معیشت کا پہاڑ

پاکستانی معیشت اور سیاست دونوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار پر جو بھی تنقید کی جائے‘ یہ داد تو بہرحال دینا پڑے گی کہ انہوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا رکھا ہے۔تیکھے سوالات کا سامنا کرتے ہوئے انہیں غصہ آ جاتا ہے‘ اس کا اظہار کر دیتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھال بھی لیتے ہیں۔ یہ کہنا تو گستاخی ہو گی کہ وہ حرفوں کے بنے ہوئے ہیں لیکن حرفوں پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ اعداد و شمار ازبر ہوتے ہیں اور وہ ان سے اپنے معانی برآمد کرتے رہتے ہیں۔ انہیں شدید اصرار ہے کہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے گھڑی کی سوئیاں پیچھے گھمائی جائیں اور دیکھا جائے کہ 2013ء سے 2018ء تک انہوں نے معیشت کو کیسا مستحکم کیا تھا۔ پاکستان اُڑانیں بھر رہا تھا‘ دنیا اعتراف کر رہی تھی‘ ترقی کی رفتار تیز تر تھی‘ شرح سود کم ترین سطح پر آ گئی تھی‘ لیکن 2018ء میں جو تبدیلی آئی اس نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ پاکستان 2017ء میں دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن چکا تھا‘ جو 2022ء میں گرکر 47ویں نمبر پر آ گیا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت جاری رہتی تو آج پاکستان جی 20 میں شامل ہو گیا ہوتا۔موجودہ حالات پچھلی حکومت کی معاشی بدانتظامی‘ بدعنوانی‘ عناد پسندی اور اقربا پروری کا شاخسانہ ہیں۔
تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کا مؤقف مختلف ہے‘ وہ اتحادی حکومت اور اس کے وزیرخزانہ پر برس رہے ہیں اور اپنی حکومت کے کارنامے بیان کررہے ہیں‘ ان کی بات جتنی بھی ہلکی ہو اور ڈار صاحب کے دلائل میں جو بھی وزن ہو‘ عوام درپیش حالات میں پھنسے ہوئے ہیں‘ اس لئے آج کی مشکلات ان پر شدت سے اثر انداز ہوتی ہیں‘ ماضی کے دلآویز تذکرے سے ان کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ پاکستانی معیشت ایک دن میں خراب ہوئی ہے نہ ایک دن میں درست ہو سکتی ہے۔ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ ہمیشہ ہی درپیش رہا ہے۔آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے کا مرض ہمیں برسوں سے لاحق ہے۔ تمام تر دعوئوں اور نعروں کے باوجود ہم اپنی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر پائے‘ آج بھی سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات برآمدات کے (کم و بیش) برابر ہیں۔24کروڑ لوگ مل کر جو زرمبادلہ کماتے ہیں‘اُس کے لگ بھگ ڈالر لاکھوں تارکین وطن فراہم کر دیتے ہیں۔یہ درست ہے کہ وہ اپنی رقوم اپنے اعزہ و اقربا کو بھیجتے ہیں‘ قومی خزانے کو عطیہ نہیں کرتے‘ لیکن ان کی بدولت لاکھوں گھرانوں (اور کروڑوں افراد) کو آسودگی فراہم ہوتی ہے‘ بازاروں میں جو چہل پہل دیکھنے میں آتی ہے‘ اس میں ایک بڑا حصہ ان کا بھی ہے۔ اگرسمندر پار پاکستانی اپنے خاندانوں سے جڑے ہوئے نہ ہوں تو مزید کروڑوں افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔ پاکستانی صنعت کار برآمدات میں مطلوب اضافہ نہیں کر پائے اور حکومتیں بھی اسے اپنے ایجنڈے میں سرفہرست نہیں رکھ پائیں۔ آج جب بنگلہ دیش کا موازنہ پاکستان سے کیا جاتا ہے تو اعداد و شمار شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔24سال اکٹھے گزارنے کے بعد جو جبری علیحدگی عمل میں آئی‘ اس کے بعد بنگلہ دیشی معیشت نے اپنے آپ کو بہتر انداز میں سنبھالا۔ یہاں تک کہ آبادی میں اضافہ روک کر بھی دنیا بھر سے داد وصول کر لی گئی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔اُس قومی اسمبلی میں جو آبادی کی بنیاد پر منتخب ہوئی تھی‘ 300کے ایوان میں مشرقی پاکستان کو عددی برتری حاصل تھی‘ اس کا اجلاس ہی منعقد نہیں ہوسکا‘ لیکن یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ اب اس خطے میں 16کروڑ نفوس بس رہے ہیں‘جبکہ پاکستان 24کروڑ سے بھی زائد کا ملک بن چکا ہے۔نتیجتاً بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان سے زیادہ ہو چکی ہے۔