ضیاء الدین صاحب

وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے‘ اس کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب پلاننگ ڈویژن سے عائشہ خان صاحبہ کا ایک میسج ملا کہ 29 نومبر کو پاکستان کے ممتاز صحافی ضیاء الدین صاحب کی پہلی برسی ہے‘ جس میں ان کی خدمات پر گفتگو ہوگی۔
مجھے جھٹکا سا لگا۔ کل کی ہی بات ہے جب ضیاء الدین صاحب کا جنازہ پڑھنے گئے تھے۔ ارشد شریف نے مجھے گھر سے پک کیا تھا اور ہم دونوں میڈیا ٹائون پہنچے اور سارا راستہ ہم ضیاء الدین کی باتیں کرتے رہے تھے کیونکہ ہم دونوں نے جرنلزم ان سے سیکھا تھا۔ ضیاء الدین صاحب ہم دونوں پر سختی بھی بہت کرتے تھے۔ ضیاء الدین صاحب کا ہم دونوں پر اتنا رعب و دبدبہ تھا کہ اب بھی وہ ہمارے سامنے آجاتے تو ارشد شریف اور مجھ سے بات نہیں ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مجھے ایسے ٹی وی شو میں جانا پڑا جہاں ضیاء الدین صاحب بھی موجود تھے۔ مجھے اتنی شرمندگی ہوئی کہ مجھ سے بات نہ ہو سکی کہ اپنے استاد محترم کے سامنے بیٹھ کر کیا رائے دوں۔ اس کے بعد کبھی جرأت نہ ہوئی کہ ان کے ساتھ کسی شو میں بیٹھ سکوں۔ ہمارے دوست وسیم حقی کے گھر ضیاء الدین صاحب اکثر آتے تھے اور میں وہاں بیٹھا ہوتا تو مجھے چپ لگ جاتی اور پھر سب ان کو ہی سنتے تھے۔ مجھے اندازہ نہ تھا ایک سال میں اتنا کچھ بدل جائے گا۔ جس ارشد شریف کے ساتھ ضیاء صاحب کے جنازے میں شریک تھا‘ آج وہی ارشد قتل ہو کر منوں مٹی تلے جا سویا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ارشد شریف کی والدہ محترمہ‘ بیگم صاحبہ اور عدیل راجہ جیسے دوست مہم چلائے ہوئے ہیں کہ سپریم کورٹ اس قتل پر نوٹس لے اور انکوائری کرائے تاکہ ان کے قاتلوں کا چہرہ بے نقاب کیا جا سکے۔ایک اتنا بڑا صحافی بے رحمانہ طور پر قتل ہوا جس پر ہم سب ابھی تک صدمے میں ہیں لیکن کوئی اعلیٰ عدالتی کمیشن‘ کچھ نہیں!
میں اکثر سیمینارز میں جانے سے گریز کرتا ہوں۔ اب کسی سے بحث و مباحثہ کرنے کا شوق نہیں رہا۔ ہر شخص اپنی سوچ‘ نظریات اور رائے کا غلام ہوتا ہے جیسے میں ہوں۔ ہم لاکھ بحث کر لیں‘ آخر پر ہم اپنے اپنے نظریات پر مزید پکے ہو کر اٹھتے ہیں۔ ضیاء الدین صاحب ان صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے اُن نوجوان صحافیوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی جو آج خود بڑے صحافی ہیں۔ ارشد شریف ان میں نمایاں تھے۔ شہباز رانا اور زاہد گشکوری وہ نام ہیں جو آج پرنٹ کے بعد ٹی وی جرنلزم پر بھی نام کما رہے ہیں۔ فنکشن میں بڑی تعداد میں صحافی موجود تھے جنہوں نے احسن اقبال کے اس قدم کی تعریف کی کہ ضیاء الدین جیسے صحافی پر حکومت کی طرف سے ایسی تقریب منعقد کی جارہی تھی۔ فنکشن میں ضیاء الدین صاحب کی بیگم صاحبہ کے علاوہ ان کے چھوٹے بیٹے اکبر محمود بھی لندن سے شریک ہونے آئے ہوئے تھے۔ حامد میر‘ مطیع اللہ جان‘ پروفیسر طاہر ملک‘ امتیاز گل‘ فرحان بخاری‘ منزہ جہانگیر‘ مبارک زیب خان‘ اعظم خان‘ مہتاب حیدر بھی وہاں موجود تھے۔ میں جب ضیاء الدین کے بیٹے اکبر سے ملا تو وہ بڑے احترام اور پیار سے ملا۔ پچھلے سال ضیاء صاحب پر لکھے گئے میرے کالموں کی سیریز کا ذکر کرتا رہا۔ میں نے کہا: ضیاء صاحب کے میرے جیسے صحافیوں پر بڑے احسانات تھے۔ اس پر اکبر کہنے لگا: آپ لوگوں نے بھی تو ان کا بڑا ساتھ نبھایا اور انہیں یاد رکھا۔ جب ضیاء الدین ڈان اسلام آباد کے بیوروچیف تھے تو اکبر محمود کبھی کبھار وہاں آتا تھا۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ اور معصوم چہرے کا مالک۔
