آگے آپ خود سمجھدار ہیں

یہ ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ کا شاید پہلا واقعہ ہے کہ حکمران پارٹی انتخاب سے بھاگی پھر رہی ہے۔ اس سے پہلے کم از کم اس عاجز کی یاد میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے کہ خود حکمران پارٹی کی الیکشن کے نام پر ہوا سرکی ہو۔ وگرنہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن حیلے بہانے کرتی ہے اور متوقع دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے قبل از وقت بائیکاٹ یا بعد ازاں نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے میدان چھوڑ کر بھاگتی ہے مگر ادھر عجب معاملہ ہے کہ ایک پارٹی کے علاوہ سارے ملک کی باقی ماندہ سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد پر مبنی حکومت ایک پارٹی سے ڈر کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑ لگا رہی ہے۔
یہ ملک ایک آئینی ریاست ہے اور اس کا طرزِ حکومت جمہوری اور انتخابی سیاست پر استوار ہے۔ گو کہ اس ملک پر عشروں تک آمریت بھی مسلط رہی مگر اس جبر کے نظام کو مجبوری تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے اس ملک کے دستوری نظام کے تحت کسی طور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب ملک میں آئین‘ قانون اور اصولوں کی بات ہوگی تو پھر اس ملک میں حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہو کر آنے والے کو ہی دیا جائے گا۔
اس ملک میں فی الوقت تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان حائل سیاسی خلیج اتنی گہری ہے کہ کوئی فریق دوسرے فریق کا نام سننا بھی گوارا نہیں کر رہا۔ ایسے میں کوئی شخص اگر دونوں فریقین میں سے کسی ایک کا مکمل ساتھ دینے کے علاوہ کوئی دوسری عقلی بات کرتا ہے تو اس کی دونوں طرف سے لفظی جوت پیزار کی جاتی ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو کم از کم میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عقلی‘ سیاسی اور آئینی طور پر عمران خان کی طرف سے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے اور پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا فعل سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں تھا‘ لیکن اب یہ بات شاید بعد از مرگ واویلے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں رہی اور اب سوال اس ملک میں جمہوریت کی بقا کا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ آخر دو عدد صوبائی اسمبلیاں صرف ایک فرد کی خواہش کی بھینٹ کیسے چڑھ سکتی ہیں؟ میری اپنے ایک عزیز دوست کے بھانجے سے‘ جو قانون کا طالب علم رہ چکا تھا‘ بحث ہو رہی تھی کہ آخر371 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی اور 145ارکان پر مشتمل کے پی اسمبلی بغیر کسی دستوری اور قانونی وجہ کے آخر ایک ایسے شخص کی خواہش بلکہ زبردستی کی خواہش پر کیسے توڑی جا سکتی ہے جس کے پاس ان اسمبلیوں کو توڑنے کی کوئی اخلاقی‘ سیاسی یا آئینی وجہ نہ ہو بلکہ اس کے مدِنظر صرف اور صرف اس جمہوری نظام کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کی ضد ہو۔ اس کے پیش نظر اپنی حکومت کے عدم اعتماد کے ذریعے خاتمے پر اسے دستوری حربہ سمجھنے کے بجائے دنیا بھر کی سازشوں کا شوشہ چھوڑ کر جوابی طور پر غیر جمہوری طرزِ عمل ہو تو بھلا کوئی کیسے درست کہہ سکتا ہے؟ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ اس عدم اعتماد کے پیچھے جو لوگ ڈوریاں ہلا رہے تھے‘ وہ پوشیدہ ہونے کے باوجود بالکل واضح ہیں اور اس بارے میں کسی کو کوئی ابہام نہیں ہے لیکن یہ ڈوریاں ہلانے والے تو وہی ہیں جو تھوڑا ہی عرصہ پہلے خود خان صاحب کیلئے ان کے سیاسی میدان میں حائل ساری رکاوٹیں دور فرمایا کرتے تھے۔ اگر خان صاحب نے تب ان کی معاونت اور سہولت کاری کے مزے اٹھانے سے انکار کیا ہوتا تو ان کی جانب سے اپنی حکومت کے خلاف غیر قانونی مداخلت پر احتجاج کرنا ان کا حق ہوتا‘ مگر سہولت کاروں کی طوطا چشمی پر انکے سارے سابقہ احسانات بھول جانا بھلا کونسی قابلِ تحسین حرکت ہے؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1988ء میں بلوچستان کے تب کے گورنر جنرل (ر) موسیٰ خان نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر ظفر اللہ خان جمالی کی ایڈوائس پر صوبائی اسمبلی توڑ دی۔ یہ معاملہ تب بلوچستان ہائی کورٹ میں گیا تو معزز عدالت نے بلوچستان اسمبلی کی تحلیل کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اسمبلی کی تحلیل کسی ٹھوس قانونی جواز کے بغیر عمل میں لائی گئی تھی اس لئے بدنیتی پر مبنی اس اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کی جاتی ہے۔ اس فیصلے سے یہ بات طے ہوتی ہے کہ اسمبلی توڑنے کیلئے ٹھوس آئینی اور سیاسی وجوہات کا ہونا ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی فردِ واحد اپنی انا کے گھوڑے پر سوار اپنی خواہشات کی تلوار کی ایک ضرب سے پانچ سو سولہ صوبائی حلقوں پر مشتمل دو عدد اسمبلیاں توڑ کر رکھ دے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہو کر آتے ہیں لیکن ان کی جیت ووٹروں کے اعتماد کی مرہون منت ہوتی ہے اور وہ لاکھوں ووٹروں کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اب یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ ان لاکھوں ووٹروں کے منتخب کردہ سینکڑوں ارکان اسمبلی پر مشتمل دو عدد صوبائی اسمبلیاں صرف خان صاحب کی خواہش کی بھینٹ چڑھا دی جائیں؟
یہ سوال اب شاید بعد از وقت ہو چکا ہے اور عدالتیں ان دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کو بہرحال قبول کر چکی ہیں اور اب اس کا واحد حل نئے انتخابات ہیں جو آئین کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے نوے دن کے اندر ہونا ضروری ہی نہیں لازمی ہیں لیکن جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے‘ اس کے مطابق تو حکمران کسی طور الیکشن کروانے پر تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ عدالت عظمیٰ اس بارے میں بڑا واضح حکم دے چکی ہے لیکن یہ بھی ہماری زندگی میں شاید پہلا موقع ہے کہ عدالت عظمیٰ کے واضح حکم کے باوجود حکمران نہ صرف اس حکم پر عمل کرنے میں لیت و لعل کر رہے ہیں بلکہ وہ اس فیصلے کو کھلے عام تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اس فیصلے کے خلاف اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کر چکے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 68میں واضح درج ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کا کنڈکٹ اور فیصلہ اسمبلی میں زیر بحث نہیں آ سکتا اور اس پر گفتگو نہیں ہو سکتی مگر یہ ملک اب صحیح معنوں میں آئین اور قانون سے ماورا دکھائی دے رہا ہے۔ قومی اسمبلی نے اپنی قرارداد میں کہا کہ ایوان سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے ایک ہی وقت پر عام انتخابات کو مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ اب جبکہ تحلیل شدہ دو اسمبلیوں کا الیکشن نوے دن کے اندر کروانے کا آئینی حکم موجود ہے اور اوپر سے موجودہ حکمران اتحاد سے نہ ملک چل رہا ہے اور نہ معاشی حالات سنبھالے جا رہے ہیں تو انہیں اپنی ہی پاس کردہ قرارداد کو عملی طور پر قابلِ عمل بنانے کیلئے قومی اسمبلی اور دو عدد بقیہ صوبائی حکومتیں تحلیل کر دینی چاہئیں تاکہ ملک میں ایک ہی وقت پر انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے اور حکمرانوں کی اپنی پاس کردہ قرارداد کے مطابق اس ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آ سکے۔
حکمرانوں کو اگر یہ غلط فہمی ہے کہ وہ الیکشن کو لٹکا کر اور آگے لے جا کر اس سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل کر سکیں گے یا وہ اس سے اپنے ووٹ بینک میں کوئی اضافہ کر سکیں گے تو ان کیلئے نہایت ہی بری خبر یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ ہر آنے والا دن ان کیلئے مزید خبریں لے کر آئے گا۔ تاہم اس عاجز کا خیال ہے کہ الیکشن سے فرار نے لندن میں بیٹھے ہوئے میاں نواز شریف کے ”ووٹ کو عزت دو‘‘والے بیانیے کی تو ایسی تیسی پھیر کر رکھ دی ہے اور اب انہیں کسی نئے بیانیے اور سیاسی میت کی ضرورت ہے جو وہ میاں شہباز شریف کی فرمائشی نااہلی سے حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اس سے انہیں دہرا فائدہ ہو گا۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