سندھ کا ملا نصیر الدین۔ وتایو فقیر

حیدر آباد سے تھر کی جانب سفر شروع کریں تو میر پور خاص سے ایک سڑک جھڈو سے ہوتی ہوئی نوکوٹ کی جانب چلی جاتی ہے۔ نو کوٹ سے آباد رقبہ ختم ہو جاتا ہے اور تھر کا ریگستان شروع ہو جاتا ہے۔ میر پور خاص سے دوسرا راستہ عمر کوٹ کی طرف چلا جاتاہے اور یہاں عمر کوٹ میں بھی زرعی علاقہ ختم ہو جاتا ہے اور صحرا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم حیدر آباد سے تھر جاتے ہوئے ٹنڈو محمد خان‘ بدین‘ نو کوٹ اور مٹھی کی طرف سے گئے جبکہ واپسی پر ننگرپارکر سے اسلام کوٹ اور وہاں سے سیدھے عمر کوٹ کی طرف نکل گئے۔ یہ سڑک بہت خراب تھی لیکن راستہ مختصر تھا‘ لہٰذا اسی راستے پر عمر کوٹ پہنچ گئے۔ عمر کوٹ کا قلعہ اور اکبر بادشاہ کی جائے پیدائش دیکھنے کے علاوہ کرشن کا پستے والا حلوہ خریدنا ہماری To doلسٹ میں شامل تھا۔ قلعے سے نکل کر بازار میں ایک چنگ چی والے سے کرشن کی دکان کا پوچھا‘ اس نے دو راستے بتائے ‘ایک مختصر اور دوسرا نسبتاً تھوڑا لمبا ‘تاہم ساتھ ہی ہماری گاڑی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا: آپ کے لیے دوسرا راستہ ٹھیک رہے گا‘ ادھر بازار والے راستے سے آپ کی گاڑی نہیں جا سکے گی۔ ہم دوسرے راستے پر چل پڑے۔ ایک آدھ جگہ سے مزید پوچھا‘ آگے جاکر گاڑی کو ایک طرف پارک کیا اور وہاں سے پیدل بازار کی طرف چل پڑے۔تنگ سڑک کی ایک گلی میں پہلی دکان کرشن کی تھی۔ دکان گاہکوں سے بھری ہوئی تھی‘ کاؤنٹر پر کھڑے شخص نے ہمیں اجنبی جان کر اپنے سیلز مین کو کہا کہ پہلے بڑے میاں کو دیکھو۔ میں نے اس جملے پر ڈاکٹر عنایت کو اور ڈاکٹر عنایت نے مجھے دیکھا اور ہم دونوں ہنس پڑے۔ چند منٹ میں ہم وہاں سے فارغ ہو گئے۔ رمیش کمار کھتری نے رات کو بتایا کہ کرشن اس کا خالو ہے اور اس کا حلوہ پاکستان سے باہر بھی بہت لوگ منگواتے ہیں۔ حلوہ خاصا لذیذ تھا۔ واپسی پر ایک دل کیا کہ عمر کوٹ سے کھپرو اور وہاں سے اچھرو تھر چلا جاؤں جہاں سفید رنگ کا منفرد ریگستان ہے جس میں چھوٹی چھوٹی کئی جھیلیں ہیں جو اپنے جلوے بکھیرتی ہیں لیکن پھر دل کو ڈھارس دی کہ اگلی بار آنے کیلئے کسی نہ کسی اَن دیکھی جگہ کی خواہش دل میں زندہ رہنی چاہئے۔ وہی منیر نیازی کا فلسفہ۔
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں اَن سنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا؟
سب باتیں اُس کی سن لیں اگر
پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
اک رنگین اَن بنی دنیا پر
اک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو
سو ہم نے اچھرو تھر کے چاندی جیسے چمکتے ہوئے صحرائے نقرہ کو آئندہ کیلئے چھوڑا اور میرپور خاص سے ہوتے ہوئے ٹنڈو اللہ یار پہنچے جہاں میں نے اعلان کر دیا کہ راشد آباد سے آگے آٹھ نوکلو میٹر بعد یوٹرن لے کر واپس راشد آباد کے قریب وتایو فقیر کی قبر پر آنا ہے۔ میں وتایو فقیر کو سندھ کا ملا نصیر الدین کہتا ہوں جو شاید ملا نصیر الدین جیسا مزاحیہ کردار تو نہیں ہے تاہم اس کی طرح سادگی اور بھولپن سے بڑی گہری بات کہہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر عنایت کو وتایو فقیر کی قبر پر جانے پر تو ہرگز اعتراض نہیں تھا لیکن یوٹرن کے باعث اس سولہ سترہ کلو میٹر کے اضافی سفر پر اسے اعتراض تھا‘ تاہم میں نے کہا کہ جب ہمارے پیارے عمران خان صاحب اتنے لمبے لمبے یوٹرن لے لیتے ہیں اور آپ ان یوٹرنز کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے ہیں تو آپ کو میرے اس بے ضرر سے یوٹرن پر کیا اعتراض ہے ؟ میرا یہ مسکت جواب سن کر ڈاکٹر عنایت خاموش ہو گیا اور ہم وتایو فقیر کی قبر پر پہنچ گئے۔ یوٹرن لے کر آئیں تو راشد آباد شروع ہونے سے چند گز پہلے پٹرول پمپ کے ساتھ بائیں طرف اندر سڑک جاتی ہے اور دو تین سو گز پر وتایو فقیر کی قبر ہے۔ چند سال پہلے تک تو یہاں صرف چبوترا تھا مگر اب باقاعدہ مقبرہ بن چکا ہے۔ یار لوگوں نے وتایو فقیر کی ایک قبر جیکب آباد میں بھی بنا رکھی ہے اور جیکب آباد کے بانی بریگیڈیئر جنرل جان جیکب کی قبر کے نزدیک ایک پرانے مقبرے پر‘ جو دراصل انگریزی فوج کے مسلمان آفیسر میر قاسم علی شاہ کا ہے‘ چاروں طرف ”صوفی وتایو فقیر‘‘ لکھ کر اس مقبرے کو وتایو فقیر سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے ‘مگر وتایو فقیر کی اصلی قبر یہی ٹنڈواللہ یار والی ہے۔
کہتے ہیں سردیوں کی ایک رات وتایو فقیر کی ماں کو سردی لگی تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ کہیں سے آگ لے آئے‘ ماں کی بات سن کر وتایو فقیر پریشان ہو گیا کہ رات کے اس پہر وہ آگ کہاں سے لائے؟ ماں نے کہا کہ اسے ہر حال میں آگ چاہئے‘ چاہے وہ اسے جہنم میں سے لائے۔ وتایو نے کہا: ماں! جہنم میں آگ نہیں ہوتی۔ ماں نے کہا: مگر گنہگار تو جہنم کی آگ میں جلیں گے۔ وتایو فقیر کہنے لگا: اماں! جہنم میں آگ نہیں ہوتی‘ وہاں آنے والا ہر شخص اپنی آگ خود اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔
وتایو فقیر نے 1643ء میں امرکوٹ کے نزدیک ایک ہندو گھرانے میں جنم لیا اس کا نام وتو مل تھا۔ اس کا والد میلھو رام اپنی بیوی اور بچوں سمیت مسلمان ہو گیا۔ میلھو رام نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام شیخ غلام محمد اور اپنے بیٹے کا نام شیخ طاہر رکھا مگر عام لوگوں میں وہ اپنے پرانے ہندوانہ نام وتو مل کے حوالے سے مشہور تھا جو بگڑتے بگڑتے وتایو اور پھر وتایو فقیر ہو گیا۔ وتایو فقیر پیشے کے اعتبار سے رنگ ساز تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ مسلمان ہوا تھا۔ وتایو فقیر بھی ملا نصیر الدین کی طرح اپنے گدھے پر سوار گاؤں گاؤں گھومتا تھا اور سفر کے دوران لطیف پیرائے میں حکمت‘ دانائی اور رمز کی باتیں کرتا تھا۔ زمین سے جڑی ہوئی وہ دانائی جو صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے‘ یہ وہ دانائی ہے جسے ا نگریزی میں Folk wisdomکہا جاتا ہے۔مشہور ہے کہ ایک بار وتایو فقیر کسی محفل میں آیا جہاں کھانے کا بندوبست بھی تھا۔ لوگوں نے اس کی فقیرانہ وضع قطع دیکھ کراسے کھانا تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس ذمہ داری کے ملنے پر اس نے محفل برپا کرنے والے سے پوچھا کہ مجھے یہ بتا دیں کہ میں یہ تقسیم انسانوں والی کروں یا خدا کی طرز پر کروں؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ خدا کی طرز پر تقسیم کرو۔ بس پھر کیا تھا! وتایو نے کسی کو بوٹیاں دے دیں اور کسی کے آگے صرف شوربا رکھ دیا۔ کسی کے آگے روٹیوں کا ڈھیر لگا دیا اور کسی کوایک آدھ روٹی دے دی۔ کسی کو دو لقمے دیے اور کسی کو کہا کہ پھر کسی دن آ جانا آج تو کچھ نہیں ہے۔ وتایو کی اس تقسیم سے کچھ لوگ تو بہت خوش ہوئے مگر اکثر ناراض ہو گئے اور اسے لعن طعن کرتے ہوئے چلے گئے۔ وتایو نے اوپر نظر اٹھائی اور کہنے لگا: واہ اللہ میاں! بندہ تمہارے جیسی تقسیم کرے تو اتنی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ تیری ہمت ہے کہ تو ان انسانوں کے ساتھ اتنے عرصے سے معاملات کر رہا ہے۔ وتایو فقیر کی گفتگو کا مخاطب عموماً اللہ تعالیٰ ہے جس سے وہ لاڈ بھی کرتا ہے اور جھگڑتا بھی ہے۔ وتایو کی قبر پر اس کا ایک قول درج ہے”جیسا میں کل تھا‘ تم آج ویسے ہو اور جیسا میں آج ہوں‘ کل تم ویسے ہو جاؤ گے‘‘۔