تین بیانیوں کی وفات حسرتِ آیات … (3)

میاں شہباز شریف 1997ء سے لے کر 2018ء تک کے اکیس سال کے عرصے میں تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے اور اس دوران وہ بارہ سال سے زائد عرصے تک پنجاب کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ ڈھیروں مثبت عوامل کے زور پر‘ جن میں مرکز میں ان کے برادرِ بزرگ کی وزارتِ عظمیٰ بھی شامل ہے ”وہ ایک بہترین منتظم ہیں‘‘ کے طور پر ان کی کردار سازی کی گئی۔ انہیں ”شہباز سپیڈ‘‘ کا خطاب بخشا گیا اور قوم کو بتایا گیا کہ ان کی کارکردگی کی شہرت کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بج رہاہے۔ چین اور ترکیہ والے ان کی صلاحیتوں پر رشک کرتے ہیں اور ان کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور راجہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب کو دوسری بار اِن جیسا اعلیٰ منتظم نصیب ہوا ہے۔
یہ سب کہانیاں اس وقت تک اپنے جلوے بکھیرتی رہیں جب تک انہیں سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ملتا رہا اور انہیں اوپر نیچے‘ دائیں بائیں سے ہر قسم کے امدادی دستے فراہم ہوتے رہے۔ ویسے ان کی ساری انتظامی صلاحیتوں میں سب سے نمایاں افسروں کی بے عزتی کرنے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کی صلاحیت تھی۔ اوپر سے خوش قسمتی سے انہیں بھاری مینڈیٹ کا سہارا بھی میسر تھا اور وہ کسی قسم کی سیاسی بلیک میلنگ‘ اراکینِ اسمبلی کے ہوشربا مطالبات اور بھاری حزبِ مخالف سے بچے ہوئے تھے۔ نیز یہ کہ ملک کے مالی حالات جیسے بھی تھے‘ ان کا صوبہ کسی قسم کے فنانشل مصائب کا شکار نہیں تھا لہٰذا ”سب اچھا ہے‘‘ کا پروگرام چل رہا تھا۔ تاوقتیکہ اسلام آباد جا کر وزیراعظم بننے کے شوق کا شکار نہ ہو گئے اور ان کی انتظامی صلاحیتوں کا پول کھل گیا۔ ایک انگریزی محاورے کا ترجمہ ہے کہ ”زنجیر کی طاقت اس کی کمزور ترین کڑی میں پوشیدہ ہوتی ہے‘‘۔ جس طرح کسی باصلاحیت شخص کی صلاحیتیں برے حالات میں اپنا رنگ دکھاتی ہیں‘ اسی طرح نکمے آدمی کی صلاحیتوں کا ڈرامہ بھی برے حالات میں سب پر آشکار ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
ابھی دور نہ جائیں‘ صرف چند روز پیشتر پٹرول والا معاملہ دیکھ لیں۔ آئل کمپنیوں نے جونہی یہ سنا کہ پٹرول کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونے جا رہا ہے اور ان کے سٹاک پڑے پڑے دو چار دن کے بعد انہیں اربوں روپے کا فائدہ دے جائیں گے اور وہ کسی قسم کی ہینگ یا پھٹکڑی لگائے بغیر لمبا مال کما لیں گی‘ انہوں نے پٹرول کی سپلائی روک لی۔ آئل کمپنیوں نے پٹرول پمپوں اور پٹرول پمپوں نے عوام کو پٹرول دینے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پٹرول پمپوں پر عوام کی لائنیں لگ گئیں اور عوام پٹرول کے لیے خوار و خستہ ہو کر رہ گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت آئل کمپنیوں کو کھینچتی اور ان کے سٹاک کا جائزہ لے کر انہیں پٹرول پمپوں کو پوری مقدار میں پٹرول اور ڈیزل فراہم کرنے کا پابند کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتظام کرتی کہ پٹرول پمپ پوری مقدار میں حاصل کردہ پٹرول اور ڈیزل کو عوام تک پہنچاتے‘ بصورت دیگر ان آئل کمپنیوں اور پٹرول پمپوں کو سپلائی میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں جرمانے کرتی یا ان کے لائسنس منسوخ کرتی مگر بجائے اس کے کہ سرکار اس بحران کا انتظامی حل نکالتی‘ اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اس نے مقررہ تاریخ یعنی یکم فروری کے بجائے اس سے دو دن قبل انتیس جنوری کو دوپہر گیارہ بجے سے نئی اضافہ شدہ قیمت کا اطلاق کر دیا۔ پٹرول پمپوں نے روکی گئی سپلائی والا نیا سٹاک پینتیس روپے فی لٹر زیادہ قیمت پر بیچ کر عوام کی جیب سے اربوں روپے بٹور کر اپنا الو سیدھا کر لیا۔
