جرم کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی

اسد نے مجھ سے پوچھا کہ بابا جان! یہ بنانا ریپبلک کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا: بیٹا اس سے مراد ہے کیلے جیسی جمہوریہ۔ اسد زور سے ہنسا اور کہنے لگا: یہ بھلا کیا بات ہوئی؟ بنانا ریپبلک سے مراد آخر کس قسم کی جمہوریت یا ریاست ہے؟ اب یہ کہہ دینا کہ یہ کیلے جیسی جمہوریت ہے تو کوئی بات نہ ہوئی۔ میں نے کہا: اچھا تم یہ بتاؤ کیلے میں کوئی گٹھلی ہوتی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں نے پوچھا: کیلے کا کوئی سخت خول یا شیل ہوتا ہے؟ اسد کہنے لگا: نہیں ہوتا۔ پھر میں نے پوچھا: کیا کیلے میں کوئی ریڑھ کی ہڈی جیسی چیز ‘مطلب ہے Spine ہوتی ہے؟ اسد نے جواب دیا کہ نہیں‘ ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ میں نے کہا: اب تمہیں سمجھ آ جانی چاہیے کہ بنانا ریپبلک کیا ہوتی ہے۔ جس حکومت میں نہ گٹھلی ہو‘ نہ کوئی سخت خول ہو‘ نہ ریڑھ کی ہڈی ہو اور نہ ہی رِٹ ہو تو وہ بنانا ریپبلک کہلاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جیسے چاہیں موڑ لیں اور جیسے چاہیں توڑ لیں۔ نہ کوئی روک ٹوک ہو اور نہ کوئی مزاحمت ہو۔ جس کا جہاں زور چلتا ہو چلا لے اور ریاست خاموش تماشائی ہو۔ جو قانون کو مان لے اس کا بھی بھلا اور جو نہ مانے اس کا بھی بھلا۔ کیلے کو جہاں سے جی کرے توڑ لیں اور جہاں سے مرضی دبا دیں۔ نہ کہیں رکاوٹ ہے اور نہ کہیں آپ کو کسی دِقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ریاست بے دست و پا اور لاچار ہو جائے تو اس کو بنانا ریپبلک کہتے ہیں۔
اسد چند لمحے تو خاموش رہا پھر کہنے لگا: اب بات سمجھ میں آئی۔ ویسے بابا جان کیلے کے تو درخت میں بھی لکڑی نامی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ بس سبزے کی پرتیں ہیں۔ ایک اتاریں تو نیچے ایک اور پرت آ جاتی ہے۔ اس پرت کو اتاریں تو نیچے ایک اور پرت اور اسی طرح تہہ در تہہ پرتیں اتارتے جائیں تو آخر میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کیا کیلے کے درخت کا تنا بھی اس جمہوری ریاست کے نام کی عکاسی کرتا ہے؟ میں نے کہا: تم نے خوب مثال دی ہے۔ جب تنے میں ہی کچھ نہیں ہوگا تو بھلا انتظامیہ کس زور پر کھڑی ہو گی؟ اس تنے کو مقننہ سمجھ لیں‘ عدلیہ سمجھ لیں یا انتظامیہ سمجھ لیں۔ سب کچھ بے جان‘ بے روح‘ ناتواں‘ بغیر ہڈی کے ہوگا تو بھلا نظام کیسے چلے گا؟
اسد پوچھنے لگا کہ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ پاکستان بنانا ریپبلک بننے کی طرف گامزن ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ میں نے کہا: تم نے غلط سنا ہے کہ پاکستان بنانا ریپبلک بننے کی طرف گامزن ہے۔ لیکن خبردار تم نے یہ بات باہر کسی سے نے نہیں کرنی۔ بنانا ریپبلک ٹائپ ریاستیں اس بارے میں بڑی حساس ہوتی ہیں اور ایسے راز افشا کرنے والوں کے بارے میں بالکل بھی بنانا ریپبلک نہیں ہوتیں۔ آپ ریاست کو لوٹ لیں‘ تباہ کر دیں‘ برباد کر دیں‘ قانون کی دھجیاں بکھیر دیں‘ عدل وانصاف کو گھر کی لونڈی بنا لیں‘ اداروں کو برباد کر دیں‘ نظام کوتلپٹ کر دیں‘ ریاست صبر کرے گی لیکن آپ جیسے ہی یہ نشاندہی کریں گے کہ یہ بنانا ریپبلک ہے‘ ریاست کے کار پردازان کی غیرت پر چوٹ پڑے گی اور وہ بہرحال آپ کو یہ اجازت ہرگز نہیں دیں گے کہ آپ لوگوں کو یہ بتاتے پھریں کہ یہ بنانا ریپبلک ہے‘ لہٰذا تم کو تو یہ بات میں نے بتا دی ہے لیکن تم نے آگے اس کا کسی سے ہرگز ذکر نہیں کرنا۔ یہ واحد معاملہ ہے جس کے بارے میں بنانا ریپبلکس بہرحال بہت حساس ہوتی ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا کہ اسے آخر اچانک سے یہ سوال کیسے یاد آ گیا؟ وہ کہنے لگا: میں انٹرنیٹ پر کوئی آرٹیکل پڑھ رہا تھا جس میں جڑانوالہ کے سانحہ کے حوالے سے اس آرٹیکل کے مصنف نے پاکستان کو بنانا ریپبلک سے تشبیہ دی تھی۔ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کے خیال میں ایسے واقعات کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ میں نے کہا: اس کی بنیادی وجہ تو دراصل یہ ہے کہ ہم گنہگار لوگوں نے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے وہ کام سرانجام دینا شروع کر دیے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھے ہوئے تھے۔ اسد نے حیرانی سے پوچھا: وہ کیسے؟ میں نے کہا: اسد میاں! قرآن کریم کی سورۃ الغاشیہ کی آخری چھ آیات اس بارے میں بڑی واضح ہیں۔ آیت اکیس سے چھبیس تک اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور آخری نبی ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ ”اچھا تو (اے نبی!) نصیحت کیے جاؤ‘ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو(21) کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو(22) البتہ جو شخص منہ موڑے گا اور انکار کرے گا(23) تو اللہ اس کو بہت بڑی سزا دے گا(24) ان لوگوں کو ہماری ہی طرف پلٹنا ہے(25) اور پھر ان کا حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے(26)۔ ان چھ آیات کا ایک سطری مفہوم یہ ہے کہ پیغمبروں کا کام صرف نصیحت کرنا ہے جبکہ حساب لینا اللہ کا کام ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھی حساب لینے کا اختیار نہیں دیا وہاں ہم گنہگار حساب لینے والے بن بیٹھے ہیں۔ مسجدوں میں اعلانات کرتے ہیں اور کھڑے کھڑے سزا سنا کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ گھروں کو جلاتے ہیں۔ لوگوں کو جان سے مار کر موٹر سائیکلوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹتے ہیں۔ دوسروں کی عبادت گاہیں مسمار کرتے ہیں۔ خود ہی الزام لگاتے ہیں اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ سناتے ہیں اور پھر خود ہی اس فیصلے پر عملدرآمد کر دیتے ہیں۔ ہم بھلا حساب لینے اور جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والے کون ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہم نے ابھی اسی دنیا میں کر لینا ہے تو روزِ آخرت کا بھلا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
جن کے پاس حساب لینے اور سزا دینے کا اختیار نہیں وہ اس اختیار کو بے دھڑک استعمال کر رہے ہیں اور ریاست کو جن چیزوں کا حساب لینا اور سزا دینی ہے وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں بُری طرح ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ جڑانوالہ جیسے واقعات جہاں ہماری مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں اس سے کہیں زیادہ قانون کی کسمپرسی اور ریاست کی بے بسی کے باعث ہو رہے ہیں۔ درجنوں واقعات ہیں جن کے بعد حکومت نے بڑے زور دار اعلانات کیے کہ کسی ذمہ دار کو نہیں بخشا جائے گا اور کسی سے رعایت نہیں کی جائے گی۔ پکڑ دھکڑ ہوتی ہے۔ مذمتی بیانات دیے جاتے ہیں۔ امدادی رقم کا اعلان ہوتا ہے۔ دورے ہوتے ہیں۔ فوٹو سیشن ہوتا ہے اور بات کھوہ کھاتے چلی جاتی ہے۔
اول تو کسی کو سزا ہی نہیں ملتی۔ اگر ملتی ہے تو اتنی تاخیر سے کہ کسی کو اصل کیس ہی یاد نہیں رہتا۔ اپیل در اپیل اور مذہبی گروہوں کے آگے سرخم کر دینے کی روایت نے کسی کیس کو اس کے انجام تک نہیں پہنچنے دیا۔ کم از کم مجھے تو بالکل یاد نہیں کہ ایسے کسی کیس میں ملزمان کو قرار واقعی چھوڑ معمولی سی سزا بھی ملی ہو۔ بلوہ اور ہجوم کو جواز بنا کر کیس کو کسی اور طرف لے جایا جاتا ہے اور پھر سب کچھ دھویں کی طرح مٹ جاتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ منصف ہسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہیں‘ متاثرہ شہروں کا دورہ بھی کرتے ہیں اور میڈیا میں بھی دکھائی دیتے ہیں مگر عدل بذاتِ خود کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ عدل گلیوں کے بجائے عدالت میں دکھائی دینا چاہیے۔ اس قسم کے فیصلے اگر فوری طور پر ہوں گے تو اس قسم کے واقعات کا سدباب ہو سکتا ہے لیکن اب تک ایسا کبھی نہیں ہوا۔ شانتی نگر کے واقعہ سے لے کر جڑانوالہ کے واقعہ تک سانحات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ہر بار پہلے سے زیادہ شدت سے رونما ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر عدل و انصاف کے نظام کی سست روی اور ناکامی ہے‘ جس سے نہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو رہی ہے اور نہ ہی قانون کی طاقت اور ریاست کی رِٹ قائم ہو رہی ہے۔ کسی جرم پر سزا نہ دینا دراصل اس جرم کی اعلانیہ سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے مترادف ہے اور ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