توشہ ٔخاص

ایسے بے درد موسم میں جب حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے قوم کو احمق اور بے وقوف بنانے کیلئے قسط وار شوشے چھوڑنے کا مشغلہ اپنا رکھا ہے اور عوام بھی اپنے اصل مسائل کو بھول کر ان چھوڑی جانے والی درفطنیوں میں الجھے ہوئے ہوں‘ اگر کوئی کتاب‘ کوئی نظم یا غزل آپ کو لطف دے اور ا س جھمیلے سے تھوڑی دیر کیلئے سہی‘ آپ کو کسی اور دنیا میں لے جائے تو بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔ میں گزشتہ کئی روز سے اسی دنیا میں مست ہوں اور مزے سے ہوں۔ اسے آپ بے شک فرار کہہ لیں‘ مگر فرار زندہ رہنے کی خواہش کی علامت ہے۔
میں نے حارث خلیق کو پہلی بار چار پانچ سال پہلے نیشنل بک فاو ٔنڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والے کتاب میلے میں سنا۔ ایسا نہیں کہ میں نے اس سے پہلے حارث خلیق کا نام نہیں سنا تھا یا اسے پڑھا نہیں تھا لیکن اس طرح رُوبرو بیٹھ کر سننے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ یہ آزاد نظم پر ہونے والی ایک نہایت ہی شاندار علمی نشست تھی جس میں آزاد نظم اور شاعری کے بہت بڑے بڑے نام موجود تھے‘ وہاں مجھ جیسے طالب علم کیلئے سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ اتنا کچھ کہ اس عاجز کا دامن اس کیلئے بہت چھوٹا پڑ گیا تھا۔ کیا دن تھے جب نیشنل بک فاؤنڈیشن شہرِ اقتدار میں تین دن کا میلہ سجاتا تھا اور میلہ بھی ایسا بھرپور کہ یہ تین دن تو گویا چٹکیوں میں گزر جاتے۔ کسی کمرے میں آزاد نظم پر بات ہو رہی ہوتی تھی تو کسی کمرے میں افسانے پر بھرپور نشست چل رہی ہوتی۔ کسی کمرے میں کلاسیکی غزل کی بنیاد سے تخلیق پانے والی جدید غزل پر علمی گفتگو ہماری سیرابی کرتی اور کہیں کتاب خوانی کی محفل چل رہی ہوتی۔ اسی قسم کی ایک نشست میں حارث خلیق کو سننے کا موقع ملا۔ حارث خلیق نے جو نظم سنائی اس کا عنوان ”غلام اعظم مصلی‘‘ تھا۔
یہ نظم تادیر ذہن میں گونجتی رہی۔ ایسی باریک بینی اور ا س پر ایسی شاندار ڈکشن اور بھلا اس قسم کے موضوعات بھی کون سے عام ہیں؟ اور ایسے خاک نشینوں پر لکھنا کون سا آسان کام ہے؟ ویسے تو اس قسم کے یا اس سے ملتے جلتے موضوعات پر لکھنے کا فیشن عرصے سے چل رہا ہے لیکن مخصوص انداز میں کئے جانے والے پراپیگنڈے سے اگر شاعری ہی قتل ہو جائے تو پھر اسے پڑھنے میں کیا خاک لطف آئے گا؟ حارث خلیق کی نظم کچھ کہے بغیر ہی سب کچھ کہہ رہی تھی اور اس کٹھور موضوع پر لکھتے ہوئے بھی حارث خلیق نے شاعری کی نزاکت کو کہیں مجروح نہیں کیا۔ نیشنل بک فاو ٔنڈیشن کا کتاب میلہ اور شہرِ بے وفا میں تین دن کا موج میلہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی رخصتی کے ساتھ ہی اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب اس کرسی پر کوئی ایسا سفارشی تعینات ہے جس کو نہ تو ادب سے کوئی رغبت ہے اور نہ ہی ایسے معاملات کو چلانے کی صلاحیت۔ سو اب حارث خلیق جیسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ملنا پڑتا ہے۔ بیورو کریسی کے سجائے گئے میلوں کی کسمپرسی کا تو وہی حال ہوتا ہے جو ستلج ٹیکسٹائل ملز کا ہوا تھا۔
