پاس وہ خاندانی آپشن نہیں ہے جو نواز شریف کے پاس تھا کہ وہ اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر بھروسا نہیں کرتے۔ عمران خان کی مجبوری ہے کہ وہ کسی دیگر بندے کو اعلیٰ عہدے دیں۔ یوں وہ کمزور لوگ ہی تلاش کرتے رہتے ہیں جو خوشامد اور نالائقی میں اعلیٰ مقام رکھتے ہوں‘ قابلیت میں نہیں۔ آپ اب تک عمران خان صاحب کے چوائس دیکھ لیں تو حیرت سے دم بخود ہو جائیں کہ پنجاب جیسا اہم صوبہ کس کے حوالے کیا‘ خیبر پختونخوا کا صوبہ کس کو دیا؟ دونوں اہم صوبے تھے‘ خیبر پختونخوا میں اے این پی اور مولانا فضل الرحمن بڑے مخالفیں تھے تو پنجاب پر شریف خاندان نے تیس برس حکومت کی ہوئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ چن کر قابل اور ڈلیور کرنے والے ایماندار بندے لاتے تاکہ شریفوں کی سیاست پر ڈینٹ ڈال سکیں۔ آپ نے بالکل الٹ کیا۔ یوں لگتا ہے بائیس سال تک عمران خان اور ان کے حامی صرف اس لیے کوشش کرتے رہے اور سیاسی جنگ لڑتے رہے کہ ایک دن انہوں نے عثمان بزدار صاحب کو وزیراعلیٰ پنجاب بناناتھا جو دوردراز کہیں بیٹھے اس موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ اس سے بڑا مذاق پنجاب میں نہیں ہوسکتا‘جو یہاں کیا گیا۔ وجہ وہی تھی کہ عثمان بزدار کو ریموٹ کنٹرول سے چلانے والی پارٹیوں کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ گوجرانوالہ میں فیور دینے کی کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ کوئی افسر اُن کی سفارش کے بغیر بڑے عہدے پر نہیں لگ سکتا۔ پنجاب میں عہدوں کی بولیاں لگتی ہیں‘ ہر ہفتے نئے ٹرانسفر پوسٹنگ آڈرز ہوتے ہیں۔ کوئی بحران ہو آپ کو وزیراعلیٰ نظر نہیں آتا۔ لاہور بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ وہی لاہور جس کے صرف ایک حلقے سے پی ٹی آئی نے پندرہ ایم این اے اور ایم پی اے کی خواتین کی مخصوص سیٹیں دے دیں۔ باقی پنجاب منہ دیکھتا رہ گیا۔ جب آپ خود ایسے ” انصاف‘‘ کریں گے تو پھر عوام آپ کے ساتھ انصاف کیوں نہ کریں؟ اب آپ مہنگائی پر الزام ڈالیں یا وزیروں کے رشتہ داروں پر‘ آپ کو بھی پتا ہے کہ تگڑا کھلاڑی آپ کو کرکٹ کے میدان میں تو سوٹ کرتا تھا لیکن سیاسی میدان میں نہیں۔ یقین نہیں آتا تو محمود خان اور عثمان بزدار کوہی دیکھ لیں۔ ہم انسان اپنی غلطیوں سے محبت کرتے ہیں اور کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