معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
مستقل مزاج حکومت
قریب دو ماہ بعد واپس ملتان پہنچا ہوں تو دماغ میں پیدائشی خلل کے باعث یہ امید وابستہ کر لی کہ جب واپس پہنچوں گا تو کچھ نہ کچھ بہتری تو آ چکی ہو گی۔ اور کچھ بھی نہیں تو کم از کم وہ قدیم شاہراہ عام اور شہر کی مصروف ترین سڑک‘ جو لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ کی مشرقی سمت واقع ہے اور سو سال سے زائد عرصہ سے شہر سے کینٹ اور ریلوے سٹیشن جانے والی ٹریفک کو رواں رکھنے کے کام آتی تھی، اور جو گزشتہ کچھ عرصے سے ہفتے کے پانچ دن صبح سے لے کر شام تک وکلا کی پارکنگ میں بدل چکی ہے اور ان اوقات میں عام ٹریفک کے لیے بند کر دی جاتی ہے‘ شاید میری واپسی تک کھل گئی ہو اور اس پر شرفاء کو گاڑی گزارنے کی آزادی مل چکی ہو‘ مگر حالات جوں کے توں تھے اور سڑک حسب سابق وکلاء کی پارکنگ کی صورت میں ہی موجود تھی۔
پھر میں وہاں سے چکر کھا کر ابدالی روڈ پر آیا اور ملتان پریس کلب کے سامنے سے گزرتے ہوئے فٹ پاتھ پر قبضہ شدہ دیوار کو بھی اسی طرح موجود پایا جس طرح یہ دیوار میری امریکہ روانگی سے قبل موجود تھی۔ ایس پی چوک سے لے کر نواں شہر چوک تک ساری سڑک پر یہ فٹ پاتھ موجود ہے‘ مگر ملتان پریس کلب کے سامنے والے حصے کو میرے صحافی بھائیوں نے دھکے سے اپنی حدود میں شامل کرتے ہوئے اس پر دیوار بنا لی ہے۔ اسی سڑک کے آخری کونے پر ڈی پی او کی رہائش گاہ ہے اور اس کے ساتھ قدیمی ڈپٹی کمشنر ہائوس ہے‘ مگر کسی کو یہ فٹ پاتھ خالی کروانے کی توفیق نہیں ہو رہی۔ قانون کا اطلاق میرے امریکہ جانے سے پہلے بھی زور آوروں کے آگے جس طرح سر نگوں تھا واپسی پر بھی اسی طرح زور آوروں کی تابع داری میں مصروف ہے۔
راوی اربن منصوبے پر جسٹس شاہد کریم کے تاریخ ساز فیصلے نے زمین ہتھیانے کے لیے 1894 کے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے سیکشن چار کے بے محابہ اور اندھا دھند استعمال کے آگے ڈکا لگانے کی جو کوشش ہے‘ دعا ہے کہ یہ اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو اور انگریزی دور کا یہ کالا قانون بھلے ختم نہ بھی ہو تو اس میں بہتری ضرور آنی چاہیے۔ درج بالا سڑک‘ جو آج کل وکلا کے لیے پارکنگ لاٹ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے‘ کے ایک کونے پر لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ کی عمارت ہے تو اس کے عین سامنے دوسرے کونے پر آج کل ایک ملٹی نیشنل فاسٹ فوڈ چین کی عمارت ہے۔ یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے کہ اس کونے میں ریلوے آفیسرزکلب کی عمارت اور ریلوے ملازمین کے چند مکان تھے۔ یہ ملتان شہر کی مہنگی ترین زمین کہی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ریلوے افسران بشمول ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی وسیع و عریض کوٹھیاں اور نیا کمشنر ہائوس ہے۔ پرانا کمشنر ہائوس چودھری پرویز الٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی توسیع کی نذر ہو گیا تو ریلوے کی کئی ایکڑ پر مشتمل ایک پرانی کوٹھی کو گرا کر یہاں نیا کمشنر ہائوس بنا دیا گیا۔ یہ سڑک پرانا بہاول پور روڈ کہلاتی ہے۔
یہ سڑک کسی طرح بھی بہاول پور جانے کے لیے استعمال ہونے والے عمومی راستے کا حصہ نہیں ہے تو پھر اس کا نام بہاول پور کے نام پر کیوں رکھا گیا؟ ایک بزرگ نے بتایا کہ پہلے اس سڑک پر نواب بہاول پور کی وسیع و عریض جائیداد تھی‘ جس کی وجہ سے بہاول پور روڈ مشہور ہو گئی‘ پھر جب بہاول پور جانے والی سڑک کا نام بہاول پور روڈ ہوا تو اسے اولڈ بہاول پور روڈ کا نام دے کر علیحدہ شناخت دے دی گئی۔ اسی بزرگ نے بتایا کہ یہ ریلوے کی کوٹھیاں اور کونے پر بنا ہوا ریلوے آفیسرز کلب نواب بہاول پور کی اسی جائیداد میں قائم کیا گیا ہے۔ اس بزرگ نے‘ جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں‘ بتایا کہ تب نواب صاحب کی یہ ساری جائیداد انگریزوں نے مفاد عامہ کے قانون کے تحت قبضہ میں لے لی تھی۔