ایک سو روپیہ اگر سولہ افراد میں تقسیم کیا جائے تو ہر ایک کے حصے میں اس سے زیادہ آئے گا جو چوبیس لوگوں میں تقسیم کرنے سے حاصل ہوگا۔بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی ہماری غربت میں اضافے کا بڑا سبب بن رہی ہے۔جہالت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا ایٹم بم ہمارا تعاقب کررہا ہے‘ لیکن ہم بڑھکیں مارنے میں لگے ہوئے ہیں‘ نعروں اور دعوئوں سے دنیا کو زیر کرنے کے خواب دیکھ اور دکھا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک افتاد یہ آن پڑی کہ صنعتوں کو نیشنلائز کر لیا گیا۔ بھٹو سرکار نے ترقی کرتے نجی اداروں پر قبضہ کر لیا اور وہ سب لوگ معیشت سے بے دخل کر دیئے گئے جو صنعتیں چلانے کمانے کا ہنر جانتے تھے۔ بنگلہ دیش میں ایسی کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ ہماری صنعتوں پر جو سرکاری ڈاکہ مارا گیا اس کے اثرات سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستانی معیشت جاپان اور چین کی طرح دوڑتی نظر آتی۔ آج سرکاری تحویل میں لئے گئے اداروں کے خسارے ہمیں نگل رہے ہیں اور ہم ان سے جان نہیں چھڑا پا رہے۔ گویا سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جو دوسری بڑی قیامت ہم پر مسلط کی گئی‘ اس کا نتیجہ ”سقوطِ معیشت‘‘ تھا۔
اسحاق ڈار صاحب نے جو بجٹ پیش کیا ہے‘ وہ ماضی کا بوجھ اٹھائے ہانپ رہا ہے۔ اللہ کرے اس میں مقرر کردہ اہداف حاصل کر لئے جائیں‘ ایسا نہ ہوا تو پھر منی بجٹ آئیں گے اور ٹیکس پر ٹیکس لگانا پڑیں گے۔ ہماری قومی آمدنی صوبوں کو ان کا حصہ دینے اور قرض کی قسطیں ادا کرنے کے بعد صفر ہوجاتی ہے‘ گویا باقی سارے اخراجات مانگ تانگ کر (یا نوٹ چھاپ کر) پورے کرنا ہوتے ہیں۔ ہر آنے والا دن ہمارے بوجھ میں اضافہ کرتا جا رہا ہے‘ جب تک حکومتوں کو مصنوعی طریقے سے بنانے اور گرانے والے چین سے نہیں بیٹھیں گے‘ ہماری معیشت بھی ہچکولے کھاتی رہے گی۔ آگے بڑھنے کی شرطِ اول یہی ہے کہ دستور کے مطابق معاملات چلنے دیئے جائیں۔ اہلِ سیاست کوئی ”میثاقِ معیشت‘‘ بھی کر گزریں۔معاشی اہداف اور حکمت عملی پر وسیع تر اتفاق رائے ہو‘ طے کردہ حدود و قیود کی حفاظت اس طرح کی جائے جس طرح جغرافیائی حدود کی کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہوگا تو ویسا ہوتا چلا جائے گا جیسا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ڈار صاحب نے تمام تر مشکلات کے باوجود ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس سے اضطراب اور بے چینی میں اضافہ نہیں ہوا۔ تنخواہ دار طبقے کی سنی گئی ہے‘ کم از کم اجرت میں اضافہ ہوا ہے۔ زراعت کی طرف توجہ دی گئی ہے‘ اس کی شاباش بھی ان کو مل رہی ہے‘ لیکن آئی ایم ایف سے معاملہ لٹکا ہوا ہے‘ مطلوب زرمبادلہ کا حصول واضح نہیں ہے۔مشکلات کا پہاڑ سامنے ہے‘ لیکن کوہ پیما اونچی چوٹیاںسر کرتے اور نام کماتے ہیں۔ ہماری معیشت کی چوٹیاں بھی ہمارا انتظار کررہی ہیں۔
کنور محمد دلشاد کے تازہ مجموعے
کنور محمد دلشاد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کم و بیش تیس برس خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس کے سیکرٹری کے طور پر انہوں نے اپنا نقش خوب جمایا۔وہ ریٹائر ہو چکے ہیں‘ لیکن تھک کر نہیں بیٹھے۔ پنجاب کی نگران حکومت میں وزارتِ قانون کی سربراہی ان کے ذمے ہے۔ انتخابی موضوعات پر ان کے کالم روزنامہ ”دنیا‘‘ میں شائع ہو کر خواص و عوام سے داد پاتے ہیں۔ ان کے کالموں کے دو مجموعے ”انتخابات کی سائنس اور اصلاحات‘‘ اور ”مقامی حکومتوں کا قیام اور قومی سیاست‘‘ میرے سامنے ہیں۔ کنور صاحب اپنے موضوعات پر قدرت رکھتے ہیں اس میدان میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی خصوصی دعوت پر وہاں جا کر ان کے انتخابی نظام کا گہرا مطالعہ کر چکے ہیں‘ پاکستانی نظام کا تو انہیں خصوصی مشاہدہ ہے اور تجربہ بھی۔انتخابی اصلاحات کمیشن کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ ان کی تحریروں کا مطالعہ سیاستدانوں کیلئے بھی اہم ہے اور علم سیاست کے طالب علموں کیلئے بھی۔