اگر اس ڈکیتی کا مختصر سا جائزہ لیا جائے اور فی پٹرول پمپ پٹرول کے سٹاک کا اوسط نچلی سطح پر رکھتے ہوئے صرف تیس ہزار لٹر بھی رکھیں تو سمجھیں ہر پٹرول پمپ نے انتیس جنوری کو کچھ کیے بغیر دس لاکھ روپے سے زیادہ کی دیہاڑی لگائی۔ جب عمران خان گورنمنٹ نے رات کو بارہ روپے قیمت بڑھائی تھی تو مریم اورنگ زیب نے ان کی حکومت کو رات کے اندھیرے میں بارہ روپے بڑھانے کا طعنہ مارا کہ انہیں یہ قیمت بڑھاتے ہوئے شرم نہیں آئی‘ دل نہیں دہلا۔ اب نہ کسی کو خود شرم آ رہی ہے اور نہ ہی دل دہل رہا ہے۔سارے ملک کی پولٹری انڈسٹری کو اتحادی پارٹی کے ایک وزیر نے یرغمال بنا کر رکھ دیا۔ برائلر کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی اور فائل وزیراعظم کی میز پر پڑی گلتی سڑتی رہی۔ جی ایم او کی پخ ڈال کر بندرگاہ پر لنگر انداز سویابین کے جہازوں کی کلیئرنس کے پھڈے نے عوام اور ملک کے اربوں روپے کا کونڈا کر دیا۔
عالم یہ ہے کہ شہرۂ آفاق منتظم نے 78 رکنی کابینہ کے ساتھ دنیا میں سب سے بڑی کابینہ رکھنے کا ریکارڈ تو قائم کر لیا ہے مگر کارکردگی دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ بائیس کروڑ آبادی والے ایسے ملک کے وزیروں‘ مشیروں اور معاونین کی تعداد تھی جس کے محض چار صوبے ہیں جبکہ ہمارے ہمسایے میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تازہ مردم شماری کے مطابق بھارت اب ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور اس نے آبادی کے لحاظ سے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے قریب سات گنا اور رقبے کے اعتبار سے تقریباً چار گنا بڑا ہے۔ اگر انتظامی تقسیم کی بات کریں تو پاکستان کے چار صوبوں کے مقابلے میں بھارت اٹھائیس صوبوں (ریاستوں) کے ساتھ ہم سے سات گنا زیادہ بڑی انتظامی تقسیم کا حامل ہے۔ بھارت کی مرکزی حکومت میں وزیر‘ مشیر‘ معاونِ خصوصی وغیرہ ملاکر ساری کابینہ میں کل 77 اراکین ہیں جبکہ ہم نے ان سے ایک بندہ زیادہ رکھ کر دنیا بھر میں سب سے بڑی وزارتی ٹیم کا ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔
چلیں اس ریکارڈ سے اگر کوئی نمایاں فرق دکھائی دیتا یا کوئی بہتری محسوس ہوتی تو ہم اس ریکارڈ پر طعنہ مارنے کے بجائے خوشی محسوس کرتے مگر یہ ریکارڈ باعثِ شرمندگی ہے کہ اس بھان متی کے کنبے کو جوڑنے کے لیے جس قسم کی اینٹیں اور روڑے اکٹھے کیے گئے ہیں‘ ان کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سرکاری خرچے اور عوام کے ٹیکسوں پر ایک سے ایک فارغ بندہ محض سیاسی فائدے اور اتحادیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قریب الدیوالیہ ملک کی گردن پر سوار کر دیا گیا ہے۔ زیادہ تفصیل کیا لکھوں‘ اگر کسی کو میری بات پر اعتبار نہیں تووہ ان 78 وزیروں‘ مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی فہرست ا پنے سامنے رکھ لے‘ اسے میری بات کی سچائی کا اندازہ ہو جائے گا۔
چلیں وزیروں کو تو چھوڑیں کہ وہ کیسے بھی نکمے ہی کیوں نہ ہوں‘ آخر کار عوامی نمائندے ہیں اور وزیراعظم کو جیسے ہیں‘ جہاں ہیں کی بنیاد پر عطا ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں مشیر اور معاونینِ خصوصی انہی نکموں کو درست اور صائب مشورے دینے کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں۔ اب یہ مشیر اور معاونین خود کس قسم کی صلاحیتوں کے مالک ہیں‘ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیں۔ مشتے نمونہ از خوارے کے طور پر ملتان سے شہباز شریف نے اپنے معاونِ خصوصی کے طور پر جس ہیرے کا انتخاب کیا‘ مجھے گمان ہے کہ اس نے اصل میں اگر ہائی سکول کی شکل بھی دیکھی ہو تو غنیمت ہے۔ موصوف نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بس سٹینڈز اور ویگن اڈوں سے بھتہ لینے کی شکل میں کیا تھا۔ جب قومی اسمبلی کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تو اپنی طرف سے جو معزز ترین پیشہ ان کی سمجھ میں آیا‘ وہ دودھ فروشی تھا۔ جب وہ معاونِ خصوصی مقرر ہوئے تو میں نے اپنی معلومات میں اضافے کی غرض سے ایک دوست سے اس انتخاب کی وجہ دریافت کی تو اس نے از راہِ تفنن بتایا کہ موصوف کو ڈیری ڈویلپمنٹ کے شعبے میں تجربے کی بنیاد پر معاونِ خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ (جاری)