انگریز نے نواب بہاول پور کی یہ وسیع و عریض قیمتی جائیداد مفاد عامہ کے لیے استعمال کے جس قانون کے تحت ہتھیائی تھی غالباً وہ یہی 1894 کے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کا سیکشن چار ہی ہو گا۔ یہ ریلوے آفیسرز کلب ڈیڑھ دو عشرے قبل تک موجود تھا۔ اس کلب میں ٹینس کورٹ وغیرہ بھی تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ٹینس کورٹ کی جگہ شادیوں کے تمبو قناتیں لگنے شروع ہو گئے۔ یہاں پر پرائیویٹ فنکشنوں کے لیے بکنگ شروع ہو گئی اور ایک عدد بکنگ آفس بھی بن گیا۔ نواب بہاول پور کی مفاد عامہ کے لیے حاصل کی گئی جائیداد پر بنا ہوا آفیسرز کلب گرا کر یہ کارنر پلاٹ ایک ملٹی نیشنل فوڈ چین والوں کو غالباً تیس سالہ لیز پر دے دیا گیا اور سارے گھر گرا کر وہ جگہ شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے ایک مشہور و معروف کیٹرنگ والوں کو کرائے پر دے دی اور انہوں نے یہاں مارکی لگا لی۔ یوں مفاد عامہ کے قانون کے تحت انگریز کی حاصل کی گئی جائیداد پاکستان بننے کے بعد نواب کو واپس کرنے کے بجائے دیسی بابوئوں نے اس کا کمرشل استعمال کرنا شروع کر دیا اور آفیسرز کلب کی ساری زمین لیز اور ٹھیکے پر دے کر آگے سے پیسے کھرے کر لیے حالانکہ قانونی طور پر وہ یہ زمین نہ کمرشل بنیادوں پر استعمال کر سکتے تھے اور نہ ہی اسے کسی اور کو کرائے پر، ٹھیکے پر یا لیز پر دینے کے ہی مجاز تھے مگر یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔
1880 میں تعمیر کردہ ایک مرکزی گنبد کے چاروں طرف نسبتاً چار چھوٹے گنبدوں اور مزید مختلف سائز کے آٹھ گنبدوں والی ایک نہایت ہی عالی شان اور خوب صورت سفید عمارت ملتان کینٹ میں موجود ہے۔ یہ غالباً ملتان کی سب سے قدیم عمارت ہے جو اپنے اصل سٹرکچر اور ڈیزائن کے ساتھ سلامت کھڑی ہے۔ یہ بھی کبھی نواب بہاول پور کی ملکیت تھی۔ آج کل شادی بیاہ کی تقریباً کے لیے ملتان کی سب سے اعلیٰ، مہنگی اور سب سے با وقار جگہ سمجھی جاتی ہے۔ اللہ جانے یہ بھی اسی سیکشن فور کا کارنامہ تھا یا کوئی اور کلیہ آزمایا گیا؛ تاہم یہ سب کچھ کمرشل بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے اور انگریز کے دور کے اس قانون کو اس کی اصل روح کے بالکل برعکس لاگو بھی کیا جا رہا ہے اور استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
خیر یہ بات تو میرے گمان سے بھی باہر ہے کہ میری غیر موجودگی میں عثمان بزدار جیسی نابغہ روزگار شخصیت تبدیل ہو چکی ہو گی لیکن امید تھی کہ کم از کم گزشتہ تین سالوں میں ملتان میں بننے والی گنتی کی چند سڑکوں میں سے ایک زکریا ٹائون والی سڑک‘ جو میرے پیارے وزیر اعلیٰ نے اپنے ایک عزیز دوست کی فرمائش پر بنوائی تھی اور ایک پنجابی محاورے کے مطابق ابھی اس کا راہ وی میلا نہیں ہوا تھا کہ اس کے گٹر کے ڈھکن‘ جو پہلے دن سے ہی سڑک کی سطح سے دو تین انچ اوپر یا چار پانچ انچ نیچے تھے اور میرے امریکہ جانے سے قبل ہی باقاعدہ ٹوٹ چکے تھے تقریباً دو ماہ بعد واپس آیا ہوں تو دیکھا کہ نہ صرف اپنے بزدار صاحب ماشا اللہ موجود ہیں بلکہ ٹوٹے ہوئے ڈھکن بھی جوں کے توں ہیں۔ جی خوش ہوا کہ چلیں ہماری حکومت کسی بات پر تو مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