دورِ جدید کے نظام سقہ … (2)

مورخہ اٹھارہ اپریل 2023ء کو پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے بورڈ آف گورنرز کے تیسویں اجلاس کا ایجنڈا آئٹم نمبر 2 اکیڈمی میں تیس عدد اسامیوں پر نئی بھرتیوں کے لیے اخبار میں دیے جانے والے اشتہار اور اس کے بعد جاری پراسس کو بورڈ سے منظور کروانے سے متعلق تھا۔ میں اس بورڈ کی میٹنگ میں صوبہ پنجاب کے نمائندہ رکن کی حیثیت سے شریک ہوا۔ اس میٹنگ میں بورڈ آف گورنرز کے ارکان کی غالب اکثریت نے انتظامیہ اور منسٹری کی پُرزور کوشش اور خواہش کے برعکس اخبار میں دیے گئے اشتہار اور اس سلسلے میں ہونے والی مزید دفتری پیش رفت کو منظور کرنے کے بجائے ایک طویل بحث کے بعد اس اشتہار کو مکمل طور پر غیر قانونی اور قواعد کے خلاف قرار دیتے ہوئے مجوزہ بھرتی کے سارے عمل کو فوری طور پر روکنے اور اخبار میں شائع شدہ اشتہار کو منسوخ کرنے کا ریزولیوشن منظور کر دیا۔

اخبار میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز میں مختلف گریڈز کی تیس عدد خالی اسامیوں کے لیے جو اشتہار دیا گیا تھا اس میں صوبائی و دیگر اقسام کے لیے طے شدہ مختص کوٹہ جات کو برُی طرح پامال کرتے ہوئے بدنیتی اور اپنی مرضی پر مبنی غیرقانونی اور غیرآئینی کوٹہ مشتہر کیا گیا‘ جو حکومتِ پاکستان کی طرف سے سرکاری ملازمتوں کے لیے طے شدہ کوٹہ کی صریح خلاف ورزی تھی اور اس بنیاد پر اس اشتہار کو منسوخ کرکے قواعد و ضوابط کے مطابق سرکاری کوٹہ کے حساب سے نیا اشتہار جاری کرنے کا کہا گیا۔

اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جب تک اس سلسلے میں مختلف صوبائی کوٹہ جات بالخصوص پنجاب‘ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے مختص کوٹہ کے مقابل درست تعداد میں اسامیوں کو مشتہر نہیں کیا جاتا مزید ہر قسم کی پیش رفت روک دی جائے اور بھرتیوں کا سارا عمل منسوخ کیا جائے۔ یاد رہے کہ ESTACODEکی مطابق پاکستان کی وفاقی سرکاری ملازمتوں پر بھرتی کے لیے پنجاب کا کوٹہ پچاس فیصد ہے اور اس حساب سے ان تیس میں سے پندرہ اسامیوں پر پنجاب کے امیدواروں کا کوٹہ پندرہ بنتا تھا‘ مگر اشتہار میں پنجاب کا کوٹہ پندرہ سے کم کرکے دو کر دیا گیا ‘جو مشتہر اسامیوں کا سات فیصد سے بھی کم بنتا تھا۔ یہی حال گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا تھا جس کے لیے اس اشتہار میں ایک بھی اسامی مختص نہیں کی گئی تھی۔ نوکریوں کی کھیر کو من مرضی سے بانٹے کے لیے گھپلا کرنے کی غرض سے میرٹ کا بہانہ بنایا گیا اور ایسٹا کوڈ میں میرٹ کا طے شدہ ساڑھے سات فیصد کوٹہ کھینچ کر چھتیس فیصد کرتے ہوئے تیس میں سے گیارہ اسامیوں کو میرٹ پر کر دیا۔ یہ سب کچھ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی ورثہ و ثقافت امیر مقام کی خوہش پر ہو رہا تھا اور سرکاری ملازمین بشمول اکیڈمی انتظامیہ اور ڈویژن کے افسران اپنی نوکری بچانے کے چکر میں بورڈ کے دیگر ارکان کو مسلسل مجبور کر رہے تھے کہ بھرتیوں کے لیے جاری عمل کو چلتا رہنے دیں۔ مگر بورڈ کے سرکاری نامزد کردہ تین چار ارکان کے علاوہ باقی سارا بورڈ اس کے خلاف تھا۔

اسی میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ان نئی اسامیوں پر کسی قسم کی بھرتی سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بورڈ آف گورنرز کی سفارشات کی روشنی میں اکیڈمی کے کنٹریکٹ والے ان ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں مستقل کیا جائے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود کئی سال سے لٹکا ہوا ہے‘ حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بورڈ ان کنٹریکٹ ملازمیں کو مستقل کرنے کی بھی منظوری دے چکا ہے۔