حارث خلیق غزل بھی لکھتا ہے مگر میرے خیال میں اس کا اصل میدان نظم ہے اور مجھے بھی اس کی نظم ہی پسند ہے۔ اس کی نظم کا موضوع حیرت ناک حد تک اس کی پوری گرفت میں رہتا ہے اور اس کے موضوعات بھلا کون سے عام موضوعات ہیں۔ اس کی نظم کے موضوعات کا محور اس معاشرے کے مجبور‘ مقہور اور راندہ ٔدرگاہ طبقات ہیں۔ اس کی نظم افتادگانِ خاک کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے کردار ہمارے معاشرے کے پسے ہوئے لوگ ہیں مثلاً ڈوم‘ میراثی‘ مصلی‘ کمّی‘ ماشکی‘ چوڑھے‘ چمار‘ نال بند‘ چنگڑ اور کنجر! بھلا ان چھوٹے ( ہماری معاشرتی پیمانے کے مطابق) لوگوں پر ایسی بڑی نظمیں کس نے لکھی تھیں؟ مشتے نمونہ از خروارے حارث کی صرف ایک نظم۔
رشیدہ ڈومنی
رشیدہ ڈومنی بھوپال میں پیدا ہوئی لیکن
ادائیں‘ ناز نخرے‘ گائیکی کے گُر
سبھی لاہور میں سیکھے
لڑکپن اور جوانی
انترے‘ استھائی‘ مکھڑے‘ مرکیوں کی نذر کر دی
پھر سوا اس پر زباں دانی
جگر اور داغ کی غزلیں ہوں
یا اختر پیا کے گیت
اشارے اور کنایے‘ رمز اور معنی
دلوں پر دھیرے دھیرے کھلتے جاتے
وہ کبھی مصرع پلٹتی /اور کبھی دولخت شعروں کو
سُروں سے جوڑ دیتی/ٹھیک مخرج اور گلے کا سوزِ بے پایاں
فضا میں کیف کی چنگاریاں سی پھوٹتیں
اور سننے والوں کے بدن ا یسے دھکتے/بالاخانہ گرم ہو جاتا
محلے کی پرانی نائنوں اور دھوبنوں سے
اس نے بنیادی سی پنجابی تو سیکھی
دسترس استاد کالے خان کی صحبت سے آئی
پوٹھواری اور پہاڑی‘ لہندے اور ماجھے کی
سب لہجے سمجھتی
شام جب ڈھلتی وہ ٹپّے‘ ماہیے‘ دوہڑے‘ کھنکتی بولیاں/اور ہوکے بھرتی کافیاں کچھ اس طرح گاتی
کہ ساندل اور نیلی بار تک اُڑتے پرندوں کے
پروں میں بجلیاں سی کوند جاتیں
گر کبھی بیمار پڑتی /شہر کا موسم بدل جاتا
اور اس کو چاہنے اور سننے والے
دال‘ سالن‘ روٹیاں خیرات کرتے
جب طبیعت کچھ سنبھلتی
سبز برقعہ اوڑھ کر وہ
پاک دامن بیبیوں کی قبر پر جاتی
رشیدہ ڈومنی گزری
پرانی نائنوں اور دھوبنوں کی بیٹیوں نے
اس کے چہلم تک
نہ کنگھی کی‘ نہ چہلیں‘ عاشقوں کو دور رکھا
شہر میں اس سال بارش بھی بہت برسی
میانی صاحب اور اطراف کے
بوڑھے فقیر اب بھی بتاتے ہیں کہ ہاڑ اور جیٹھ میں
اس ڈومنی کی قبر پر ایک پھول کھلتا ہے
اگر اس پھول کی پنکھڑی چبا لیں
شاعروں کا فن‘ گلوکاروں کا سینہ
بے کسوں کے درد سے معمور ہوتا ہے
خدا کے عشق کی تاثیر سے پُرنور ہوتا ہے
یہ صرف ایک نظم ہے اس کے توشہ خاص میں نیامت اللہ سعید بنگش‘ سلامت ماشکی‘ خمیسو‘ جعفر زٹلی‘ غلام اعظم مصلی‘ صابرہ نورین‘ ایشور کمار‘ عثمان مسیح کی آخری سانس اور اس جیسی بہت سی نظمیں بھی ہیں۔ یہ نہیں کہ حارث خلیق اپنی نظموں میں حسن و عشق کا اظہار نہیں کرتا مگر اس کے حسن اور عشق کا معیار اور انتخاب فی زمانہ والے عشق سے بالکل مختلف ہے۔ ایسا کہ آپ پر حیرانی کے کئی باب وا کر دے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس کی نئی کتاب ”حیراں سرِ بازار‘‘ کا نام ہے۔ سارا کالم لکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ حارث خلیق کالم کی نہیں‘ پڑھنے کی چیز ہے۔