اللہ ہی خیر کرے

یہ دنیا خالقِ کائنات کی تدبیروں اور احکامات کی تابع ہے۔ ہم گنہگار تو صرف وہی کچھ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں جس کی اس نے اجازت مرحمت فرمائی ہوئی ہے؛ تاہم یہ سمجھ بوجھ‘ کل کی فکر اور تدبیر بھی اسی کی عطا کردہ نعمتوں اور صلاحیتوں ہی کا نتیجہ ہے۔ کل کیا ہوگا؟ اس کا بہتر علم اس عالم الغیب سے بڑھ کر کسی کو نہیں مگر کل کے بارے میں اس کی قدرت کے اشاروں کو سمجھنا بھی اسی کی منشا سے کسی حد تک ممکن ہے اور ہم اس کی دی گئی عقل سے محدود اندازے ضرور لگاتے ہیں اور حالات کا اشارہ یہ ہے کہ ہم نے موسمی حالات کو جس حد تک خراب کر دیا ہے اس کے باعث ہمارے خطے میں اگلے کئی سال تک شدید بارشوں کا قوی امکان ہے بلکہ اندازہ تو یہ ہے کہ آئندہ اس سے بھی زیادہ شدید بارشیں ہوں گی۔
موجودہ حالات کو سامنے رکھیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ہم اپنے وسائل اور اعمال کے زور پر حالیہ تباہی کو اگلے کئی سال تک ٹھیک نہ کر پائیں گے۔ اس میں متاثرین کے گھروں سے لے کر سڑکوں تک اور تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر سے لے کر ڈیم اور ندی نالوں کے پلوں تک اتنی بڑی تباہی ہوئی ہے کہ ہماری معیشت کی کمزوری اور نیت کا کھوٹ اسے کئی سال تک اصل حالت میں نہیں لا سکے گا۔ ایسے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مستقبل کا منظر نامہ مزید بھیانک تصویر پیش کر رہا ہے اور ماہرین کے بقول ہمارے علاقے میں اگلا مون سون موسم شاید اس حالیہ مون سون سے زیادہ شدید اور بدترین ہوگا۔ یعنی صاف لفظوں میں کہا جائے تو صورتحال یہ ہے کہ اس نقصان کو پورا کرنا تو دور کی بات ہے‘ ہم اسی دوران مزید مصائب کے شکار ہو جائیں گے۔ اور یہ صرف اور صرف ان موسمیاتی تبدیلیوں کے طفیل ہو رہا ہے اور ہونے جا رہا ہے جس کا اہتمام ابن آدم نے از خود بڑی محنت سے کیا ہے۔
اگر صرف اپنی بات کی جائے تو درختوں کی بے تحاشا کٹائی‘ گرین ہاؤس گیسز کا بے پناہ اخراج‘ فضائی آلودگی اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی طرف عدم توجہ نے اس معاملے کو بدترین نہج پر پہنچا دیا ہے۔ سندھ میں اس قدر پانی آیا ہے کہ سیہون کے قریب پاکستان کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر ایک سو کلو میٹر کے لگ بھگ دور شہداد کوٹ کے قریب واقع حمل جھیل کے ساتھ مل کر ایک ایسی جھیل کا منظر پیش کر چکی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بقول مراد علی شاہ‘ سندھ میں اس وقت تربیلا ڈیم کے پانی کے ذخیرے سے بیس گنا زیادہ پانی کھڑا ہے لیکن دوسرے ہی سانس میں وہ فرماتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بہرصورت وہ نہیں بننے دیں گے یعنی سندھ پانی سے بے شک ڈوب جائے‘ سیلابی پانی بھلے سے بحیرہ عرب میں جا گرے۔ سارا سندھ جھیل میں تبدیل ہو جائے لیکن کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔ انہیں کوئی بتائے کہ پانی کو نیچے آ کر تباہی مچانے سے روکنے کے لیے اسے اوپر ہی قابو کرنا ہوگا مگر جس ملک میں ہر تکنیکی مسئلہ سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے وہاں بہتری کیسے آ سکتی ہے؟ ایمانداری کی بات ہے کہ اب تو اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بھی کوفت سی محسوس ہوتی ہے۔ حال یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے سندھ کا پانی‘ دو نہروں کے ذریعے پنجاب کے دو معاون دریاؤں میں ڈالا جاتا ہے۔ ایک تونسہ پنجند لنک کینال عرف ٹی پی لنک کینال اور دوسری چشمہ جہلم لنک کینال عرف سی جے لنک کینال ہے۔ مجھے چشمہ جہلم لنک کینال کا تو علم نہیں؛ تاہم تونسہ پنجند لنک کینال جو تونسہ بیراج سے نکلتی ہے اور دریائے سندھ کا 12000کیوسک پانی دریائے چناب میں ڈالتی ہے۔ آبپاشی کے لیے استعمال ہونے والی اس نہر کا دریائے چناب میں ڈالا جانے والا پانی پنجند کے مقام پر پھر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ تونسہ بیراج سے تین نہریں نکلتی ہیں۔ ایک یہی ٹی پی لنک کینال‘ دوسری ڈی جی خان کینال اور تیسری مظفر گڑھ کینال۔ موخر الذکر دونوں ششماہی نہریں ہیں یعنی چھ ماہ چلتی ہیں۔ ان کا دورانیہ عموماً اپریل سے اکتوبر تک ہوتا ہے۔ اس بار صورتحال یہ تھی کہ سندھ میں پانی نے تباہی مچائی ہوئی تھی اور مظفر گڑھ کینال پندرہ دن چل رہی تھی اور پندرہ دن بند تھی۔ اٹھارہویں ترمیم کے کمال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیلاب اور بربادی کی صورتحال میں بھی ششماہی نہر لگاتار چھ ماہ کے لیے نہیں چل رہی تھی اور ہر پندرہ دن کے بعد پندرہ دن کے لیے بند ہو رہی تھی۔ یہ بھی اس دباؤ کا نتیجہ ہے جو حکومت وقت کے اتحادیوں نے ان پر ڈالا ہوا ہے۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ مستقبل کے موسمی حالات کی خبر اچھی نہیں ہے۔ اگلے کئی سال اسی طرح کی شدید بارشیں متوقع ہیں۔ کراچی میں امسال معمول سے چار سو گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں بارشوں کی شرح کراچی سے بھی بلند تھی۔ یہاں یہ شرح پانچ سو فیصد اور سندھ میں آٹھ سو فیصد زیادہ تھی۔ دوسرے لفظوں میں آئندہ کئی عشروں تک ہونے والی بارشیں اسی ایک سال میں ہو گئیں۔ نہ اس پانی کو سنبھالنے کا کوئی بندوبست تھا اور نہ نکالنے کا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ لیکن یہ بات اس طرح رکنے والی تو بہرحال نہیں ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ یہ معاملات کو مزید خراب کرنے کے مترادف ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آفات سے آگاہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں فی الوقت سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پہلے نمبروں پر ہے۔ خطے میں بڑھنے والے درجہ حرارت اور اس کے نتیجے میں بحرالکاہل میں خط استوا کے نزدیک گرم ہوائیں ٹھنڈے پانیوں سے ٹکراتی ہیں تو سطح سمندر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور درجہ حرارت میں یہ اضافہ ہی مون سون کا باعث بنتا ہے اور درجہ حرارت میں کمی بیشی مون سون کی شدت کا فیصلہ کرتی ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھے گا مون سون میں شدت پیدا ہوتی جائے گی اور اس وقت بری خبر یہ ہے کہ دنیا بھر میں درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اس سال اپریل میں پڑنے والی گرمی نے پاکستان کا باسٹھ سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس سال پورے یورپ کا گرمی سے برا حال تھا اور اندازہ ہے کہ 2026ء تک زمین کے درجہ حرارت میں پونے دو سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان میں درجہ حرارت اگلے بیس سال میں اڑھائی سینٹی گریڈ تک بڑھنے کا امکان ہے اور اس سے مون سون کی شدت میں اضافہ ناگزیر ہے؛ تاہم اس سے بھی بری خبر یہ ہے کہ یورپ فی الحال خشک سالی کا شکار ہے اور اگلے پانچ چھ سال کے بعد یہی صورت حال ادھر پاکستان میں پیش آنے کا قوی امکان ہے۔ یعنی پہلے ہم اگلے چار پانچ سال شدید بارشیں بھگتیں گے اور پھر اس کے بعد خشک سالی کا سامنا کریں گے۔
اس دوران ہم پانچ چھ سال پانی میں ڈوبیں گے اور پھر اس کے بعد پانی کے لیے ترسیں گے۔ کبھی چولستان، تھر اور تھل بھی سرسبز تھے مگر ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں نے جہاں دریائے ہاکڑہ اور سرسوتی کو کہانیوں میں بدلا وہیں سرسبز و شاداب میدانوں کو اڑتے بگولوں کی سرزمین میں بدل دیا۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق پہلے ہمیں ”ڈوبا‘‘ مارے گا اور پھر ہمیں ”سوکھا‘‘ ترسائے گا۔ ہمارے پاس نہ زیادہ پانی کو سنبھالنے یا اس سے نپٹنے کا بندوبست ہے اور نہ ہی خشک سالی کا سامنا کرنے کی صلاحیت ہے۔ حکمران مال مست ہیں اور عوام کو اپنے مسائل سے فرصت نہیں۔ ڈالر قابو سے باہر ہے اور حکومت نے ستر وزیر رکھ لیے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سبزی کے ساتھ مفت میں ملنے والا دھنیا گزشتہ دنوں پانچ سو روپے کلو فروخت ہو رہا تھا۔ اللہ ہی خیر کرے۔