میرے عزیز ہم وطنو!

اللہ مجھے جذبات سے لبریز سیاسی عقیدت مندوں کے شر سے محفوظ رکھے؛ تاہم میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عمران خان نے اپنے حامیوں اور اپنے مخالفین کو بالکل ایک ہی درجے کا ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر کسی کو اس بات پرا عتبار نہیں تو وہ رانا ثنااللہ کا حالیہ انٹرویو دیکھ لے۔ یہ انٹرویو کسی سیاسی رہنما کا نہیں بلکہ کسی مار دھاڑ اور ایکشن سے بھرپور فلم کے کسی وار لارڈ یا گینگسٹر تنظیم کے سربراہ کا بیان لگتا ہے۔ اب اگر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک کا آئندہ منظر نامہ کس قسم کا ہو سکتا ہے۔
دونوں اطراف کے لوگ اب ایک دوسرے کے سیاسی مخالفین نہیں بلکہ ایک دوسرے کے جانی دشمن دکھائی پڑتے ہیں۔ دونوں اطراف کے لوگ ایک جیسے مائنڈ سیٹ کے حامل ہیں‘ ایک جیسی جذباتیت کا شکار ہیں اور ایک جیسی انتہا پسندی سے مغلوب ہیں۔ دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان جس طرح کی نفرت کی خلیج آ چکی ہے لگتا نہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ کم ہو سکے۔ ہر آنے والا دن اس خلیج کو مزید وسعت دے رہا ہے اور درمیانی راستہ نکلنے کے امکانات معدوم سے معدوم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ تاریخ انسانی بتاتی ہے کہ نفرت کو کبھی نفرت سے‘ دشمنی کو کبھی دشمنی سے اور خرابی کو کبھی دوسری خرابی سے درست نہیں کیا جا سکتا مگر کیا کریں؟ تاریخ کا سب سے بدترین سبق یہ ہے کہ ابنِ آدم نے کبھی بھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔
چلیں‘ عمران خان کو تو چھوڑیں کہ وہ اپنی حکومت کے خاتمے پر بے چین ہیں اور اس صدمے کے زیر اثر ہر چیز کو برباد اور تباہ کرنے پر اترے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر ملک دیوالیہ بھی ہو جائے تو یہ ان کیلئے امپورٹڈ حکومت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔ وہ اپنی حکومت کے خاتمے پر اور موجودہ حکومت کے غیر جمہوری اور فسطائی رویے پر دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر ممالک کو جو خط لکھ رہے ہیں اس کے نتیجے میں اگر پاکستان پر عالمی سطح پر کچھ پابندیاں لگتی ہیں تو ان سے پاکستانی عوام متاثر ہوں گے‘ مگر خان صاحب کو اس کی قطعاً فکر نہیں کہ ان کے حساب سے اگر وہ حکومت میں نہیں تو بے شک ملک کی ایسی تیسی ہو جائے ان کے جوتے کی نوک پر۔ شوکت ترین کے وزیر خزانہ پنجاب اور کے پی کو فون کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے معاملہ خراب ہو جاتا تو خان صاحب کو خوشی ہوتی اور ان کی بے لچک سیاست سے اگر ملک کی جمہوریت کا بستر لپٹ جائے تو بھی خان صاحب کو رتی برابر فکر نہیں کہ ان کے حساب سے اگر وہ نہیں تو پھر بے شک سارا سیاسی نظام جہنم رسید ہو جائے اور بھلے ملک دیوالیہ ہو جائے‘ اس ملک کے ساتھ جو بھی ہو جائے انہیں یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ یہ صرف ان کی حکومت کو ختم کرنے اور امپورٹڈ حکومت لانے کا نتیجہ ہے کہ ملک برباد ہو گیا ہے اور عوام تباہ ہو گئے ہیں۔
لیکن اس حکومت کو کیا ہوا ہے؟ اس حکومت کے چھوٹے سے کل پرزے سے لے کر وزیراعظم کو بھی اس ملک سے زیادہ عمران خان کو ”نْکر‘‘ لگانے کی فکر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ ان کا سارا زور صرف اور صرف الیکشن سے فرار حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو عمران خان واپس آ جائے گا‘ حکومت اور منصوبہ سازوں کو بھی اس سے غرض نہیں کہ ملک تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ معیشت کہیں پاتال سے بھی نیچے پہنچ چکی ہے اور دنیا بھر میں کوئی ان پر بھروسا نہیں کر رہا۔ آئی ایم ایف ان سے سو بار ناک رگڑنے کا کہتی ہے جب وہ ننانوے پر پہنچ جاتے ہیں تو آئی ایم ایف والے گنتی بھول جاتے ہیں اور دوبارہ ایک سے شروع کروا دیتے ہیں۔ دوست ان کے کشکول میں اب پھوٹی کوڑی ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ملک اندرونی طور پر ایک ناکام ترین ریاست کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ حکومت کو عمران خان اینڈ کمپنی پر گوادر سے چترال تک مقدمے بنوانے سے فرصت نہیں۔ چھیاسی رکنی کابینہ کی کارکردگی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ لے دے کر چار‘ چھ لوگ ہیں جو صرف عمران خان کو لتاڑنے اوراس پر پھنکارنے پر لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب‘ وزیر دفاع خواجہ آصف‘ وزیراعظم کے مشیر عطا اللہ تارڑ اور دو چار اسی قسم کے بھونپو ہمہ وقت مذمتِ عمران میں اس طرح مصروف ہیں گویا ان لوگوں کو اس کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں۔
عوامی سطح پر ڈرامائی انٹری ڈالنے میں وسیع تجربے کے حامل ہمارے وزیراعظم میاں شہباز شریف جو اس سے پہلے سستی روٹی‘ سستے تنوروں اور سستے آٹے کی مد میں اس ملک کے اربوں روپے خاکستر کر چکے ہیں سابقہ ڈراموں کی باکس آفس پر ناکامی کے بعد اب مفت آٹے کا ڈرامہ کر کے اپنی بدترین کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی جو کوشش کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں درجن بھر کے لگ بھگ لوگ اپنی جان سے جا چکے ہیں اور وہ آٹا سنٹروں کے دورے کر کے وزیراعظم جیسے اہم منصب کو ٹکے ٹوکری کرنے کے درپے ہیں۔ ملک میں اس وقت جو صورتحال ہے وہ ان کی فوری توجہ اور ایکشن کی متقاضی ہے مگر حال یہ ہے کہ وہ مختلف شہروں میں آٹا پوائنٹ چیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ کسی ڈپٹی کمشنر کے منصب سے بھی نیچے کا کام ہے جس پر گزشتہ تین ہفتوں سے وزیراعظم سمیت ساری صوبائی اور ضلعی انتظامیہ لگی ہوئی ہے۔ ہماری ہر حکومت کی ترجیح فوری اور سستی شہرت ہے۔ کوئی لنگر خانے بنانے لگ جاتا ہے۔ کوئی پناہ گاہ کھول دیتا ہے۔ کوئی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کر دیتا ہے ا ور کوئی مفت آٹا تقسیم کر کے سمجھتا ہے کہ وہ اس ملک سے غربت کا خاتمہ کر رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں ہم لوگ اس ملک میں فقیر اور منگتے پیدا کر رہے ہیں۔
ایک طرف بنگلہ دیش کی خواتین ریڈی میڈ گارمنٹس اور دوسری کاٹیج انڈسٹری کو سنبھالے بیٹھی ہیں اور دوسری طرف ہماری خواتین مفت آٹے‘ انکم سکیم کے چیک اور لنگر خانوں کے باہر قطاروں میں کھڑی ہیں۔ پچاس لاکھ آٹے کے مفت تھیلوں کی تقسیم سے اس ملک میں نہ غریب ختم ہوگا اور نہ ہی غربت ختم‘ مگر حکمرانوں کو اس ملک کی معیشت سے زیادہ اپنی فوری اور سستی شہرت سے غرض ہے حالانکہ مفت آٹے کی لائن میں لگ کر گھنٹوں تک خوار ہونے کے بعد آٹے کا تھیلا سر پر رکھ کر آتے ہوئے کسی شخص کو میں نے کلمۂ خیر کہتے ہوئے نہیں سنا۔ اکثر لوگ اس خواری اور ذلت کے بعد حکمرانوں کے لئے تبرّا کرتے ہوئے گھر واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کایہ حالیہ اقدام تباہ شدہ معیشت پر مزید بوجھ ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور اگر ان کا خیال ہے کہ پچاس لاکھ مفت آٹے کے تھیلے تقسیم کر کے وہ آئندہ الیکشن میں عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
فی الوقت ملک کی معاشی صورتحال ایک ڈوبتے ہوئے جہاز سے مختلف نہیں‘ لیکن جہاز کے کپتان سے لے کرخلاصی تک اس بارے میں کچھ سوچنے کے بجائے جہاز کے سابق کپتان کے خلاف ہفتہ صفائی منانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی ان احمقوں کو بتائے کہ اگر جہاز سلامت رہے گا تو کپتانی کے حصول کا موقع ملے گا اگر جہاز ہی ڈوب گیا تو کیسی کپتانی اور کیسی حکومت؟ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ محبانِ پاکستان بھی منہ چھپائے پھر رہے ہیں اور ان کی اپنی مایوسی اورناامیدی کا یہ عالم ہے کہ غالباً اب ”میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ سو میرے عزیز ہم وطنو! اگر اس بارے کوئی نہیں سوچ رہا تو آپ کو ہی کچھ سوچنا ہوگا۔ آخر کار یہاں رہنا تو آپ نے اور ہم نے ہے۔ باقیوں کا کیا ہے؟