مجھے یاد آیا جب وسیم حقی صاحب نے ضیاء الدین صاحب کے ہسپتال میں داخل ہونے کا میسج کیا تھا تو دل بیٹھ سا گیا تھا۔ میں نے فوراً گائوں فون کرکے ان کے لیے بکرے کا صدقہ دلوایا تاکہ وہ جلدی صحت یاب ہو جائیں اور دو دن بعد ان کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا تھا۔ مجھے کسی نے بتایا تھا اگر کوئی ایسا بندہ کسی جانور کا صدقہ دیتا ہے جس کا مریض سے خونی رشتہ نہ ہو تو خدا ضرور دعا قبول کرتا ہے۔ میں ایسا صدقہ تین چار مواقع پر کچھ قریبی دوستوں کے لیے کر چکا ہوں جن کی صحت بہت خراب تھی اور ہر بار صدقے کے بعد خدا نے انہیں صحت عطا کی۔ میں وہاں ضیاء الدین صاحب کو اپنا احترام پیش کرنے گیا تھا۔ میرا وہاں بولنے کا نہیں‘ سننے کا موڈ تھا۔ حامد میر‘ مطیع اللہ جان‘ امتیاز گل‘ مبارک زیب اور دیگر نے ضیاء الدین صاحب سے جڑی یادوں کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا۔ مجھے بھی اچانک کہا گیا کہ ضیاء الدین صاحب پر بات کروں۔ سمجھ نہ آئی کہ کہاں سے شروع کروں۔ جولائی 1998ء کی وہ صبح یاد آئی جب میں پوری رات ملتان سے سفر کرکے اسلام آباد پہنچا تھا اور مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا زیرو پوائنٹ پر ڈان کا دفتر کہاں ہے‘ جہاں میں نے ضیاء الدین صاحب سے ملنا تھا۔ احمد علی خان صاحب نے میرا ملتان سے تبادلہ اسلام آباد کر دیا تھا۔ اگلے برسوں میں مجھے ضیاء صاحب کے ساتھ کام کرنا تھا جن کا جرنلزم میں بڑا نام تھا۔ میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا میں ڈان اسلام آباد کے بیورو آفس میں رپورٹنگ کروں گا اور وہاں احتشام الحق‘ فراز ہاشمی‘ رفاقت علی‘ انصار عباسی‘ اکرام ہوتی‘ محمد یٰسین‘ محمد الیاس‘ احمد حسن علوی جیسے بڑے صحافیوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کروں گا۔
ضیاء الدین صاحب نے سخت رویہ روا رکھا تاکہ میں غلطیاں نہ کروں۔ اکثر وہ میری میز پر آکر مجھ سے پوچھتے: کیا خبر ہے؟ پھر وہ اِنٹرو پڑھتے اور مجھے ہٹا کر خبر پڑھنے کے بعد خود اس کا انٹرو تبدیل کرتے۔ ہمیشہ سمجھایا کہ خبر کو سیدھا رکھنا ہے۔ اس میں کوئی کمنٹ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کو جب غصہ آتا تھا تو بہت زیادہ آتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھ سے ناخوش تھے لہٰذا اگر میں ڈان چھوڑ گیا تو وہ شاید سکون کا سانس لیں گے۔ اس لیے جب شاہین صہبائی ڈان چھوڑ کر دی نیوز کے ایڈیٹر بنے تو وہ انصار عباسی‘ اکرام ہوتی اور مجھے ڈبل‘ ٹرپل پیکیج پر دی نیوز لے گئے۔ اسلام آباد میڈیا میں اتنی تنخواہ آج تک کسی رپورٹر کو آفر نہیں کی گئی تھی جو ہم تینوں کو آفر کی گئی۔ مارچ 2001ء میں ہماری تنخواہ چالیس ہزار مقرر ہوئی۔ آج اس تنخواہ کا سن کر ہنسی آتی ہے اور بیس سال قبل اسلام آباد میں لوگ سمجھتے تھے کہ اتنی بڑی تنخواہ کبھی کسی رپورٹر کو نہیں ملی۔
میری ارشد شریف سے پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی کہ ہم ڈان چھوڑ کر جارہے تھے اور ضیاء الدین ہم تینوں کی کمی پوری کرنے کے لیے دی نیوز سے خلیق کیانی‘ ارشد شریف اور مبارک زیب اور کچھ اور رپورٹرز لائے تھے۔ ارشد شریف اکثر مجھے کہا کرتا تھا اگر تم لوگ ڈان نہ چھوڑتے تو ہمیں ڈان میں موقع نہ ملتا۔ میں دی نیوز میں سٹی رپورٹنگ کرتا تھا۔ جب ضیاء الدین صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا: رؤف تم نہ جائو‘ تم میری ٹیم میں ہی کام کرو۔ میں ڈان سے کہہ کر تمہیں گریڈ لے دیتا ہوں۔ تمہیں مستقل کر دیتے ہیں۔ میں ضیاء الدین صاحب کو دیکھتا رہا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی میں ضیاء الدین جیسے بڑے صحافی کو کیسے انکار کروں۔ وہ میرے استاد تھے جنہوں نے مجھے ڈان میں جگہ دی تھی اور مجھے رپورٹنگ میں مدد کی تھی۔ضیاء الدین صاحب مجھے دیکھ رہے تھے اور مجھے وہ دن یاد آیا جب انہوں نے مجھے اور نیوز ایڈیٹر ناصر ملک کو اپنے کمرے میں بلایا۔ وہ سخت پریشان تھے اور مجھے ناصر ملک کی موجودگی میں کہا تھا: رؤف تم اسلام آباد سے بھاگ جاؤ‘ تمہاری جان کو خطرہ ہے۔ مجھے پتا تھا وہ کس خبر‘ کس خطرے اور پرویز مشرف کے کس طاقتور وزیر کی بات کررہے تھے۔ میں نے کہا: ضیاء صاحب! میں کہیں نہیں بھاگوں گا۔ ناصر ملک (ابھی زندہ و حیات ہیں) نے بھی میرا ساتھ دیا۔
ضیاء الدین پر ہونے والی تقریروں میں گم‘سب یاد تھا کہ جب میں نے اسلام آباد چھوڑ کر بھاگنے سے انکار کیا تھا تو انہوں نے کیسے مجھے بچایا تھا۔