اب بھی قوم کو شک ہے؟

کیا مقدر پایا ہے اس ملک اور عوام نے۔ جو حال اس ملک کا سب نے ملکر کر دیا ہے اس کے بعد کیا تسلی دی جائے یا امید رکھی جائے۔ بہت سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں جب میں کہتا ہوں کہ ہم پیدائشی طور پر نالائق لوگ ہیں۔ ہر انسان خود کو تیس مار خان سمجھتا ہے‘ لہٰذا اگر اسے کہا جائے کہ نہیں صاحب! آپ اتنے لائق بھی نہیں ہیں جتنا خود کو سمجھ کر دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں‘ وہ فوراً ناراض ہو جائے گا۔
حیران ہوتا ہوں لوگوں کیلئے ایک وزارت اتنی اہم ہو جاتی ہے۔ ان کا تکبر اور غصہ ان پر حاوی ہو جاتا ہے‘ پھر وہ کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔ بھٹو صاحب چاہتے تو شیخ مجیب کو وزیراعظم تسلیم کر سکتے تھے لیکن وہی بات کہ ان کی انانیت سامنے آگئی اور مجیب‘ بھٹو ایشو میں ملک ٹوٹ گیا۔ اگرچہ بھٹو صاحب کے دور میں بہت اچھے کام بھی ہوئے لیکن انہوں نے بھی اپوزیشن کا وہی حشر کیا جو عمران خان دور میں ہوا۔ میرا خیال ہے اس وقت انانیت کو پیچھے کیا جاتا تو شاید ملک بچ جاتا۔ یحییٰ خان بھی اس کھیل میں شریک ہوئے کہ بنگالیوں کی کیا جرأت کہ وہ الگ ملک بنا کر دکھائیں۔ پھر الگ ملک بنا۔
عمران خان وزیراعظم تھے۔ فیٹف کا پاکستان پر دباؤ تھا کہ وہ ایسے قوانین متعارف کرائے جن کے بعد ملک گرے لسٹ سے نکل سکے ورنہ بلیک لسٹ ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔ اس وقت عمران خان صاحب کی حکومت نے اپنا ایک وفد اپوزیشن جماعتوں کے پاس بھیجا کہ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے آپ ہمارے ساتھ مل کر قانون سازی کریں تاکہ ملک کو بچایا جائے‘ سیاست ہوتی رہے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن خود اس معاملے کی سنگینی کو سمجھ کر ہاؤس میں ترامیم میں ووٹ ڈالتی کہ ملک کا مسئلہ تھا‘ لیکن نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس کے بدلے میں اپنا کام نکلوالنے کا منصوبہ بنایا۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے گھر پر ہونے والی کئی ملاقاتوں میں آخر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لوگوں نے جیب سے چند صفحات پر مشتمل ایک پلندا نکالا اور عمران خان حکومت کے وزیروں‘ جن کی قیادت شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک کررہے تھے‘ کو دیا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو بل پر سپورٹ کریں تو آپ کو ہماری یہ شرائط ماننا ہوں گی۔ یہ شرائط نیب کے قوانین بدلنے کے بارے میں تھیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے اکثر لیڈر اُس وقت نیب کے پاس گرفتار تھے۔ کہا گیا کہ اگر نیب قوانین میں ترامیم نہ کی گئیں تو وہ ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ اس پر عمران خان حکومت کے ہاتھ ایک ایشو آگیا۔ شاہ محمود قریشی وہ سارا پلندا اٹھا کر اسمبلی میں لے آئے اور ایک دھواں دھار تقریر کی کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ قومی سلامتی کے معاملے پر بھی سیاست کررہے ہیں۔ عمران خان نے بھی دھواں دھار تقریریں کیں جس کا جواب بعد میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے ہاؤس میں دیا لیکن اب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کا کہنا تھا ہم فیٹف پر ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ پورا آئینی پیکیج ہو اور جو دیگر ایشوز ہیں ان پر بھی قانون سازی کریں۔
عمران خان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ محاذ آرائی کئی دن تک چلی۔ عمران خان ڈٹ گئے کہ ہم فیٹف قانون سازی کے بدلے این آر او نہیں دیں گے۔ اپوزیشن کا کہنا تھا ہم کیوں ووٹ ڈالیں اگر عمران خان ہمیں جیلوں میں ڈال رہا تھا۔ یوں آخرکار عسکری قیادت کو درمیان میں آنا پڑا۔ اپوزیشن لیڈروں اور عسکری قیادت کے درمیان خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جس میں اپوزیشن کو قائل کیا گیا کہ ان کا اس اہم قومی معاملے پر اسمبلی میں ووٹ ڈالنا کتنا اہم ہے۔ وہی اپوزیشن جو عمران خان حکومت کے کہنے پر راضی نہ تھی وہ راضی ہوگئی۔ یہ الگ کہانی ہے کہ اس کے کچھ دنوں بعد نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے جیل میں بند لیڈروں کی ضمانتیں ہونا شروع ہو گئیں۔