بورڈ کے ارکان کا مؤقف تھا کہ پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بحال ہونے والے کنٹریکٹ ملازمین کو بحال کرنے کے بعد بقیہ درست اسامیوں کو حکومتی طے شدہ کوٹہ کی پابندی کرتے ہوئے نئے سرے سے مشتہر کیا جائے۔ انتظامیہ نے ایک نئی پخ ڈال دی کہ یہ کوٹہ دراصل اکیڈمی کے کُل ملازمین پر لاگو ہوتا ہے۔ اس بہانے کو ختم کرنے کے لیے بورڈ ارکان نے اکیڈمی انتظامیہ سے ادارے کے تمام ملازمین کی کوٹہ کے مطابق شرح فیصد کی تفصیل طلب کرتے ہوئے اکیڈمی انتظامیہ کو پابند کیا کہ وہ یہ سارا کام مکمل کرکے ایک ماہ کے اندر اندر بورڈ کا اگلا اجلاس منعقد کرے تاکہ اس کی رپورٹ کی روشنی میں درست اور مکمل کوٹے کا اطلاق کیا جا سکے۔

اس ساری پیش رفت میں پنجاب کے کوٹے کو بُری طرح پائمال اور نظر انداز کرتے ہوئے اس اشتہار میں پنجاب کے لیے مخصوص اسامیوں کو جو پچاس فیصد طے شدہ کوٹے کے مطابق پندرہ بنتی ہیں‘ کم کرکے دو کر دیا گیا اور گلگت بلتستان کے لیے سرے سے کوئی اسامی نہیں رکھی گئی جو ESTACODE میں طے کردہ بھرتیوں کے طریقہ کار کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بورڈ آف گورنرز نے اس سلسلے میں اکیڈمی انتظامیہ اور متعلقہ ڈویژن کے افسران کو پابند کیا کہ جب تک کوٹہ کا مسئلہ حل کرنے کے بعد ساری صورتحال بورڈ آف گورنرز کے سامنے پیش نہیں کی جاتی اس اشتہار پر ہر قسم کی پیش رفت روک دی جائے مگر انتظامیہ نے سیاسی دباؤ پر بورڈ آف گورنرز کے واضح فیصلوں کے برعکس نہ صرف یہ کہ کوٹے کی تفصیلات فراہم کرنے کے ساتھ بورڈ کی میٹنگ نہ بلائی گئی بلکہ اسی اشتہار کے مطابق جو حکومت پاکستان کی جانب سے طے شدہ صوبائی کوٹے کی صریح خلاف ورزی پر مبنی تھا مزید پراسس جاری رکھا۔ اکیڈمی انتظامیہ اور ڈویژن کے افسران کی بدنیتی کا یہ عالم تھا کہ اس خلافِ قواعد اشتہار کے ذریعے اپنے من پسند افراد کو بھرتی کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنے والے بورڈ آف گورنرز کی تحلیل کا انتظار کیا گیا اور بورڈ کی واضح ہدایات کے برعکس اس تاریخ سے قبل بورڈ کی اگلی میٹنگ نہ بلائی گئی تاوقتیکہ بورڈ کی تین سالہ مدت ختم ہو گئی اور مورخہ 14جون 2023ء کو بورڈ تحلیل ہو گیا۔ اس طرح ان غیر قانونی بھرتیوں کو روکنے کی راہ میں آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔

کارپوریٹ گورننس ایکٹ کے قوانین کے مطابق کسی بھی بورڈ کے تحلیل ہونے کے باوجود اس کے تمام تر فیصلے نہ صرف یہ کہ قائم رہتے ہیں بلکہ ان کی خلاف ورزی بھی جرم ہوتی ہے مگر دورِ جدید کا نظام سقہ چمڑے کے سکے چلانے پر اڑ جائے تو کیا ہو سکتا ہے؟ ان سرکاری نوکریوں کی ریوڑیاں اپنے من پسند امیدواروں میں بانٹنے کی خاطر صوبائی کوٹہ جات کو بدنیتی سے اوپن میرٹ میں بدل دیا گیا ہے۔ اس بدنیتی اور قانون کی خلاف ورزی پر مبنی اقدام کو قانونی شکل دینے کے لیے بورڈ آف گورنرز کی تیسویں میٹنگ منعقدہ اٹھارہ اپریل کے منٹس تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک جاری نہیں کیے گئے۔

چار ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور پاکستان کا سب سے معتبر ادبی ادارہ چیئرمین کے بغیر چلایا جا رہا ہے۔ بورڈ کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں پڑے ہیں‘ انتظامیہ الگ دباؤ کا شکار ہے‘ ڈویژن کے افسر عزت بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور وزیراعظم کے مشیر نے ہر قاعدے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔ یہ صرف ایک ادارے کی تصویر تھی وگرنہ ہر جگہ یہی کچھ چل رہا ہے۔ یہ بھی عجب ریاست ہے کہ اس میں ہر زور آور نہ صرف اپنی مرضی کا مالک ہے بلکہ وہ اس ملک کے قواعد‘ قوانین اور ضابطوں کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق چلانے پر بھی قادر ہے۔ یہ ملک ایسے بہت سے نظام سقہ ٹائپ زور آوروں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے اس نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کوئی عدالتوں کے فیصلوں سے انکاری ہے اور کسی کو قانون کا کوئی خوف نہیں۔ اس جدید دور میں بھی ہم جیسے خاک نشینوں کو روزانہ ہی کسی نئے نظام سقہ سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔ (ختم)