پی ٹی آئی کے گمنام ہیرو کا شکریہ

پورا ملک اس وقت ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے لیکن مجھے کچھ اور سوجھ رہا ہے۔ میں اس وقت سپریم کورٹ‘ پارلیمنٹ‘ کابینہ اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان جاری جنگ‘ جس کا نتیجہ خوفناک نتائج کی شکل میں نکل سکتا ہے‘ پر فوکس کرنے کے بجائے کسی اور ایشو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ اپنی حالت وہی ہو چکی جو کبھی چچا غالب نے یوں بیان کی تھی:

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

یا پھر واصف علی واصف کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا جاتا ہے۔ دوست ملنے آیا۔ پریشان لگ رہا تھا۔ پوچھا: کیا ہوا؟ دوست بولا: ملکی حالات پر پریشان ہوں۔ واصف صاحب نے پوچھا: میاں یہ حالات تم نے خراب کیے؟ جواب ملا: نہیں۔ پوچھا: آپ یہ ملکی حالات ٹھیک کر سکتے ہیں؟جواب دیا: میری کیا اوقات کہ ٹھیک کر سکوں۔ اس پر واصف صاحب نے فرمایا: پھر تشریف رکھیں اور آرام سے چائے پئیں۔ ملتی جلتی بات فیض صاحب سے بھی منسوب ہے کہ جب کسی نے پوچھا کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ جواب دیا: میاں پریشان نہ ہوں‘ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جب بھی پاکستان کے حوالے سے ٹیشن ہو تو میں غالبؔ‘ واصفؔ صاحب اور فیضؔ صاحب کے مذکورہ شعر و واقعات خود کو سنا کر دل کو تسلی دے دیتا ہوں کہ میرا حالات کی خرابی میں کتنا ہاتھ ہے یا میں کتنا ٹھیک کرسکتا ہوں۔

آپ کے بس میں صرف ایک ہی چیز ہے کہ آپ کی وجہ سے اس ملک‘ معاشرے یا فرد کو نقصان نہ پہنچے۔ آپ کا اتنا حصہ بھی بہت ہے کہ آپ نے اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اتنی تسلی دل کے لیے کافی ہے۔ آپ سب لوگوں کے کاموں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ جو لوگ اس ملک کے عوام پر حکمرانی کرتے ہیں‘ وہی اس کے اچھے برے کے ذمہ دار ہیں۔ وہی اس ملک کے فیصلوں کے ذمہ دار ہیں۔ انہی کے پاس فیصلے کرنے کی طاقت ہے۔ میرا جرنلزم میں برسوں کا تجربہ کہتا ہے کہ اس ملک کا جو بھی حکمران بننا چاہتا ہے‘ اس کے ذہن میں ملک اور قوم کی بھلائی سے زیادہ کچھ اور چیزیں ترجیح کا درجہ رکھتی ہیں۔ مان لیا وہ نام ملک اور قوم کا لیتے ہیں لیکن انہیں قریب سے دیکھا تو پتا چلا ان کے اندر خود غرضی اتنی زیادہ ہے کہ وہ اس سے باہر نہیں نکل پاتے۔ ان کے نزدیک اپنا خاندان‘ اپنا خاندانی کاروبار‘ ذاتی یار دوست یا پھر چندہ دینے والی پارٹیاں یا لوگ اہم ہوتے ہیں۔ وہ اقتدار میں رہ کر اپنے کاروبار یا دوستوں کے کاروباری مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ حکومتیں عوام میں اپنی پاپولیرٹی کھو بیٹھتی ہیں۔

خیر‘ اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے لگا کہ ٹویٹر پر اچانک سب لوگ مہذب ہو گئے ہیں۔ حیران ہوا کہ کہیں سے کسی گالی یا غلط جملے کا استعمال نہیں ہورہا۔ کوئی کسی کا مذاق نہیں اڑا رہا۔ کوئی کسی کو برا بھلا نہیں کہہ رہا۔ اچانک سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ حیران ہوا یہ چمتکار کیسے ہوا۔ یہ کرشمہ کس نے دکھا دیا۔ جو کام برسوں سے نہیں ہو سکا ‘ وہ ایک دن میں کیسے ہوگیا؟ سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا پر راج ہے۔ یہاں زیادہ لوگ پی ٹی آئی کے حامی ہیں۔ اس جماعت کے حامی عمران خان یا پی ٹی آئی کے سیاسی یا صحافتی ناقدین کا جینا حرام کیے ہوتے تھے۔ کچھ تو پی ٹی آئی حکومت نے خیبرپختونخوا کی طرز پر تنخواہ پر بھرتی کر رکھے تھے‘ جن کا کام پارٹی کے کارناموں کو ہائی لائٹ کرنے کے نام پر مخالفین کو گالیاں دینا یا ان کی ٹرولنگ کرنا تھا لیکن ساتھ ہی پی ٹی آئی کے جینوئن حامی بھی اس نیک کام میں روزانہ اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ یوں ٹویٹر پر سارا دن یہ شغل چلتا رہتا تھا۔