اب جب سے شوکت ترین کی آڈیو ٹیپس سامنے آئی ہیں جن میں وہ پی ٹی آئی حکومتوں کے دو صوبائی وزرائے خزانہ محسن لغاری اور تیمور جھگڑا کو ہدایات دے رہے ہیں کہ ہم نے کیسے آئی ایم ایف اور شہباز شریف حکومت کے درمیان ہونے والے متوقع معاہدے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اس پر محسن لغاری نے شوکت ترین سے پوچھا: اس سے ریاست کو نقصان تو نہیں ہوگا؟ ان کا مطلب تھا اگر یہ ڈیل نہ ہوئی تو پاکستان کا وہی حشر تو نہیں ہوگا جو سری لنکا کا ہوا؟ شوکت ترین نے کہا: وہ نقصان تو ہوگا لیکن خط لکھنا ہے۔ اندازہ کریں کہ شوکت ترین جو اس ملک کے دو دفعہ سینیٹر اور دو دفعہ وزیرخزانہ رہے ہیں اور انہیں سب پتا ہے کہ اگر اس مرحلے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو نقصان ہوگا وہ پھر بھی جانتے بوجھتے ریاست کو اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ وہ جھگڑا اور لغاری کو گائیڈ لائن دے رہے ہیں کہ انہوں نے کن لائنز پر خط لکھنا ہے تاکہ آئی ایم ایف پاکستان کو قسط جاری نہ کرے‘ پاکستان کا روپیہ مزید گرے‘ دنیا پاکستان سے کاروبار نہ کرے‘ ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو جائے اور ملک میں انارکی پھیل جائے اور حکومت مجبور ہو جائے کہ ملک میں نئے الیکشن کرائے جائیں۔
ہم جیسے عام لوگ تو توقع رکھتے ہوں گے کہ اگر ایسی سوچ پی ٹی آئی کے اندر پائی بھی جاتی تھی تو شوکت ترین جو خود اس ایشو کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور آئی ایم ایف سے ڈیل کر چکے ہیں وہ اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے اور انہیں بتاتے کہ ہماری سیاسی دشمنی اپنی جگہ لیکن یہ کام پاکستان کے ساتھ دشمنی ہوگی‘ لیکن وہ سب کو بھڑکاتے رہے اور تیمور جھگڑا بھی اس تصور سے خوش ہورہے تھے کہ پاکستان ان کے خط کے بعد ڈیفالٹ کر جائے گا۔ پھر ہوگا دما دم مست قلندر۔ میں حیران ہوں کہ کیا بعض لوگوں سے آپ کی محبت اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے ملک سے دشمنی پر اُتر آئیں اور جانتے بوجھتے ملک کو دیوالیہ کرانا چاہتے ہوں؟ یہ ملک تو ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے سونے کی مرغی ہے اور یہ سیاسی ایلیٹ اس مرغی کے انڈے کھارہی ہے۔ یہ تو خوش قسمت ہیں کہ بائیس کروڑ عوام انہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہیں‘ ان پر جانیں نچھاور کرتے ہیں‘ ان کے لیے اپنے بھائی بہنوں سے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا چند لوگوں سے آپ کی سیاسی وابستگی اس سے اہم ہوگئی ہے؟ آپ اپنے ایک پائو گوشت کیلئے پورا اونٹ ذبح کریں گے؟ میں پہلے ایسے محاوروں پر ہنستا تھا کہ بھلا ایسا کون ظالم ہوگا جو اپنے ایک پائو گوشت کے چکر میں کسی کا پورا اونٹ ذبح کرا دے گا لیکن اب یقین آگیا ہے۔ حیرت ہے کہ عمران خان سے عقیدت اتنی گہری ہوگئی ہے کہ اب یہ سب ملک کو نقصان پہنچانے پر تل گئے ہیں۔ اس معاملے پر تو عمران خان کو خود منع کر دینا چاہیے تھا کہ ایسا نہیں کرنا۔ عمران خان تو اس وطن سے زیادہ محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اپنے علاوہ سب کو غدار سمجھتے ہیں۔ تو کیا شوکت ترین جو کچھ کررہے تھے وہ ملک دوستی تھی؟ کیا اب طے ہے کہ عمران خان پاکستان کا آخری انسان بچ گیا ہے اور اس کے بعد قیامت ہے؟
ویسے داد دیں ان دونوں سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو جن کے لیے عوام لڑنے مرنے پر تیار ہیں۔ ایک پارٹی کہتی ہے فیٹف کے ایشو پر پاکستان گرے سے بلیک لسٹ میں جاتا ہے تو جائے ان کی بلا سے‘ دوسرا کہتا ہے ریاست پاکستان کو نقصان ہوتا ہے تو ہونے دو‘ آئی ایم ایف ڈیل نہ ہونے دو۔ یہ ہیں آپ کے حکمران‘ ان کا وژن اور ریاست پاکستان سے ہمدردی اور محبت۔ اب بھی قوم کو شک ہے؟