اب پتا چلا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر کسی سمجھدار انسان نے ان سب کو سمجھایا کہ دراصل ہماری اس ٹرولنگ اور گالی گلوچ کا فائدہ بھی ہمارے مخالف سیاستدانوں‘ صحافیوں اور اینکرز کو ہو رہا ہے۔ جب پی ٹی آئی کے ہزاروں ہمدرد اپنے مخالفین کی ٹویٹس کے نیچے جا کر انہیں برا بھلا کہتے ہیں یا ان کی ٹرولنگ کرتے ہیں تو اس کا فائدہ انہیں ہوتا ہے کہ اس سے ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی ریچ اور امپیکٹ بڑھ جاتا ہے۔ ان کے فالورز بڑھتے ہیں اور ٹویٹر کے سسٹم میں اس اکاؤنٹ کو زیادہ اہمیت ملتی ہے کہ وہ اکاؤنٹ زیادہ لوگوں کو انگیج کر رہا ہے۔ یوں پی ٹی آئی دوستوں کا خیال تھا کہ انجانے میں وہ ان سب مخالف سیاستدانوں اور صحافیوں کا ٹویٹر پر بھلا کررہے تھے‘ لہٰذا فوراً سوچا گیا کہ اپنے فالورز کو منع کر دیا جائے کہ وہ اب ایسے ٹویٹر اکاؤنٹس پر کوئی کمنٹس نہیں کریں گے جو ان کے مطابق ان کی پارٹی فلاسفی سے اتفاق نہیں کرتا یا ان کے عظیم لیڈر عمران خان سے وفاداری کا حلف نہیں اٹھاتا۔

ان سب کو یقین ہے کہ اس وقت ٹویٹر پر مخالفین کے ان اکاؤنٹس کا جتنا بھی اثر و رسوخ ہے‘ وہ ان کی اس ٹویٹ کے نیچے نکالی گئی گالیوں یا برے بھلا کہنے کی وجہ سے ہے۔ اگر وہ سب ان اکاؤنٹس سے کیے گئے ٹویٹس کے نیچے گالیاں یا کمنٹس دینا بند کر دیں گے تو ان اکاؤنٹس کی اہمیت ٹویٹر کے سسٹم میں نہ صرف کم ہوگی بلکہ اس کی ریچ صفر رہ جائے گی اور ان اکاؤنٹس سے کیے گئے ٹویٹس کم لوگوں تک پہنچیں گے اور ان کا پی ٹی آئی کے خلاف کیا گیا پروپیگنڈا بے اثر ہوکر رہ جائے گا۔ یوں اس کامیاب تحریک کے بعد ٹویٹر اچانک مہذب لگنے لگ گیا ہے۔ ورنہ چند صحافیوں نے تو ان گالی گلوچ سے تنگ آکر اپنے ٹویٹر پر اس آپشن کو ہی بند کر دیا تھا جس کے تحت وہاں کمنٹ کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ اس اکاؤنٹ ہولڈر کی مرضی ہے کہ وہ کمنٹ کا آپشن کھلا رکھتا ہے یا پھر بند کر دیتا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی مخالف اکثر صحافی اور اینکرز کمنٹس کا آپشن آف کر چکے ہیں۔ ان اینکرز اور صحافیوں کو پہلے ہی اس بات کی پروا نہ تھی کہ ان کی وال پر کمنٹس نہ ہونے سے ان کے ریچ کم ہوگی یا لوگ انہیں فالو کرنا چھوڑ دیں گے۔ وہ اب بھی ٹویٹس کرتے ہیں اور انہیں ریچ کی پروا نہیں رہی۔

دراصل پی ٹی آئی والوں کو ایک بات کی داد دینا ہوگی کہ انہوں نے بڑے بڑے جید صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ان سب کو مجبور کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے ٹویٹر پر ری ٹویٹس لینے ہیں‘ ٹی وی شو یا یوٹیوب چینلز پر ویوز لے کر لمبے ڈالرز کمانے ہیں تو پھر انہیں بنی گالا اور زمان پارک جا کر عمران خان کے ہاتھ پر بیعت کرنی ہوگی۔ میں ذاتی طور پر ایسے چند اینکرز اور یوٹیوبرز کو جانتا ہوں جو نجی محفلوں میں خان صاحب کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن ٹی وی سکرین پر تعریفوں کے پل باندھ دیں گے۔ یہی عمران خان اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم کی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے صحافیوں کو اپنا محتاج اور نکیل ڈال کر پاپولر جرنلزم پر لگا دیا ہے۔
بہرحال پی ٹی آئی کے اس گمنام ہیرو کا شکریہ جس نے ٹویٹر پر ”نو کمنٹس نو ریچ‘‘ کا نیا ٹرینڈ متعارف کرا کے ٹویٹر کو مہذب بنانے کی طرف پہلا بڑا قدم اٹھایا اور گالی گلوچ کلچر ختم کرایا ہے۔ اب اس نئی تحریک کے بعد تو لگتا ہے کہ سب کی عزت سوشل میڈیا پر محفوظ ہے جبکہ پی ٹی آئی والے بھی خوش ہیں کہ انہوں نے مخالفین کی ریچ کم کر دی ہے۔ اللہ کرے یہ تحریک آنے والے برسوں میں بھی چلتی رہے اور سوشل میڈیا پر سب کی عزتیں محفوظ رہیں۔

ٹویٹر اب پڑھے لکھے لوگوں کا فورم لگنا شروع ہوگیا ہے۔ اس فورم کو خراب کرنے کا الزام پی ٹی آئی پر لگتا تھا تو پی ٹی آئی نے ہی اس فورم کو پاکیزگی بخش دی ہے۔ بہت شکریہ اے گمنام ہیرو!